سکھ مت کے پہلے کیرتنی بھائی مردانہ جی کا تعلق مسلم گھرانے سے تھا


“اِک بابا اکال روپ دوجا ربابی مردانہ” یہ سطر ہندو مت کے مہان وِدھوان “بھائی گُرداس جی” نے لکھے تھے۔ بھائی گُرداس جی نے بہت سارا رَبی کلام لکھا لیکن بنیادی طور پر انھوں نے یہ مہَان الفاظ مرشد اور مرید کی سچی سانجھ کو نذر کیے تھے۔ یہ مرشد تھے خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندے “پہلی پاتشاہی سری گورو نانک دیو جی” کے، جو کہ سکھ مت کے بانی اور پہلے گورو ہیں، جب کہ مرید تھے بابا جی کے، یوں ہر پہلو میں اَنگ سَنگ سہائی “بھائی مردانہ” جی۔

بھائی مردانہ جی نے 1459 عیسوی میں رائے بھوئے دی تلونڈی (موجودہ نام سری ننکانہ صاحب) پنجاب میں، پِتا بھاندرا اور ماتا لکھو کے ہاں ایک مسلم گھرانے میں جنم لیا۔ آپ سے پہلے آپ کے چھے بہن بھائی پیدا ہوتے ہی مر گئے تھے۔ اسی وجہ سے آپ کے والد نے آپ کا نام ”مر جانا“ رکھا تا کہ آپ کو کسی کہ نظر نہ لگے اور آپ سلامت اور حیات رہ سکیں۔ اُس وقت بھائی مردانہ جی کے کنبہ کو نیچ یا پسماندہ سمجھا جاتا تھا کیوں کہ آپ کا کنبہ تہواروں اور رسموں میں شہنائی بجاتا اور ڈھول پیٹتا تھا۔

گویا معاشرہ آپ کے خاندان کے ہر فرد کو ”میراثی“ کہتا تھا۔ آپ نے اپنے خاندان کی روایات کو برقرار بھی رکھا اور اس کے برعکس بھی گئے کیوں کہ آپ نے شہنائی، طبلہ اور ڈھول پر رباب کو اہمیت دی اور رباب کے ساز نکالنے کی مشقیں کی۔ یوں آپ ایک ربابی یعنی ”رباب بجانے والا بن“ گئے۔ اسے قدرت کا حسن اتفاق کہیں یا تقدیر کی سوچی سمجھی چال کہ آپ کا رباب بجانا ہی آپ کو تاریخ میں امر کر گیا۔ ایک غریب اور نچلی ذات کے گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے آپ کے بہت کم دوست تھے، آپ ایک سادگی پسند اور کم گفتار انسان تھے۔

آپ کی پیدائش کے تقریباً دس سال بعد 1469 عیسوی میں، ہی کے شہر میں، بابا گورو نانک جی نے والد ”مہتا کلیان داس“ اور ماتا ”ترِپتا جی“ کے گھرانے میں جنم لیا۔

مہتا کلیان داس رائے بلار کے ہاں پٹواری تھے۔ رائے بلار جی، رائے بھوئے خان جی کے بیٹے تھے۔ جن کے نام سے مکمل دیہات منسوب تھا یعنی ”رائے بھوئے دی تلونڈی“ وہ اس دیہات کے چودھری تھے۔ ان کے پاس 39000 ایکڑ زمین تھی جس میں سے بعد میں وہ آدھی زمیں بابا گورو نانک جی کے نام کر دیتے ہیں۔ رائے بھوئے خان جی کی موت کے بعد یہ زمین ان کے بیٹے رائے بلار جی کے نام ہوگئی لیکن اس وقت رائے بلار جی کی عمر 8 سال تھی۔ زمین کا حساب کتاب مکمل طور پر مہتا کلیان داس جی یعنی بابا گورو نانک جی کے والد صاحب اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔ مہتا کلیان داس جی نہایت دیالو اور صادق انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر حاجت مند ان کے در پر آتے تھے جن میں بھاندرا جی بھی شامل تھے۔ بھاندرا جی کو اُن کے ہاں سے اناج اور غذائی اجناس ملتی تھی جس سے بھاندرا جی کے گھر کا چولہا جلتا تھا۔

ایک دن بھائی مردانہ اور ان کے والد بابا گورو نانک جی کے گھر گئے کیوں ان کو خبر ملی کہ بابا گورو نانک جی کی بڑی بہن ”بی بی نانکی جی“ کا شبھ انند کارج (شادی) سلطان پور کے پٹواری کے ساتھ طے ہوا ہے۔ نانکی جی بابا گورو نانک جی سے 5 سال بڑی تھیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ ایسی پہلی انسان تھیں جنھیں یہ معلوم تھا کہ بابا گورو نانک جی غیر معمولی انسان ہیں۔ نانکی جی کے بعد رائے بلار جی دوسرے شخص تھے جنھوں نے بابا گورو نانک جی کی پیدائش پر ہی ان کو بھانپ لیا اور ان کے پیروں کو چوم لیا تھا۔

بھاندرا جی جب اپنے بیٹے کو ساتھ لیے بابا گورو نانک جی کے گھر گئے تو ان کو یقین تھا کہ مہتا کلیان داس جی اپنی بیٹی کی انند کارج کی خوشی میں باپ اور بیٹے دونوں کی جھولیاں بھر دیں گے۔ لیکن بھاندرا جی جس سوچ کے عوض گئے تھے ان کو اس سے کروڑوں گنا زیادہ ملا۔ جب وہ بابا گورو نانک جی کے گھر پہنچے تو ترِپتا جی نے ان کو دال اور چاول مہیا کیا اور یہ بھی کہا کہ بیٹی کی بیاہ کی رسموں میں شہنائی آپ ہی بجائیں گے جس پر بھاندرا جی نے انھیں کہا کہ یہ ہمارا فرض بھی ہے اور حق بھی۔

اس کے ساتھ ہی بھاندرا جی نے اپنے بیٹے ”بھائی مردانہ جی“ کا تعارف کروایا ترِپتا جی نے جب ان کا نام اور کام پوچھا تو بھاندرا جی نے بتایا کہ رباب بجاتا ہے اور ”مرجانا“ اس کا نام ہے۔
”مرجانا“ یہ کیسا نام ہے؟

ترِپتا جی نے استفسار کیا تو بھاندرا جی نے کہا کہ میرے پچھلے چھے بچے جنم لیتے ہی مر گئے تھے میں نے اس کا یہ نام اسی لیے رکھا تا کہ نظرِ بد سے بچا رہ سکے۔ بابا گورو نانک جی یہ سب دیکھ اور سن رہے تھے۔ انھوں نے بات کے اختتام پر اچانک کہا کہ ”مردانہ“ ترِپتا جی نے بھاندرا جی سے کہا کہ میرا بیٹا کہہ رہا ہے کہ یہ کبھی نہیں مرے گا۔ شاید اس وقت ترِپتا جی اور بھاندرا جی یہ سمجھ رہے تھے کہ بابا گورو نانک جی ان کو لمبی عمر کی دعا دے رہے ہیں لیکن ان کو یہ نہیں معلوم تھا کہ بابا گورو نانک جی بھائی مردانہ جی کے امر ہونے کی بات کر رہے ہیں۔

تاریخ میں یہ بات درج ہے کہ بھائی مردانہ جی نے کہا تھا کہ میری زندگی کی شروعات اس دن ہوئی جب مجھے بابا گورو نانک جی نے نیا نام اور اپنا پہلا دیدار بخشا۔

اس پہلی ملاقات کے بعد بھائی مردانہ جی بابا گورو نانک جی سے مکمل طور پر متاثر ہوئے اور کچھ دنوں تک ان کی بابا گورو نانک جی سے تواتر سے ملاقاتیں ہوتی رہیں لیکن ملاقاتوں کی فہرست میں تھوڑا سا وقفہ تب آیا جب بابا گورو نانک جی کو سلطان پور ان کی بہن کے شہر کاروبار کے واسطے بھیجا گیا۔ لیکن مرید کو مرشد کے بغیر کہاں چین میسر ہے؟

بابا گورو نانک جی کے سلطان پور جانے کے کچھ دنوں بعد ہی بھائی مردانہ جی کو مہتا کلیان داس جی نے اپنے بیٹے کی خیر و عافیت کے لیے سلطان پور بھیجنا چاہا جس پر بھائی مردانہ جی خوش خوشی راضی ہوگئے۔ ایک طویل سفر اور بے تحاشا تھکن کے بعد بھائی مردانہ جی کو سکون محض بابا گورو نانک جی کے دیدار پر ملا۔

بھائی مردانہ جی خود کہتے ہیں کہ تلونڈی سے سلطان پور جانے میں جو تھکاوٹ ہوئی وہ بابا جی کو دیکھتے ہی ختم ہوگئی۔

بابا گورو نانک جی نے جب بھائی مردانہ کو دیکھا تو انھوں نے انھیں سلطان پور میں ہی انھیں کے پاس رکنے کا کہا۔ جس پر بھائی مردانہ جی خوشی خوشی راضی ہو گئے۔ کیوں کہ بھائی مردانہ جی بابا گورو نانک جی کو اپنی آتما کا نگہبان سمجھتے تھے۔ بھائی مردانہ جی بابا گورو نانک جی سے ایسے متاثر ہوئے کہ انھوں نے مکمل چار اداسیوں ( بابا گورو نانک جی کا چاروں سمتوں میں کیے جانے والا آگہی سفر جو جغرافیائی لحاظ سے آدھی دنیا پر محیط ہے) کے دوران بابا گورو نانک جی کی شرڑن اختیار کی اور ہر موڑ پر ان کے انگ سنگ سہائی بنے۔

اس طویل سفر کے دوران بابا گورو نانک جی جب بھی ”گُرباڑی (ربی کلام)“ تخلیق کرتے تو ساتھ ہی ساتھ اسے گنگناتے جس پر بھائی مردانہ جی رباب کی تاریں چھڑتے یوں یہ شبد (گورو صاحب کا لفظی کلام) اور سُروں کے تال میل سے ”کیرتن“ بن جاتا۔ بھائی مردانہ جی جو کہ اَن پڑھ تھے اس کے باوجود بھی بابا گورو نانک جی کے ساتھ اس کلام کو دہراتے اور یوں تاریخ کے پہلے کیرتنی کا خطاب بھائی مردانہ جی کے حصے میں آیا۔ کیوں کہ لفظ کیرتن کا مطلب ہے سکھ مت کے موجودہ گورو، گورو گرنتھ صاحب کے شبد (کلام) کو ایک خاص طرز یا سر میں گانا۔ اور اس فعل کو انجام دینے والے شخص کو ”کیرتنی“ کہا جاتا ہے۔

آج ہم کَہ سکتے ہیں کہ سکھ مت کے پہلے کیرتنی کا تعلق مسلم گھرانے سے تھا اور پہلے کیرتنی بھائی مردانہ جی تھے لیکن کیا بات یہی پر ختم ہو جاتی ہے؟
بالکل نہیں!

کیوں کہ بھائی مردانہ جی کی کی سترہویں نسل تقسیم سے پہلے گورودوارہ سری سچ کھنڈ امرتسر میں کیرتنی کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دیتی تھی اور اب تقسیم کے بعد ان کی اٹھارہویں نسل میں سے ”بھائی حسین لعل جی“ اور انسیویں نسل میں سے ”بھائی سرفراز جی“ لاہور میں گورودواہ ڈیرہ صاحب (شاہی قلعہ کے قریب) اور گورودوارہ جنم استھان سری ننکانہ صاحب میں اپنی پرکھوں کی پرمپرا کو زندہ رکھے ہوئے آج بھی کیرتن گاتے ہیں۔

اسے بھائی مردانہ جی کہ بے پناہ عقیدت کہیے کہ ان کی آنیوالی ہر نسل میں سے کوئی نہ کوئی فرد اپنے آباؤ اجداد کے فرائض کو نبھانا عین عبادت سمجھتے ہیں۔

آج بھی سکھ مت میں بھائی مردانہ جی کو یاد رکھا جاتا ہے اور ان کے عظیم اوپرالے ( امر) اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ آج بھی بھائی مردانہ جی کی نسل کو ہر گورودوارہ صاحب میں نہ صرف کیرتن کرنے کی اجازت دی جاتی بلکہ خوب آؤ بھگت بھی کی جاتی ہے۔
بابا گورو نانک جی نے سچ کہا تھا کہ ”مردا نہ“ (مردانہ کبھی نہیں مرے گا) ، کیوں آج بھی بابا جی کے نام کے ساتھ بھائی مردانہ جی کو ضرور یاد رکھا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).