چھوٹے چور کو برہنہ کرنے والے اسلامی جمہوریہ کے باسی


اس کی قمیض پہ تحریر تھی کہ اپنا ٹائم آئے گا۔ اسے اب پتہ چل گیا ہے کہ چھوٹے چور کا ٹائم نہیں آتا۔ اس کی صرف شامت آتی ہے ہاں، بڑے چوروں کے پروڈکشن آرڈر آتے ہیں۔ اگر آپ کو اس ملک پہ حکمران بن کر جینا ہے تو بڑا چور بننے میں عافیت ہے۔ گرفتاریاں، جیل، سزائیں آپ کی شخصیت کے قد میں اضافہ کریں گی اور کوئی آپ سے لوٹ کا مال واپس لینے کی جرات بھی نہ کر سکے گا۔

یہ معاشرہ اس قدر جنسی گھٹن کا شکار ہے کہ بچہ، بچی، چور، مزدور، ہاری جو جس کے ہاتھ لگ جائے وہ سب سے پہلے اس کی شلوار اتارتا ہے۔ معذرت کہ الفاظ سخت ہیں مگر یہاں دل الفاظ سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ پولیس، عوام، زمیندار، پیر، فقیر جس کا بھی داؤ لگے وہ پہلے شلوار تک پہنچے گا۔ اب تو اس بات کا بھی فرق نہیں رہا کہ جنس کیا ہے۔

آج زینب بچی کی سالگرہ بھی ہے۔ جو وہ زندہ ہوتی تو آج 18 اگست کو 8 سال کی ہوتی مگر ہوس کا نشانہ بنانے کے لئے 7 سال کا ہونا بھی نہیں دیکھا جاتا۔ وہ بس درندگی کا تماشا تھا جو نجانے کب سے قصور میں چل رہا تھا اور یقیناً ابھی بھی تھما نہیں ہو گا۔ کیونکہ آس پاس کا معاشرہ بہرہ ہے جو بچے بچیوں کی چیخیں نہیں سن پاتا اور اندھا ہے جو ان کے ٹوٹے پھوٹے مسخ وجود کچرا کنڈیوں میں دیکھ کر گزرتا جاتا ہے اور قطعی بے حس ہے جو یہ سب واقعات بھی اسے لرزا نہیں پاتے۔ اسلام آباد سے جنسی درندے میاں بیوی کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے۔ 45 بچیاں تو پولیس کا خدشہ ہے۔ نجانے کتنی معصوم بچیاں دارلخلافہ میں چیختی رہیں مگر کسی کو خبر ہی نہ ہوئی۔

ہمارا المیہ ہے کہ قانون موجود ہے مگر اس کا نفاذ کمزور ہے۔ اسی لاقانونیت، بیروزگاری، ذاتی رنجشوں اور جنسی گھٹن کا پریشر ککر جب پھٹتا ہے تو وہ اپنے سے بے بس اور کمزور پہ ہی پھٹتا ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ اپنی ساری وحشت اور جنون بزور طاقت نکال دوں اور خود کو بھی تسلی دے دوں کہ میں طاقت رکھتا ہوں، میں اختیار رکھتا ہوں۔

سیالکوٹ کے دو بھائی جہالت کے ہتھے چڑھے اور پھر ان حفاظ بچوں کی ادھڑی لاشیں ہی گھر پہنچیں۔ اس واقعے کو سبق بنایا جا سکتا تھا لیکن اس کے بعد مختلف شہروں دیہاتوں میں جہالت کے مظاہرے موبائل ویڈیو کے ذریعے دیکھنے میں آئے۔ لیاری میں کٹے سر بچوں کو دیے جاتے تھے کہ ان سے فٹ بال کھیلو۔ جب ایک مشہور گینسٹر کو اس کے مخالف گروپ کے سر غنہ نے سر عام بہیمانہ تشدد سے قتل کیا تو تشدد کے دوران وہاں ہجوم میں بچوں سے تالیاں بجوائی جاتیں، پتھر مروائے جاتے۔ یہ سب کئی سالوں پہ محیط درندگی ہے جو اب ہمارے ہاں اپنی جڑیں گہری کر چکی ہے۔ رحم اور احساس تو دور کی بات، سمجھداری یا ذمہ داری سے بھی عاری ہوتے جا رہے ہیں۔

مجھے یقین تو نہیں مگر ایسا گمان ہے کہ ریحان کے قاتل شاید تھوڑے بہت ہی مگر تعلیم یافتہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان عالم، فاضل لوگوں کے ہاتھ میں تو خود اسلحہ ہے۔ ایک 15 سالہ ناکام، نہتے چور کو گرل سے باندھ کر تشدد کر کے وہ کون سے پھنے خان بننا چاہ رہے تھے۔ اگلا سوال ہے کہ ایک 15 سال کے لڑکے کو نیم برہنہ کرنا کیا ثابت کرتا ہے؟ برتری یا جنسی گھٹن؟ آپ کسی کی نیم برہنہ ویڈیو بنا کر اپنے آپ کو شریف کہتے ہو؟ آپ کو تو انسان کہنا بھی انسانیت کی تذلیل ہو گی۔ احساس اور شرم سے بے بہرہ درندے ہیں آپ سب۔ یہ صرف اپنے سے بے بس پر اپنی طاقت آزمانا نہیں بلکہ اپنے اندر کے احساس کمتری سے لڑائی ہے۔

یہ ٹائم بم کی الٹی گنتی ہے کہ اتنے لوگوں میں سے، اتنے گھنٹے گزر جانے پر بھی کسی کے اندر رحم کا ذرا احساس نہ جاگا۔ ان سب کے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔ کچھ خبر نہیں کون کب کسی رشتہ دار، کسی قاری، کسی استاد یا کسی اجنبی کے ہاتھوں مسلا، کچلا یا خوفزدہ کیا گیا ہو۔ یہ بچپن کی گھٹن کسی بھی ذی ہوش کو بے رحم بنا سکتی ہے۔ ضروری ہو گیا ہے کہ اس گھٹن کو کم کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔

کچھ تکلیفیں، خدشات یا خوف الفاظ میں بیان نہیں کیے جا سکتے، بظاہر دکھائی بھی نہیں دیتے۔ انہیں سمجھنے کے لئے دو افراد کے درمیان احساس کا تعلق ہونا ضروری ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ احساس سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی کا دل کھولنے کے لئے اس کو لیکچر دینا، مفت مشوروں کی پٹاری کھول لینا یا نصیحتیں کرنا ایک غلط راستہ ہے۔ ہم سب میں سننے کی عادت بہت کم ہے اور شاید ڈپریشن بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ہر بندہ سنانا چاہتا ہے مگر کسی کی سننا نہیں چاہتا۔ نتیجہ بحث یا خاموشی کی صورت نکلتا ہے۔

اچھے سامع (سننے والے) میں انسان کو اپنا سہارا یا دوست محسوس ہوتا ہے اور وہ اپنا آپ آہستہ آہستہ کھول کر اپنی شخصیت، سوچ اور فکروں کی تہیں کھول کر سامنے نکلنا شروع کرتا ہے۔ انسان کی آدھی ذہنی الجھن یا فکر اس وقت نکل جاتی ہے جب اسے کوئی اچھا سامع مل جائے جو اس کی بات کو سنے۔ ورنہ ایک ڈارک سائڈ ذہن میں بڑھتی جاتی ہے جو دنیا سے پوشیدہ ہوتی ہے مگر کبھی بھی سامنے آ سکتی ہے۔ انسان اور دیگر جانداروں میں یہی بنیادی فرق ہے کہ اللہ نے انسان کو احساس، شعور اور ایکدوسرے کا ساتھ جیسی نعمتیں عطا کر دی ہیں۔ جس میں سے احساس ختم ہو جائے وہ ایک بنجر زمین ہے جو کسی کو کچھ نہیں دے سکتی۔ جس میں سے رحم ختم ہو جائے اس کی وحشت کسی کے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔
جن چیزوں پر بات کرنے کی ضرورت ہے ان پر بات کرنا شروع کریں۔ پوچھیں، سنیں، بتائیں ورنہ جو جنگل کا قانون نافذ ہوتا جا رہا ہے وہ خدانخواستہ کل کو ہم سب کے گھر تباہ کر دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).