پاکستان میں زیرِتعلیم کشمیری طلباوطالبات: ’اتنی خوفناک خبریں ملتی ہیں کہ ساری رات نیند نہیں آتی‘


کشمیر

کشمیر کے حبہ کدل میں ایک مکان پر کشمیر کی آزادی کا نعرہ تحریر ہے

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلباوطالبات حصولِ تعلیم کے لیے جن ممالک کا رخ کرتے ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ حکومتِ پاکستان ایسے طالبعلموں کو سکالرشپس بھی دیتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھی دو سو کے قریب ایسے طلبا و طالبات پاکستان میں زیرِ تعلیم ہیں۔

انڈیا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی آئینی شق کے خاتمے کے بعد وادی میں سکیورٹی لاک ڈاؤن اور مواصلاتی رابطوں کی بندش کے بعد سے یہ طلبہ بھی اپنے اہلخانہ سے رابطہ کرنے سے محروم رہے اور اب مواصلاتی رابطوں کی جزوی بحالی کے بعد بھی ان کی پریشانی کچھ کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ: بی بی سی اردو کی خصوصی کوریج

اس کی بنیادی وجہ کشمیر میں تاحال موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ کی بحالی نہ ہونا ہے۔ ان طلبہ کے مطابق شہری علاقوں میں عوام کی بڑی اکثریت صرف موبائل فون استعمال کرتی ہے اور لینڈ لائنز اب کسی کسی گھر میں موجود ہے۔

ایسی ہی ایک طالبہ نسیمہ بٹ (فرضی نام) نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘میں سرینگر کے علاقے صورہ سے تعلق رکھتی ہوں۔ مجھے بی بی سی سے ہی پتا چلا ہے کہ لینڈ لائن سروس جزوی طور پر بحال ہوئی ہے لیکن مجھے نہیں یاد کہ ہمارے محلے، رشتہ داروں یا علاقے میں کسی کے پاس لینڈ لائن فون موجود ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے اور میرے جیسے کئی طالب علموں کے لیے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اگر ہم ڈھونڈیں بھی تو ہمیں ایسا کوئی بندہ نہیں ملے گا جس کے لینڈ لائن نمبر پر بات کرکے میں ا پنے اہل خانہ کی خیر خیریت حاصل کر سکوں۔

انھوں نے کہا کہ وہ دو ہفتوں سے اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن ناکام ہیں۔ ’پندرہ دن ہوچکے ہیں اور مجھے کچھ پتا نہیں کہ میری ذیابیطس کی مریضہ ماں جو انسولین استعمال کرتی ہیں کس حال میں ہیں اور انھیں انسولین ملی کہ نہیں۔’

یہ بھی پڑھیے

کشمیر: لاک ڈاؤن میں زندگی کیسی تھی؟

احتجاج، جھڑپیں، کشمیر پر سکیورٹی شکنجہ پھر سخت

کشمیر پر انڈیا کے فیصلے سے وفاقی توازن بگڑنے کا خدشہ

ضلع بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے صبور (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ ’لینڈ لائن نمبر بحال ہونے کے بعد بڑی تلاش کے بعد اپنے علاقے کا ایک نمبر ملا۔ اس نمبر پر اپنے اہل خانہ اور علاقے کے لوگوں کی خیر خیریت کے لیے فون کرنے کی کوشش کی مگر وہ نمبر بند تھا۔’

انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ لینڈ لائنز بھی ہر جگہ بحال نہیں ہوئی ہیں اور ان پر کال کرنا خطرے سے خالی نہیں۔

’انڈیا کے دیگر شہروں میں موجود کچھ کشمیری صحافیوں سے میری بات ہوئی جنھوں نے بتایا ہے کہ لینڈ لائن کچھ ایسے علاقوں میں بحال ہوئی ہیں جہاں حکام کو زیادہ مظاہروں کا پہلے بھی خطرہ نہیں تھا۔ ویسے بھی لینڈ لائن پر یہاں سے وہاں کال کی جائے تو گھر والوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔‘

‘کئی راتیں سو بھی نہیں سکے’

نسیمہ بٹ کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں موجود ان جیسے کشمیریوں کے لیے اپنے علاقے کی خبر معلوم کرنے کا ذریعہ بی بی سی جیسے عالمی میڈیا اداروں کے علاوہ کچھ اور نہیں۔

’کشمیر کے بارے میں کوئی اور خبر کسی مستند ذرائع سے نہیں مل رہی ہے۔ کشمیر سے متعلق تمام ویب سائٹس بھی کئی روز سے اپ ڈیٹ نہیں ہوئی ہیں۔

‘جب کرفیو لگا اور تمام مواصلات کے ذرائع بند ہوئے تو اس وقت سے لے کر اب تک یقین کریں مختلف واٹس ایپ گروپس پر اتنی زیادہ خوفناک خبریں ملتی ہیں جنھیں پڑھ کر ساری ساری رات نیند نہیں آتی۔‘

صبور کا کہنا تھا کہ ’یقین جانیں کہ افواہوں پر تو یقین نہیں کرتے مگر پھر بھی وہ ہم سب پر بہت برا اثر ڈالتی ہیں۔ جب ایسی کوئی افواہ گرم ہوتی ہے تو اس کے بعد کشمیری ایک دوسرے کو فون کرکے پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا، کیسے ہوا اور پھر خود ہی کہتے ہیں کہ یہ افواہ ہو گی کیونکہ کشمیر سے تو اطلاعات سامنے آنے کے تمام ذرائع ہی بند ہیں۔‘

کشمیر

کشمیر ایک بار پھر سے سخت پابندیوں کی زد میں ہے

‘بات نہ ہو تو بھی تم نے گھبرانا نہیں ہے’

نسیمہ بٹ تعلیم کی عرض سے گذشتہ دو سال سے اپنے والدین سے دور ہیں۔ اس دوران چھٹیوں میں وہ تین مرتبہ کشمیر گئیں مگر انھیں اپنے ماں باپ اور بہن کو دیکھے ہوئے چار ماہ ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا: ‘میرے اپنے والدین اور بہن سے چار اگست کو بات ہوئی تھی اس موقعے پر وہ بہت زیادہ پریشان تھے۔

‘مجھے میرے پاپا نے اس موقع پر کہا تھا کہ دیکھو ہم نے تمھیں پڑھنے کے لیے اتنی دور بھیجا ہے۔ ہمیں لگ رہا ہے کہ کشمیر میں حالات خراب ہوجائیں گے کیونکہ بہت زیادہ فوج نظر آ رہی ہے۔ کشمیر میں حالات کچھ بھی ہوں، کرفیو لگے، فون نہ ملے، انٹرنیٹ پر بات نہ ہو تو بھی تم نے گھبرانا نہیں ہے، پریشان نہیں ہونا بس اپنی تعلیم پر توجہ دینی ہے۔ ایسا نہیں کرنا کہ تم وہاں سے کشمیر کی طرف دوڑی چلی آؤ ایسا بالکل نہیں کرنا وہاں ہی رہنا اور حالات بہتر ہونے کا انتظار کرنا۔’

نسیمہ بٹ نے مزید بتایا کہ ان کے والد نے حالات کو بھانپتے ہوئے انھیں ایک بڑی رقم بھی بھیج دی تھی تاکہ انھیں اخراجات کے سلسلے میں پریشانی کا سامنا نہ ہو۔

‘تین اگست کو پاپا نے میرے اکاوئنٹ میں اکٹھے پچاس ہزار روپے منتقل کر دیے تھے۔ مجھے مما نے بتایا کہ پاپا کہہ رہے تھے کہ کشمیر کے حالات تو خراب ہونے والے ہیں پتا نہیں کتنا عرصہ خراب رہیں۔ وہ باہر گئے اور پتا نہیں کس طریقے سے پیسے تمہارے اکاوئنٹ میں منتقل کروائے.’

صبور نے بتایا کہ وہ عید منانے کے لیے کشمیر گئے ہوئے تھے جب حالات خراب ہوئے۔

کشمیر

کشمیر میں ایک مکان کے شیشے ٹوٹ کر گلیوں میں آ گئے ہیں

‘میں چھٹیوں میں کشمیر ہی میں تھا۔ مما نے مجھے کہہ رکھا تھا کہ میں عیدالاضحی کے بعد واپس جاؤں اور میرا بھی خیال تھا کہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ تین سال کے عرصے بعد عید کرنی چاہیے۔

‘چار اگست کو صبح اٹھا تو مجھے میرے بابا نے کہا کہ کشمیر کے حالات خراب ہونے جا رہے ہیں اس سے پہلے کے حالات واقعی خراب ہو جائیں تم واپس چلے جاؤ۔ میرے والد بلڈ پریشر سمیت دیگر امراض کا شکار ہیں۔ میں نے ان کی ادویات کے سٹاک کا پوچھا تو انھوں نے کہا کہ تم نکلو، میں ادویات خرید کر رکھ لوں گا۔ اب پتا نہیں انھوں نے ادویات خریدی تھیں کہ نہیں۔’

ان کے مطابق جب وہ سری نگر بس سٹینڈ پر پہنچے تو انھیں معلوم ہوا کہ گاڑیاں تو کہیں نہیں جارہی ہیں۔ ’ڈرائیور اور ٹرانسپورٹرز گاڑیاں اڈے پر لا ہی نہیں رہے تھے البتہ جموں کی طرف کچھ گاڑیاں جا رہی تھیں۔ میں ان ہی میں ببٹھ گیا۔ جموں پہنچا تو وہاں حالات نارمل تھے مگر پتا چلا کہ لوگ بڑی تعداد میں کشمیر چھوڑ رہے ہیں جس وجہ سے گاڑیاں کم پڑ گئی تھیں کیونکہ یاتریوں کو بھی نکالا جا رہا تھا۔

‘کوئی راستہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اتنے میں ایک ٹیکسی والا وہاں آیا۔ سوچا اس ہی پر کسی طرح امرتسر پہنچ جاتے ہیں۔ اس سے بات کی تو اس نے دگنا سے بھی زیادہ کرایہ مانگا، میرے پاس سوچنے سمجھنے اور مول تول کرنے کا وقت نہیں تھا سو اس کے ساتھ چل پڑا۔‘

صبور کے مطابق پانچ اگست کو وہ امرتسر ہی میں تھے اور جب انھوں نے گھر والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو موبائل اور ہر قسم کا نیٹ ورک بند تھا۔

’میں پانچ اور چھ اگست کی درمیانی رات تو یہاں اپنے ہاسٹل پہنچ گیا مگر لگتا ہے کہ اپنے والدین، بہن بھائیوں کو کہیں بہت دور چھوڑ آیا ہوں جن کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔’

‘ان حالات میں واپس کشمیر جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے’

صبور کا کہنا ہے کہ ‘میری کئی کشمیری طلبہ سے بات ہوئی۔ اس طرح میرے کچھ رشتہ دار دیگر ممالک میں بھی ہیں، سب کہتے ہیں کہ اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ اب کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے۔ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ پاکستان کیا کر رہا ہے، پاکستان کیا سوچ رہا ہے؟ مرے پاس ان سوالات کا کوئی بھی جواب نہیں۔

‘مجھے بیرونِ ملک مقیم رشتہ داروں نے مشورہ دیا ہے اب میں بھی واپس کشمیر نہ جاؤں۔ بابا نے بھی کشمیر سے آتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کشمیر کے حالات خراب ہوجائیں تو واپس مت آنا دل لگا کر پڑھنا اور پھر اپنا مستقبل بنانا اس طرح تم کشمیر کے لوگوں کی زیادہ مدد کر سکو گے۔ میرا بھی اب ان حالات میں واپس کشمیر جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔’

نسیمہ بٹ کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میں موجود ان کے ایک رشتہ دار نے انھیں بتایا کہ کرفیو کے نفاذ کے بعد انھوں نے کشمیر جانے کی کوشش کی مگر اس کی اجازت نہیں ملی۔‘

‘ان کا کہنا تھا کہ میری بہن کا پی ایچ ڈی کا امتحان بھی تھا پتا نہیں وہ دے سکے گی کیونکہ ان حالات میں تو ممکن نظر نہیں آتا۔ پی ایچ ڈی تو آل انڈیا ہوتا ہے اب لگتا ہے کہ اس کا قیمتی سال ضائع ہوگیا ہو گا۔ پتا نہیں اس طرح کتنے طالب علموں کا وقت ضائع ہوا ہو گا؟

‘یہ ایسے حالات ہیں جن میں میری واپسی کا امکان بہت ہی کم ہے۔ میں چاہوں گی کہ اپنی تعلیم مکمل کر کے اچھی سے ملازمت کروں اور اپنے لوگوں کی کوئی مدد کر سکوں۔’

’اتنی بدترین صورتحال کبھی نہیں دیکھی‘

پاکستان میں موجود کشمیری طلبا کے علاوہ بی بی سی نے جموں میں موجود ایک طالبعلم سے بھی بات کی اور وہاں کے حالات جاننے کی کوشش کی۔

اس طالبعلم نے بی بی سی کی حمیرا کنول سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘جموں میں کئی دن بعد انٹرنیٹ سروس بحال ہوئی ہے لیکن ابھی پورے کشمیر میں نہیں ہوئی ہے۔ یہاں بھی انتظامیہ فون لائنز کی بحالی کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔

کشمیر

’پیر سے تعلیمی ادارے بھی کھل جائیں گے اور باہر پبلک ٹرانسپورٹ بھی چل رہی ہے مگر دیگر علاقوں میں کرفیو کی وجہ سے نقل و حرکت محدود ہے۔ صرف صبح اور شام کے مخصوص اوقات میں باہر سفر کیا جا سکتا ہے وہ بھی نیشنل ہائی وے پر۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں ایک ایک گھر کے باہر دس دس فوجی کھڑے ہیں۔ میں جموں میں پڑھتا ہوں اور پارٹ ٹائم کام کرتا ہوں۔ میرا گھر یہاں سے 300 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ عام طور پر اس راستے میں دو تین چیک پوسٹیں ہوتی تھیں لیکن پچھلے پندرہ دن میں مجھے 60 سے زیادہ چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

انھوں نے مزید کہا ‘اپنی 23 سالہ زندگی میں میں نے اتنی بدترین صورتحال کبھی نہیں دیکھی۔ اننت ناگ، کلگام، قاضی گند، بانی حال،رام بن اور ادھم پور میرے راستے میں پڑتے ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا میں کسی جیل خانے سے گزر رہا ہوں۔’

‘کرفیو اور وزیراعظم نریندر مودی کے کشمیر کے لیے اعلان سے پہلے یہ افواہیں تھیں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ انتظامیہ ہمیں کہہ رہی تھی تین ماہ کا راشن گھر پر رکھیں۔ ڈاکٹرز کے لیے پاسز بنوائے جا رہے تھے ،خدشات تھے، نفسیاتی طور پر بہت دباؤ تھا لیکن کشمیر کے لیے اس اعلان کی توقع نہ تھی۔

‘چھوٹے بڑے سبھی غصے کی کیفیت میں ہیں۔ ہم میں جو پہلے سیاست کے ہمنوا تھے ان کی اکثریت بھی اب شاید علیحدگی پسندوں کے کیمپ میں ہو گی۔

‘اس سے بری صورتحال کیا ہو گی کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے اہل خانہ اور رشتے دار کس حال میں ہیں۔ پہلے بھی کرفیو لگتا تھا لیکن ایک دو دن کے لیے آدھ آدھ مہینے تک ایسا نہیں ہوتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جموں میں ہندو اکثریت ہے۔ حالات یہاں دیگر علاقوں کی نسبت نارمل ہیں لیکن ایسا نہیں کہ یہاں موجود سبھی پنڈت خوش ہیں۔

مستقبل کے حوالے سے ہر ایک کے ذہن میں خدشات ہیں جو حامی ہیں وہ صرف اس لیے کہ شاید یہ اعلان علاقے میں ترقی کا ذریعہ بنے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp