ثقافت اور فحش سٹیج ڈرامے


ثقافت کسی بھی دیس میں بسنے والے لوگوں کی مشترکہ روایات ہوتی ہیں جو بعض اوقات اپنی تخصیص کی وجہ سے اس معاشرے کی پہچان بن جاتی ہیں۔ یہی ثقافت کسی ملکی تاریخ کی عکاس بھی ہوتی ہیں جس میں تاریخ کے بیتے لمحوں کی نوعیت، سنجیدگی اور روایات سے ثقافت بننے تک آنیوالی مشکلات کو بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ بلاشبہ ثقافت بھی دیگر افکار کی طرح مختلف مذہبی، سیاسی اور معاشرتی عناصر کی وجہ سے تغیر و تبدل کے عمل سے گزرتے ہیں لیکن ان کی بنیادی خصوصیات اپنی جگہ پر قائم رہتی ہیں۔ جب یہ ثقافت اپنی بنیادی خصوصیات سے محروم ہو جائے تو وہ موجودہ معاشرے سے کسی دوسرے معاشرے کی پہچان بن جاتی ہے اور یہ عمل بتدریج ثقافت کے مکمل خاتمے کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ثقافت کا خاتمہ بالآخر کسی بھی قوم کے زوال کا آغاز ہوتاہے۔

اس بات کو انتہائی دکھ کے ساتھ بیان کیا جاتاہے کہ وطن عزیز پاکستان اپنی ثقافت کو محفوظ کرنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر سکا۔ برصغیر کی عمدہ نشانی جو اس معاشرے کے ماتھے کا جھومر بھی کہا جاسکتا ہے وہ ادب سے بھرپور ہمارے اردو و پنجابی زبان ہے۔ اس زبان کی شائستگی، اخلاق سے بھرپور مٹھاس اس زبان کی حفاظت کے لیے حصار بنی رہی ہے۔ اس کاعملی ثبوت اس زبان کے مصنف و شعراء نے اپنے قلم کی طاقت سے سارے عالم کو مہیا کیا ہے۔ انہی محافظوں کی تحریروں اور شاعری نے پورے خطے میں اردو اور پنجابی زبان کا نام روشن کیا جو بعد ازاں ٹیلی ویژن کی ایجاد کے بعد ڈراموں کی شکل میں نشر بھی کیا جانے لگا۔

1980 کی دہائی میں تھیٹر پر پنجابی زبان میں اداکاری کے جوہر دکھا نے کا آغاز ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے عوامی سطح پر بھرپور مقبولیت اختیار کر گیا۔ عوام نے اس فن کو بطور مزاح بہت سراہا۔ ناہید خانم، امان اللہ، مستانہ اور ببو برال جیسے مایہ ناز اداکاروں کی مشترکہ کاوش سے اس فن نے کچھ عرصے میں ہی مقبولیت اختیار کرلی۔ سرکاری سطح پر اس فن کا مظاہرہ میں الحمرا تھیٹر میں کیا جاتا تھاجو تاحال لاہور میں واحد سرکاری تھیٹر ہے۔

جہاں اس فن سے محظوظ ہونے کے لئے عوام کا تانتا بندھا رہتاہے۔ اس کے علاوہ لاہور میں پانچ پرائیویٹ تھیٹرز ہیں۔ اپنے عروج کی دو دہائیوں میں مذکورہ پنجابی تھیٹر عوام کے لیے بہترین ثقافت سے بھرپور فیملی ڈرامے لے کر آتا رہا لیکن اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی اس شعبے کے زوال کا آغاز ہو گیا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں پرائیوٹائیزیشن اپنے عروج پر تھی۔ چڑھتے گلوبل ٹرینڈ یعنی پرائیوٹائزیشن کی نذر ہونے والے شعبوں میں ٹیلی ویژن کے چینلز بھی تھے جو ایک کے بعد ایک منظر عام پر آنے لگے۔ ان پرائیویٹ چینلز کے ظہور کے ساتھ ہی کمرشلائیزیشن کا واحد مقصد سامنے آنے لگا۔ جس میں عالمی سطح کے تقاضوں کے پیش نظر پروگرامزاورڈرامے پیش کیے جانے لگے۔ مقامی روایات کے آگے عالمی رحجانات کے پردے آنے لگے۔

عوامی توجہ حاصل کرنے کے لئے ان پرائیویٹ چینلز نے مزاح سے بھرپور پروگرامز کو نشر کرنے کے لئے اچھے معاوضے کے بدلے سٹیج کے اہم فنکاروں کی خدمات حاصل کرنا شروع کیں۔ اس کے ساتھ سٹیج کا فن لا وارث ہوتا چلا گیا جو ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا جو فن سے بے خبر اور اخلاقیات سے بیزار تھے۔ سٹیج ڈراموں کے سکرپٹ اس قدر فحش اور پیش کیے جانے والے گانے اس قدر بے حیائی سے بھرپور ہوتے گئے کہ فیملی تو درکنار کوئی با شعور انفرادی شخص ایسے فن کے قریب نہ جائے۔

تا حال مذکورہ فحاشی، غیر اخلاقی ڈائیلاگز سے بھرے سٹیج ڈرامے پنجاب کے بڑے شہروں میں رات گئے تک پیش کیے جاتے ہیں جو ہماری روایات، ہمارے مقدس رشتوں (ماں، بہن، بیوی، بیٹی) کی سرعام پامالی کرتے ہیں لیکن کسی بھی حکومت نے ایسے گمراہ کن رویوں کے خلاف کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا۔ پنجاب آرٹس کونسل ان تمام ڈراموں کے سکرپٹس مانیٹر کرنے کی مجاز ہے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ اس طرح کے سکرپٹس کی مانیٹرنگ کے باوجود یہ ڈرامے کس طرح سٹیج پر پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ بات قابل تشویش ہے کہ اتنے با اثر حکومتی اداروں کے ہونے کے باوجود ایک چھوٹا سا طبقہ ہمارے معاشرے میں ایک طوفان بدتمیزی لیے پھر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).