لُٹنا میرا استنبول کے کیپلی کارسی میں اور ترک پولیس کو ”سیلوٹ“۔


توپ کاپی سرائے میوزیم کی آرمینیائی طرز تعمیر کی خوبصورتیوں، پچی کاری و تزئین کاری کی ہوش رُبا رنگینیوں سے طلسم زدہ سے باہر آئے توکسی اور طرف منہ مارنے کی بجائے گرینڈ بازار کا رُخ کیا کہ لیرے ختم تھے اور گرینڈ بازار سے ملحقہ منی چینج آفس کا لڑکا انگریزی سمجھتا تھا۔

سو ڈالر کا نوٹ سوراخ سے اندر گیا۔ پیسے لئے اور ٹیکسی میں بیٹھ کر ہو ٹل آ گئے۔ ادائیگی کے لئے تہہ کیے ہوئے سارے لیرے کھولے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ہلکے نیلے رنگ کے ایک نوٹ کو چُھوا ”یہ تو متروک ہو چکا ہے۔ “

”ہیں“

میں نے حیرت سے پلکیں جھپکاہیں اب میں گُم سُم سی کھڑی تھی۔ ایک سو تیس لیروں کے ساتھ ہاتھ ہو گیا تھا۔ گویا تقریباً پانچ ہزار پاکستانی روپے کو تُھوک لگ گیا تھا۔ جاپان اور تائیوان کے سیاح میرے قریب ہی کھڑے اس مسئلہ کو خاصی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ اُن میں سے کسی نے کہا۔ ”فوراً پولیس اسٹیشن رپورٹ کریں۔ “

اس استفسار پر کہ پولیس اسٹیشن کہاں ہے؟ تائیوانی نے چھوٹا سا بازو پھیلا کر گلی کے کونے کی طرف یوں اشارہ دیا جیسے پولیس اسٹیشن تو یہیں اِسی کونے میں ہی ڈیرے ڈالے بیٹھا ہے۔

میں اور سیما اب اس نئی مہم پر نکلیں۔ پولیس اسٹیشن میں سناٹا تھا۔ ایک نوجوان کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا۔ سلام کے جواب میں تپاک تھا۔ پاکستان کا جان کر لہجے میں محبت کا اظہار تھا۔ میں نے مسئلہ گوش گزار کیا تو سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔

”کیا وصولی کی کوئی رسید لی تھی۔ “ سر نفی میں ہلایا۔ ” جگہ پہچانتی ہیں۔ آدمی کو شناخت کر لیں گی؟ میرا جواب جوشیلی قسم کی“ ہاں ”میں تھا۔

”گھبرائیے نہیں آپ کے پیسے ضرور آپ کو ملیں گے۔ مگرچوں کہ یہcriminal case ہے۔ آ پ کو کرمینل پولیس اسٹیشن جانا ہو گا۔ یہ تو ٹورزم پولیس اسٹیشن ہے۔ بیازت یہاں سے زیادہ دور نہیں۔ “

اور جب وہ واکی ٹاکی پر غالباً بیازت والوں کو میرے بارے میں بتا رہا تھا میں نے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔”ارے میں کون ہوں؟ ٹورسٹ نہیں۔ “

اس وقت مجھے یہ بھی احساس ہوا تھا کہ جیسے میں لاہور کے نولکھا پولیس اسٹیشن میں بیٹھی ہوں اور مجھے یہ کہا جا رہا ہے کہ محترمہ یہ کیس تو رنگ محل پولیس کا ہے۔ وہاں جائیے۔

گاڑی کے لیے معذرت ہوئی۔ ٹیکسی منگوا دی گئی اور یہ بھی تاکید ہوئی کہ اسے صرف پانچ لیرے دینے ہیں۔ اس وقت مجھے پھر اپنی پولیس اس گمان کے ساتھ یاد آئی تھی کہ وہ یقیناً ایک غیر ملکی خاتون کو ٹیکسی میں رولنے کی بجائے گاڑی میں بھیجتی۔

ماشاء اللہ سے ٹیکسی ڈرائیور نے ہیرا پھیری میں پاکستانیوں کو بھی مات کر دیا تھا۔ اللہ جانے کن کن راستوں پر بگٹٹ بھاگا اور میٹر بڑھائے چلا جاتا تھا۔ جونہی ایک چوک پر گاڑی رُکی۔ ”تاکسیمTaksim“ پر نظر پڑی۔ سیماں نے بے اختیار اپنے گھٹنے پر دو ہتڑ مارا۔

تاکسیم بیاگلوBeyoglu کا مرکزی چوک ہے جہاں سے مختلف جگہوں کو راستے نکلتے ہیں۔ ہاتھوں میں نقشے پکڑ کر صبح سے شام تک بسوں اور ٹراموں میں خجل خواریوں سے ہمیں شہر کے چہرے مہرے سے خاصی جان پہچان ہو گئی تھی۔ میٹر پچیس لیروں کی نشاندہی کر رہا تھا۔

پھر ایک جگہ گاڑی روک کر اُس نے سامنے بلڈنگ کی طرف اشارہ کیا۔ اس وقت 34 لیرے روز روشن کی طرح میٹر پر جگمگا رہے تھے۔ ہم ٹیکسی سے اُترے۔ پانچ لیرے کا نوٹ میں نے فرنٹ سیٹ پر پھینکا اور جی داری سے کہا۔

”ہم پاکستانی عورتوں کو تم نے کیا اُلّو کی پٹھیاں سمجھا ہے۔ ہمیں یہی دینے کو کہا گیا تھا۔ “

بعد کے سالوں میں جب میں کہیں پیٹرزبرگ میں روسی بوڑھی عورتوں کے ہاتھوں لٹی۔ جنہوں نے میرا ایک طرح مل کر گھیراؤ کرلیا تھا۔ اُس دن مجھے بے اختیار وہ ترک ڈرائیور یاد آیا تھا۔ شریف تھا بے چارہ۔ اُتر کر ہمیں گاٹے سے پکڑ لیتا تو چونتیس 34 لیرے کیا سو لیرے دے کر جان چُھڑاتے۔

بہرحال میں نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ سیڑھیاں شیطان کی آنت کی طرح لمبی تھیں۔ استنبول کا سارا شہر کم بلندی والی ڈھلانی پہاڑیوں پر ایک مربوط اور خوبصورت ترتیبی صورت میں بکھرا ہوا ہے۔

پولیس افسرکے سامنے میری داستانِ امیر حمزہ پھر شروع ہوئی۔ یہ بھی مقام شکر تھا کہ اُس کے پاس انگریزی کا تھوڑا سا دال دلیہ تھا۔ تفتیشی سوالات ہوئے۔ نتیجہ جو سُنایا گیا وہ کچھ یوں تھا کہ چونکہ اب رات کے آٹھ بج رہے ہیں اور آفس بند ہو گیا ہے۔ لہٰذا کل نو بجے تشریف لائیے۔ ہر طرح کی مدد کی جائے گی۔

صبح نو بجے جب مطلوبہ جگہ پہنچی۔ ماشاء اللہ سے سیٹ پر ایک نیا چہرہ بیٹھا تھا۔ دو نوجوان لڑکے کسی بات پر زور زور سے بول رہے تھے۔ تھانے والا تو ماحول ہی نہیں تھا۔

بیان شروع ہوا۔ حفظِ ما تقدم کے طور پر ممکنہ سوالوں کے جواب بھی اس میں شامل کر دیے کہ فضول کی تفتیشی تکرار سے جان چھُٹے۔

پر جونہی خطابت کے عمل سے فارغ ہو کر میں نے اُسے گہری نظروں سے دیکھا۔ میرا جی اپنا سر پیٹ لینے کو چاہا کہ میں اتنی دیر سے بھینس کے آگے بین بجا رہی تھی۔ وہ بٹر بٹر میرا منہ دیکھتا تھا۔ ”ہائے وے میریا ربّا“ اس وقت جی تو چاہا کہ یا تو اُسے ایک تگڑی قسم کا جھانپڑ دوں یا پھر ایک زور دار اپنے سر پر ماروں۔ اور میں نے مارا پر سر پر نہیں پاؤں پر۔ گلے سے نکلتی کرخت آواز نے چھت پھاڑی۔

”ہے یہاں کوئی جو میری بات سُنے۔ “
فوراً ہی سامنے والے دروازے سے ایک لڑکی بھاگنے کے سے انداز میں میرے سامنے آ کر بہت شُستہ انگریزی میں بولی۔

”بتائیے کیا بات ہے؟ “
میری بولتی کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔

”اللہ یہ کمبخت اِس حُسنِ جہاں سوز کے ساتھ پولیس اسٹیشن پر کیا کر رہی ہے۔ اسے تو کہیں کسی بغداد کوشک، کسی مجید کوشک میں ہونا چاہیے تھا۔ “

لڑکی پھر بولی۔ ”بتائیے کیا مسئلہ ہے؟ “
چلیے جناب کہانی پھر دہرا دی گئی۔

اُس نے یوں چٹکی بجائی جیسے انگلیوں کی پوروں میں طلسماتی جن مقید ہو۔
”ابھی یہ پولیس مین آپ کے ساتھ جائے گا اور سارا مسئلہ حل کر آئے گا۔ ذرا بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ “

میں نے پولیس مین کو دیکھا چُوچا سا۔ مجھے سو فیصد یقین تھا کہ وہ مجھے گاڑی میں بٹھائے گا اور گاڑی شور مچاتی، ہوٹر بجاتی، ہٹو ترکوں راستہ دو، کا عملی مظاہرہ کرتی گرینڈ بازار میں داخل ہو کر منی چینج آفس کے سامنے رُکے گی۔

”واللہ کس قدر مسرُور کُن نظارہ ہو گا۔ “ میں نے تصور میں اس منظر سے حظ اُٹھاتے ہوئے آنکھیں نچائیں۔ پر جب بڑا سا پُختہ میدان کراس کرنے کے بعد وہ اگلے ڈھلانی راستے پر اُترنے لگا تو بے اختیار میں رُک گئی۔

”گاڑی کدھر ہے؟ “ میں نے ہوا میں ہاتھ لہرائے۔ وہ ہونقوں کی طرح میری صورت دیکھتا تھا۔

استنبول کے سلطان احمت ایریا کی گلیاں تھیں۔ چھوٹے چھوٹے بازار تھے۔ پھر وہ ایک جگہ آکر رُک گیا۔ میں خوابیدہ سی گلیوں کو دیکھتی تھی۔ بازار ابھی انگڑائیاں لے رہے تھے۔ گرینڈ بازار۔ اُس نے سامنے بازار کی طرف اشارہ کیا۔

بازار چہرے مہرے سے تو ویسا ہی تھا۔ پر میں نے بھونچکی سی ہو کر اپنے گردوپیش کا جائزہ لیا۔ نہ وہاں کوئی منی چینج آفس، نہ دوسری سمت خوبصورت مسجد۔

میں نے نفی میں سر ہلایا۔ چلو خیر کسی نے رہنمائی کی اور پھر چل پڑے۔

ہو بہو گرینڈ بازار جیسے ایک اور بڑی سی سرنگ نما دروازے کے نمودار ہونے پر بھی یہی صورت حال پیش آئی۔ پر اب اُس سُن وٹے کی بجائے میں خود بھاگی۔ نور عثمانیہ جامع (مسجد) چلاّ چلاّ کر کہا۔ پھر کسی نے اُسے سمجھایا۔

ٹانگیں پھر چلیں۔ اب جس بازار میں داخلہ ہوا۔ تھوڑا سا ہی چلنے کے بعد مجھے اندازہ ہو گیا کہ ہم صحیح راستے پر ہیں۔ اور جائے وقوعہ بس آنے ہی والی ہے۔

میرا قیافہ درست تھا۔ جونہی بازار کا اختتام ہوا۔ نور عثمانیہ مسجد اور منی چینج آفس دونوں نظر آ گئے تھے۔ میں نے فوراً اُسے بازو سے تھاما۔ اندر لے گئی اور لڑکے کی سمت اشارہ کر دیا اور خود کونے میں بنے چھوٹے سے زینے پر کھڑی ہو کر کارروائی کے جائزے میں مصروف ہو گئی۔ ایک عجیب سی بات مجھے محسوس ہوئی۔ لڑکے نے صرف ایک چھچھلتی نگاہ سے مجھے دیکھا اور چہرہ جُھکا لیا۔

اور جب پولیس مین اُس سے بات کر نے لگا تو وہیں کونے سے ایک اونچا لمبا خوش شکل تیس کے ہیر پھیر میں نوجوان کھڑا ہو کر اُس سے اُلجھنے لگا۔ یقیناً وہ آفس کا انچارج ہو گا۔

تھوڑی سی گرما گرمی اور تُو تُو میں میں کے بعد پولیس مین مجھے باہر لے آیا۔ باہر ڈیوٹی دیتے وردی والے سپاہی اکٹھے ہو گئے تھے۔ انہیں وہ مختصراً کچھ بتا کر سامنے والی دکان سے مترجم لے کر آیا جس نے مجھے بتایا کہ وہ یکسر انکاری ہیں۔

اپنے دفاع میں میں نے دلیل دی کہ میں تین ستمبر کو استنبول میں داخل ہوئی ہوں۔ میرے پاس یہ متروک شدہ اتنا بڑا نوٹ کہاں سے آ سکتا ہے؟ ”

یہ بات پولیس مین کو سمجھائی گئی۔ وہ پھر اندر گیا۔ میں بھی ساتھ تھی۔ اب پھر زوردار گفتگو شروع ہوگئی۔ پولیس مین بے چارہ بھیگی بلی اوراُسکا باس بُل ٹیرئیر۔

چار بار یہ آنیاں جانیاں ہوئیں۔ پھر ہم دونوں باہر آ گئے۔ مترجم آیا جس نے مجھے کہا کہ میں پولیس اسٹیشن جا کر تحریری درخواست دوں تاکہ اس پر ایکشن ہو۔

اتنی مشقت بھری خجل خواری کے باوجود میری ہنسی چھوٹ گئی تھی۔ ہونٹوں اور آنکھوں میں بکھری اس ہنسی میں میں نے بہت دور تک گرینڈ بازار کے نقش و نگار کی شوخیاں دیکھیں اور پھر دونوں ہاتھ مترجم کے سامنے جوڑتے ہوئے گویا ہوئی۔ ”جناب میں کیس کو ڈراپ کرتی ہوں۔ استنبول پولیس کی شاندار کارکردگی کو سیلوٹ مارتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).