ایک عہد ساز عورت: ٹونی موریسن


”موت زندگی کا طبعی ثمر ہے اور سب کو ہی رخصت ہونا ہے لیکن ہم جو کہہ کے جائیں گے، وہ ہماری زندگی کا حاصل اورآئینہ ہو گا“

We die. That may be meaning of life. But we do language. That may be measure of our lives.
اور وہ چلی گئی!

اپنے حصے کی شمعیں روشن کرکے، اس دنیا کے ظلمت بھرے اندھیروں میں حق کا چراغ جلا کے! اس نے دکھا دیا کہ مظلوم کا ہتھیار قلم ہوا کرتا ہے تلوار نہیں، اور بہترین انتقام سچ کی شمع ہے جس کی روشنی سیلن بھری اور تعفن زدہ جگہوں پہ بھی پہنچ جایا کرتی ہے۔ وہ عورت جس نے معاشرے کی المناک اور ننگی حقیقتوں سے مسکراتے ہوئے پردہ اٹھایا اور مجبور کر دیا کہ راہ حیات کے زخم خوردہ لوگوں کی تلخیوں پہ بات کی جائے۔

نوبل انعام یافتہ امریکی ناول نگار، ڈرامہ نگار استاد ٹونی موریسن نے پانچ اگست کو اس دنیا کو خدا حافظ کہا۔

ٹونی کے آباؤ اجداد افریقہ سے تعلق رکھتے تھے اور ٹونی کو اسی ریسزم کا سامنا کرنا پڑا جو رنگ اور نسل کی بنیاد پہ آج بھی روا رکھا جا تا ہے۔ ٹونی دو سال کی تھیں جب ان کے مالک مکان نے ان کی گھر میں موجودگی کے باوجود اس کو آگ لگا دی۔ ان کے والدین اس زیادتی پہ رونے کی بجائے ہنس دیے تو یہ لمحے ٹونی کی آیندہ زندگی کے لئے چراغ راہ بن گئے کہ انتہائی جبر میں بھی اپنی ذات کے فخر اور ایقان کو کیسے قائم رکھا جاتا ہے۔

ٹونی نے اپنی ساری کہانیاں رنگ و نسل کے ظلم کی چکی میں پستے افریقین امریکی لوگوں کے گرد بنیں۔ انہوں نے سفید رنگ پہ غرور کرنے والوں کو آئینے میں ان کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کی کہ سفید حقیقت کس قدر بدصورت ہوا کرتی ہے۔ ٹونی کی زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔ اکیلی ماں اور دو بچوں کا ساتھ، سارا دن مشقت میں گزر جاتا لیکن اندر سے اٹھنے والی آواز اس قدر شدید تھی کہ وہ صبح چار بجے اٹھ کے اپنی کہانیاں بنتی۔

”اگر کوئی ایسی کتاب جو آپ پڑھنا چاہیں مگر ابھی وہ لکھی ہی نہ گئی ہو، تو پھر آپ کو ہی لکھنا ہو گا۔“ اور اس طرح اس کا پہلا ناولThe Bluest Eyes چالیس سال کی عمر میں وجود میں آیا۔ بعد کے لکھے جانے والے ناولز میں Beloved، Sula، The song of Solomon، Jazz، Paradise، Home، God help the child شامل ہیں۔ ان ناولز کا بیس زبانوں میں ترجمہ ہوا۔

ٹونی کے ناولز معاشرے کے مظلوم طبقے کے دل کی آواز بنے۔ اس نے بتا دیا کہ غلاموں کے بے جان دکھتے جسم وجان میں بھی روح کا شعلہ بھڑکا کرتا ہے اور آگہی رنگ و نسل کی میراث نہیں ہوا کرتی۔ وہ ناول جس نے ٹونی کو نوبل انعام یافتہ بنا دیا، ایک سچے کردار کی کہانی پہ لکھا گیا تھا۔ انیسویں صدی میں افریقی غلاموں پہ روا رکھے جانے والا ظلم جو امریکہ کی چمکتی پیشانی پہ ایک دھبہ ہے۔

Beloved کی مرکزی کردار مارگریٹ، ایک عورت جو غلام ماں باپ کے ہاں پیدا ہوئی اور اس کی قسمت میں بھی غلام رہنا ٹھہرا۔ اس غلامی میں سفید فام مالک کی ہر طرح کی خدمت شامل تھی۔ دن میں کھیتوں میں مشقت اور رات میں مالک کی جنسی غلامی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چار بچے، مستقبل کے غلام۔ مارگریٹ کے لئے یہ تصور قابل قبول نہیں تھا کہ ایک دفعہ پھر زندگی کا چکر چلے اور اس کے بچے بھی غلامی کا وہی پھیرا کاٹیں۔ مارگریٹ آزادی کی زندگی حاصل کرنے کے لئے بچوں سمیت فرار ہوئی لیکن پکڑی گئی۔ پکڑے جانے سے پہلے اس نے بچوں کو جان سے مارنا چاہا، ایک بچی مر گئی اور باقی تینوں شدید زخمی ہوئے۔ ایک ماں کا اپنی بچی کو قتل کرنے کا قصہ لرزہ خیز ہے اور ٹونی موریسن نے ماں اور بچی کے جذبات کو الفاظ کا پیراہن پہنا کے دنیائے ادب میں تہلکہ مچا دیا۔

”اپنے آپ کو آزاد کروانا ایک بات ہے اور پھر اس آزادی کا مالک بننا ایک اور بات۔“

”Freeing yourself was one thing۔ Claiming ownership of that freed self was another۔ “

” اس نے کہا اگر تمہیں میری رائے چاہیے، نہیں، نہیں چاہیے، میرے پاس اپنی رائے ہے۔“

He licked his lips۔ “Well, if you want my opinion— “

‘I don‘ t,’She said۔ ‘ I have my own۔ ’

” اگر تم آزاد ہو تو کسی اور کو بھی آزاد کر دو، اگر طاقتور ہو تو کسی اور کو بھی طاقتور بنانے کی سعی کرو۔“

”If you are free، you need to free somebody else۔ If you have some power، then your job is to empower somebody else۔ “

ٹونی نے ثابت کیا کہ اگر عزم جواں ہو، استعمار سے ٹکرانے کی ہمت ہو تو رنگ، نسل، ذات اور عورت ہونا راستے کی دیوار نہیں بنا کرتے۔ ٹونی موریسن مظلوم کے حق اٹھنے والی آواز ہی نہیں ایک عہد کا نام ہے اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ٹونی کے عہد میں جیے، اور ایک خوبصورت الفاظ کی مالک خوبصورت عورت کو اپنے طبقے کے لئے کی گئی جدوجہد کو دیکھا۔

ٹونی کی منفرد آواز اور تخلیقی جوہر صدیوں تک آنے والے قلم کاروں کا راستہ روشن کرے گا اور پڑھنے والوں کا دل پگھلائے گا۔

Rest in peace، Tony Morrison!

تم ہمیشہ زندہ رہو گی، تاریخ کے اوراق میں، مظلوموں اور محبت کرنے والوں کے دلوں میں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).