پاکستان تنہا کیوں رہ گیا ہے؟


جنوبی ایشیا آج پھر ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف دنیا کی طاقت ور ترین جمہوری قوت امریکہ افغانستان کی لمبی اور تھکا دینے والی جنگ سے نکلنے کے لیے بے چین ہے۔ ناقدین مختلف دھڑوں میں ایک لمبی لڑائی کا عندیہ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف ایک فاشسٹ اور قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی طاقت کے نشے میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوری اور سیکولر ریاست میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے پر تلا ہے۔ پوری دنیا کہ لبرل حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ کشمیرمیں بنتی نئی صورت حال کے بعد خطے میں پُرتشدد کارروائیاں مزید تیز ہو سکتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں کرفیو اٹھنے کے بعد شدید ردعمل آنے کا خدشہ ہے۔

ادھر پاکستان ایک عجیب مشکل میں پڑ گیا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا نعرہ لگاتے رہے اور قوم کو بتاتے رہے کہ ایک دن کشمیر ضرور آزاد ہوکرپاکستان کا حصہ بنے گا مگر آج سب خواب چکنا چور ہو گئے۔ بھارت نے تواپنے قبضہ میں بین الاقوامی طور پر قرار دیے گئے متنازعہ علاقے کو ہڑپ ہی کر لیا۔ اور یہ سب کچھ ایسے موقع پر ہوا جب شدید معاشی بحران زدہ پاکستان نے ابھی دنیا کے سامنے شدت پسندی کو روکنے اور خطے میں امن کے لیے عملی اقدامات اٹھانا شروع کیے تھے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آج کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے دوعوامل ہیں۔ ایک انڈیا کی الٹرا قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندتوا کی سوچ جس کے مطابق اپنے ملک کو مکمل طور پر ہندو ریاست بنانا ہے۔ دوسرا پاکستان میں بیٹھے انتہا پسندوں کی طرف سے کشمیرمیں علیحدگی پسند سوچ کو دھونی دینا۔

آج بھارت میں مذہبی جنونی کیفیت نے حکومت کو ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں کسی نے بھارت کی جمہوریت پر سوال اٹھا دیا کہ کیا وہاں لبرل جمہوریت ہے تو کوئی بھارت کو 50 / 50 سے 50 / 30 کی جمہوریت قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ انڈیا کی جمہوریت کا درجے کم کرنے کی اشد ضروت ہے۔ بھارت میں قوم پرستی کا عالم یہ ہے کہ انتہا پسند حلقوں نے اپنی ہندو تاریخ دوبارہ لکھنا شروع کردی ہے۔ جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ وہ ہندوستان کو ہندو پاکستان نہیں بننے دیں گے۔ اور اس کے لیے تمام اقلیتوں کو مساوی حقوق دینا ہوں گے۔ بھارت کے اس یک طرفہ اقدام سے خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ کشمیری نوجوانوں کے اندر ایک نئی پرتشدد لہر پیدا ہوجائے گی جسے محض عسکری طاقت سے کچلا نہیں جاسکے گا اور اس کے دوررس نتائج ہوں گے۔

پاکسانی عوام سوال کر رہے ہیں کہ حکومت کس سمت میں جا رہی ہے۔ شکوک و شبہات جنم کے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر کچھ طے نہ ہوسکا کہ کرنا کیا ہے۔ جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ کوئی مسلم برادر ملک ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ مغربی میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے انڈیا کی اس حرکت پر بھرپور تنقید کر رہے ہیں۔ مگر اس کے علاوہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے اور نہ ہی ہندوستان محض تنقید سے کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرے گا آزادی تو دور کی بات ہے۔ پاکستان نے چین کی مدد سے سلامتی کونسل کی بند کمرے کی ایک غیرمعمولی ملاقات منعقد کروانے میں کامیاب ہو گیا اورعارضی طور پر بھارت پربھی دباؤ ڈال لیا مگر سوال یہ ہے کہ سلامتی کونسل اس سے آگے کیا کرے گی۔ کیا 1948 کی طرح خصوصی اجلاس بلایا جاسکتا ہے؟ وہ اسی صورت میں ممکن ہے جب جموں و کشمیرمیں کشیدگی اتنی بڑھ جائے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے خطرات پیدا ہوجائیں۔

اسلامی ممالک کی طرف سے تو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرکوئی بات بھی نہیں ہوئی کیونکہ شاید ان کے نزدیک انسانی حقوق کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے۔ کارگل کے دنوں میں بحرین کی وزارت مواصلات کے ایک افسر سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ پاکستان ہمارا دوست ہے مگر بھارت ایک بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ بحرین کے بہت اچھے معاشی تعلقات ہیں اور وہ انہیں خراب نہیں کرنا چاہتے۔ شاہ محمود قریشی ٹھیک کہتے ہیں کہ ہمیں احمقوں کی جنت میں نہیں رہنا چاہیے۔ یہ بات ہمیں بہت پہلے اپنے عوام کو بتا دینی چاہیے تھی کہ کشمیر پر ہمیں مسلم برادری سے کوئی توقعات وابستہ نہیں رکھنی چاہئیں۔

2003 میں سابق صدر پرویز مشرف نے لاہور کے گورنر ہاؤس میں اشرافیہ کی ایک تقریب میں بتایا کہ او آئی سی کے ایک اجلاس میں بھارت کو اعزازی رکن بنانے کی تجویز پر انہوں نے تمام اسلامی ملکوں کو دھمکی دی کہ اگر بھارت کو او آئی سے میں شامل کیا گیا تو پاکستان اس فورم کی رکنیت ترک کردے گا۔ جس کہ بعد انہوں نے وہ تجویز مسترد کردی۔

پاکستان کے عوام کشمیر کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے رہے ہیں۔ مگر دہائیوں سے جاری چپقلش سے اکتا بھی چکے ہیں۔ ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ جیسے بھی ہو یہ معاملہ اب حل ہوجانا چاہیے۔ ریاستی بیانیہ بھی کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ مذہبی جماعتیں بالخصوص جماعت اسلامی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیتی رہی اور اس کا موقف رہا کہ کشمیر کا مسئلہ بات چیت سے نہیں بلکہ جنگ سے حل ہو گا اور ایک دن آئے گا جب دلی کے لال قلعے پر پاکستان کا پرچم لہرائے گا۔ 1999 میں اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمد پرسب سے زیادہ مزاحمت جماعت اسلامی نے کی جس کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ اور آج مودی کے مطابق انہوں نے وہ کام 70 دنوں میں کردیا جو 70 سالوں میں نہیں ہوسکا۔ مگر جماعت اسلامی رسمی بیانات کے سوا کچھ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

پاکستان ایک ایسے مخمصے میں پھنس گیا ہے کہ ایک طرف وہ افغانستان میں امریکہ کی پوری مدد کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں امن قائم ہو سکے اور اس کے اثرات پاکستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک پر بھی آئیں گے اگرچہ متحارب گروپوں کے پھر سے آمنے سامنے آنے کے خدشات موجود ہیں۔ دوسری طرف پاکستان پر دباؤ ہے کہ یہاں موجود شدت پسند تنظیموں کو بھی کنٹرول کرے اور یہ کام فاٹف کے ذریعے کرایا جا رہا ہے۔ جماعت الدعوۃ اور جیش محمد جیسی تنظیمیں اب کھل کر کشمیر کی حمایت کرنے سے فی الحال قاصر ہیں۔ علما کی دفاع پاکستان کونسل بھی سرے غائب ہو چکی ہے۔

پاکستان نے تو صاف کہہ دیا ہے ”بھارت آزاد کشمیر پرحملہ کرنے کا خواب میں بھی نہ سوچے“۔ یعنی بھارت کے جموں وکشمیرکو اپنی ریاست میں ضم کرنے کے معاملے کو صرف سفارتی حد تک ہی نمٹا جائے گا؟ دوسری طرف عوام کو دبے لفظوں میں بتایا جا رہا ہے کہ جنگ کے لیے تیار رہیں۔ ایک نجی محفل میں کشمیری رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے بتایا کہ جنگ کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں اورعوام کو کھانے پینے کی اشیا، ادویات وغیرہ ذخیرہ کر لینی چاہیے۔ مگر کچھ واضح نہیں کہ کیا پاکستان صرف بھارت کے حملے کا جواب دے گا یا خود بھی پہل کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اگر بھارت کا کشمیر میں یہ پُرخطر اقدام کسی ڈیل کا نتیجہ ہے تو بھی پاکستان کے لیے مشکل اگر بھارت نے پاکستان کی کمزوریاں دیکھ کر یہ جارحیت کی ہے تو بھی ہمارے لیے بڑا امتحان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).