جامعہ پنجاب کے ”غنڈے“


(ضیا الرحمان)

\"zia-ur-rahman\"

اج کل سوشل میڈیا کے مارکیٹ میں دکانداروں کا متعارف کردہ ایک نیا منجن ”منجن جامعہ پنجاب“ دھڑا دھڑ فروخت ہورہا ہے اسی لئے ہم نے بھی مارکیٹ ویلیو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا چورن بیچنے کا ارادہ کر لیا۔

مجھے پہلی دفعہ جامعہ پنجاب جانے کا اتفاق ستمبر 2013 میں ہوا۔ چونکہ کے پی کے میڈیکل کالجز کے داخلہ جات میں میرا نام ویٹنگ لسٹ پر تھا اور ابھی 3 مہینے کے بعد ہی ”آر“ یا ”پار“ کا فیصلہ ہونا تھا۔ اسی لئے ”آر“ کی صورت میں اپنے مستقل جائے مسکن کیلئے ”جامعہ پنجاب“ کا انتخاب کیا۔

اج کے زمانے میں الیکٹرانک میڈیا معلومات کا مرکز بن گیا ہے۔ بوقت ضرورت رائے عامہ بنانا اور اگلے مہینے اسی رائے کی نفی کرنے میں یکتا۔ 2012 کے اواخر میں جس کا بھی ٹیلی ویژن سے واسطہ رہا ہوں اٌن کیلئے ”جامعہ پنجاب“ اور وزیر ستان میں تقریباً انیس بیس کا فرق ہوگا۔ میرا بھی یہی حال تھا اس لئے جامعہ جانے سے پہلے ”اسلامی“ شکل و صورت پر خصوصی توجہ دیا۔داڑھی کی تراش کم کرکے بڑھانے کو تر جیح دی۔

دل کی دھڑکن اس وقت انتہا پر پہنچی جب نظر جامعہ پنجاب کے مین گیٹ پر ”غنڈوں“ کے طرف سے آویزاں بینر پر پڑی۔

“ہم نئے آنے والے طالب علموں کو خوش آمدید کہتے ہیں“ اور ساتھ ہی راہنمائے داخلہ کیمپ کا بھاشن سنایا تھا۔ ادھر اٌدھر دیکھتے ہوئے میں زیر لب مسکرایا اور اسے صیاد کی الفاظ کی ہیرا پھیری سمجھتے ہوئے دام میں گھیرنے کا پہلا ہتھکنڈہ تصور کیا۔ اور ایک ہوشیار پرندے کے طرح ایسی چالوں سے دور رہنے کا فیصلہ کیا۔ سفید لباس میں ملبوس ”ان سب“ غنڈوں سے ہر حال میں دور رہنا ہے۔ صحیح سلامت ڈیپارٹمنٹ میں پہنچنے پر اللہ کا شکر ادا کیا لیکن کیا پتہ تھا کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔

ڈیپارٹمنٹ داخل ہوتے ہی ان ”غنڈوں“ کے راہنمائے داخلہ کیمپ پر نظر پڑھی۔ بڑے تپاک سے دو ”غنڈے“ اگے بڑھے اور سیدھے اپنے کیمپ میں لے گئے۔ کیمپ میں بیٹھتے ہی میں ادھر اٌدھر ڈنڈوں, سوٹوں اور اسلحہ کی تلاش میں نظر دوڑانے لگا لیکن غنڈوں نے کمال مہارت سے میرے تیور بھانپتے ہوئے مجھے مصروف رکھنے کے خاطر داخلہ کے حوالے سے معلومات دینا شروع کر دیں۔ چند لمحوں کے بعد مجھے دو آدمیوں کے حوالے کیا گیا وہ مجھے انٹرویو والے روم لے گئے۔ لیکن مجھے ان غنڈوں کی ”غنڈہ گردی“ پر اس وقت یقین کامل ہونے لگا کہ جب بینک میں داخلہ فیس جمع کرتے وقت انہوں نے خود لمبی قطار میں کھڑے ہو کر مجھے ایک طرف سائے میں انتظار کرنے کا کہا۔

فیس جمع ہونے کے بعد ہم واپس ڈیپارٹمنٹ کے جانب لگے تھے کہ ”غنڈے“ کو اوپر سے ایک اور شکار پر جھپٹنے کا کہا گیا۔ غنڈے نے مجھے یہ کہہ کر واپس کیمپ جانے کا کہا کہ ہاسٹل کی ذمہ داری ایک اور ”ناظم“ کے ذمہ ہے اور خود دوسرے شکار کے ساتھ ہولیا۔

میں نے اسی لمحے کھسک جانے میں عافیت سمجھی اور ”غنڈوں“ کے کیمپ میں جانے کے بجائے سیدھا ہاسٹل پہنچ گیا۔ آفس میں ہاسٹل الاٹمنٹ کا فارم دکھایا اور الاٹ شدہ کمرے کے بارے میں پوچھا۔ لیکن مجھے بتایا گیا کہ اس کمرے میں پہلے سے چار لوگ الاٹ ہیں لہذا ہم اپ کو ایڈجسٹ نہیں کرسکتے۔ آفس والے نہیں مانے تو میں مایوس ہوکر ہاسٹل نمبر 9 سے نکلنے لگا۔ وارڈن سے رابطہ کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ کمروں کا ریکارڈ آفس والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اپنے لئے ہر دروازے کو بند ہوتا دیکھ کر اور اجنبی شہر میں شام کے ڈھلتے ہوئے سایوں سے گبھرا کر میں دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے ”غنڈوں“ کے کیمپ میں پہنچ گیا۔

مجھے دیکھتے ہی ہاسٹل والا ناظم میرا مدعا سمجھ گیا۔وہ میرے ساتھ ہو کر واپس اٌسی ہاسٹل آیا۔ انہوں نے میرا فارم سامنے ٹیبل پر رکھ دیا اور کلرک نے بغیر کسی جھنجٹ کے سائن کر دیا۔ ہم آفس سے نکلنے لگے تو کلرک ”ناظم“ کے ساتھ مخاطب ہوکر کہنے لگا ”مجوزہ روم میں اج میرے کچھ مہمان ٹہرے ہوئے ہیں لہذا اج ”خان صاحب“ کو اپ اپنے پاس رکھ لے“ اسی وقت مغرب کی اذان ہوئی ”غنڈہ“ مجھے لیکر مسجد لے گیا اور وہاں امامت کرنے لگا۔ نماز کے بعد میں اس وقت حیرت کے وادیوں میں غرق ہونے لگا جب ”غنڈے“ نے درس قران کا اعلان کیا اور خود درس شروع کیا۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد ”ناظم“ نے مجھے اپنے کمرے میں لے جا کر سونے کا کہا اور خود کسی اور کمرے میں جانے لگا۔ میں نے گھبراتے ہوئے ”فولنگ“ کا خدشہ ظاھر کیا لیکن اس نے زیر لب مسکراتے ہوئے بے فکر رہنے کا کہا۔

بستر پر دراز ہونے کے بعد دن بھر کے گزرے ہوئے واقعات میرے نظروں کے سامنے فلم کے صورت چلنے لگے۔ سوچتا رہا میں 500 کلومیٹر دور مالاکنڈ سے آیا ہوں۔ نہ کوئی جان پہچان, نہ میرا کلاس فیلو، نہ ”غنڈے“ نے اپنی تنظیم میں شمولیت کا کہا نہ کسی نظریے کا پرچار کیا اور نہ ہی کسی شخصیت کے قصیدے سٌنانے لگا ۔ نہ شکرانے کا طالب اور نہ ہی اپنی سینیارٹی کیش کرنے کی کوشش۔ اوپر سے میں پٹھان (یاد رہے اس وقت جمعیت اور پٹھانوں کے بیچ شدید قسم کے اختلافات تھے)۔

اگلے تین مہینے میں نے جامعہ پنجاب میں کیا دیکھا باقی ”درندگی“ کی روداد اگلے قسط میں۔

نوٹ: راقم ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد کا طالب علم ہے اور عملی طور پر جمعیت سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتا بلکہ کافی ایشوز پر اختلاف رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments