کابل: ہمارے پاس چُلو بھر پانی بھی نہیں


کابل کو ایک مرتبہ پھر خون میں نہلایاگیا۔ ہزارہ برادری کی باراتی تقریب کے دوران پَل بھر میں انسانی لہو کا دریا بہہ گیا۔ آخری اطلاعات کے مطابق اسی سے زیادہ کلمہ طیبہ پڑھنے والے مسلمان اس دھماکے میں شہید اور دوسو سے زیادہ دزخمی ہوئے ہیں۔ ہر طرف اشرف انسانوں کے جسمانی اعضا بکھر گئے۔ اٹھانے والوں کو یہ ادراک کرنا مشکل ہو گیا کہ لاشوں کے اس ڈھیر میں سَرکس کا، ہاتھ پاوں کس کے اور دھڑ کس کاہے؟ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتاہے۔ بے شک، اقبال نے ایسے درندہ نما مسلمانوں ہی کے بارے میں بہت پہلے کہا تھا کہ

یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

کیا اسرائیل کی بہترسالہ تاریخ میں کسی نے سنا ہے کہ وہاں پر کسی یہودی نے اپنے ہم مسلک افراد کو اس طرح مارا ہو، بلکہ اس پورے عرصے میں اسرائیلیوں نے اُن فلسطینیوں کے چیتھڑے بھی ایسی بے دردی سے نہیں اڑائے ہیں جنہیں وہ اپنا دشمن سمجھتے ہیں؟ ہندووں کوہم لاکھ انتہا پسند کہیں لیکن کیا ان انتہا پسندوں نے اپنے ملک میں ایسی سنگ دلی کے ساتھ اپنوں کا تودرکنار، غیروں کا شکار کیا ہے؟ کیا کوئی یہ گواہی دے سکتا ہے کہ اس دور میں ایک عیسائی مذہب کے ماننے والے نے اپنے ہم عقیدہ لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ اس طرح بھیانک کھیل کھیلاہو؟

ان تمام سوالات کے جوابات مجھے نفی میں مل رہے ہیں۔ بہت کم اور بہت شاذ ایسے عیسائی، یہودی اور ہندو ہوں گے جو اس نوعیت کے ظلم کا سوچ سکیں اور پھر اس کو عملی جامہ پہنائیں۔ نیوزی لینڈ میں چار ماہ قبل دہشتگردی کا ایک دلخراش واقعہ پیش آیا، پورے مغرب میں اس پرندامت اور شرمندگی محسوس کی گئی۔ اس ملک کی خاتون وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن میں بھی اتنی غیرت تھی کہ ہفتوں تک وہ مسلمان کمیونٹی کے ساتھ کھڑی رہ کر یکجہتی اور ماتم کا اظہار کرتی رہیں۔

دوسری طرف ہمارے غازی ہیں کہ روز اپنوں کو کاٹ کاٹ کر تھکنے کا نام نہیں لیتے۔ ان غازیوں کی دانست میں وہ افغانستان ابھی تک مسلمان نہیں ہوا ہے جس کی پوری تاریخ اسلام اور اسلامی اقدار پر کھڑی ہے۔ جہاں کے اولیا ء پورے برصغیر میں پھیل کر لوگوں کو الہیات اور آسمانوں سے جوڑتے رہے۔ جس کے بارے میں اقبال شہادت دے چکے ہیں کہ مذہب ان لوگوں گھٹی میں پڑی ہے،

افغانیوں کی غیرت دین کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

کابل میں صرف اس بار نہیں بلکہ روز ایسی قیامتیں بپا ہوتی ہیں لیکن ہم نے ان مظالم پرمجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ حالیہ دھماکے کے نتیجے میں اسی سے زیادہ افراد شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ دلہن کے والد بتارہے تھے کہ اس دھماکے میں ان کے خاندان کے چودہ افراد چل بسے۔ درجنوں گھرانے اجڑگئے، درجنوں والدین نے اپنے پیارے کھودیئے لیکن ہمارا رد عمل اور ہماری لفظی مذمت پر تُف۔ کیا یہاں پر روز انتخابی دھاندلی، مہنگائی اوربجلی لوڈشیڈنگ کے لئے سڑکیں بلاک کر دینے والی مذہبی جماعتوں کی قیادت نے اس انسانیت سوز المیے اور تاریخی ظلم کے خلاف بھی چند افراد کی ریلی نکالی؟

کیا کسی عالم یا مذہبی لیڈر نے یہ سوال اٹھانے کی ضرورت محسوس کی ہے اس خطے میں پچھلے چالیس سال سے اسلام کے مقدس نام پریہ کیا خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے اور کب تک انسانی سروں کی کٹائی کا یہ بھیانک عمل جاری رہے گا؟ کیا یہ لوگ اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ جہاد کے نام پر فساد پھیلانے والوں کے مفسد نظریات کو باطل قرار دے کر ان سے خود بھی اور دوسروں کو بھی لاتعلق رکھیں؟

دہشتگردی اور انتہاپسندی کے ناسور کو وقتی طور پر فوجی آپریشنز اور ریاستی اداروں کے عملیات کے نتیجے میں مات دی جا سکتی ہے لیکن اس کا قلع قمع کرنے کا حل قطعاً یہ نہیں ہے۔ نظریاتی اور فکری طور پر جب تک اس خونخوار طبقے کو قائل نہ کیا جاسکے تب تک یہ لاشے گرتے رہیں گے۔ میرا یقین ہے کہ نظریاتی محاذ پر ہمارے علماء کرام ہی یہ فریضہ بہتر انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ہمارے علماء کو پہلے ایک پیچ پر آنا ہوگا۔

ایک حتمی اور جاندار بیانیہ تشکیل دینا ہوگا۔ یوں اس ناسور کے خلاف انہیں اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے علماء کرام سورۃ الحجرات کی اس چھوٹی آیت کا کیا ترجمہ وتشریح کرتے ہیں کہ ”انما المومنون اخوۃ“ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ پیارے آقاﷺ کی اس حدیث کو کس نظر سے دیکھتے ہیں جس میں فرمایا گیاہے کہ ”ان المومن للمومن کا البنیان یشد بعضہ بعضاً“ یعنی مسلمان مسلمان کے لئے ایک عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتاہے۔ کیا چالیس سال سے اپنے لہو میں تڑپتے افغانوں نے ہم اور ہمارے علماء کو کبھی تڑپنے پر مجبور کیاہے؟ کیا اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے انبیاء کے ورثاء کے پاس چلو بھر پانی بھی ہے یا نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).