ریحان بھی کسی کے جگر کا ٹکڑا تھا


انسان کی زندگی میں شادی ایک بڑی خوشی تصور کی جاتی ہے لیکن اس سے بھی بڑی خوشی انسان کو تب حاصل ہوتی ہے جب اللہ تعالی اس کو اولاد سے نوازتا ہے۔

اولاد کے پیدا ہوتے ہی انسان اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہے۔ بندہ جتنا بھی غریب ہو اس دن دل کھول کر خرچ کرتا ہے۔ ایک مہینے کے بعد وہ نومولود بچہ اپنے والدین کو اپنے محبت میں دیوانہ کردیتا ہے۔ یہ وہ دور ہوتا ہے اس دوران بچہ صرف ہاتھ پیر چلاتا ہے اور والدین کے چہروں پر باقاعدہ نظر دوڑاتا ہے۔

دو تین مہینے کے بعد بچہ تھوڑا بہت مسکرانا شروع کردیتا ہے۔ ماں باب اس مسکراہٹ کو دیکھنے کے لئے کئی گھنٹے انتظار کرتے ہیں۔ جب باب دن بھر کے کام کی تھکن سے چور گھر پہنچتا ہے تو بچے کی ایک مسکراہٹ سے ساری تھکن دور بھول جاتا ہے۔ باب لیٹ جاتا ہے اور اسے اپنے سینے پر بیٹھا کے کھیلتے کھیلتے سو جاتا ہے۔ ماں رات کو جاگ جاگ کر اس کو دیکھتی ہے اسے سکون سے سوتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ اگر بچہ رات کو بستر گیلا کریں ماں اس پر خود سو جاتی ہے اور بچے کو اپنے سینے پر سلاتی ہے۔

بچہ جب تک کھانا نہیں کھاتا ماں نہیں کھاتی ماں اس کو طرح طرح کی لالچ دے کر اس کو کھانا کھلاتی ہے۔ جب وہ دو سال کا ہوتا ہے تو وہ بلبل کی طرح بولنا شروع کردیتا ہے۔ اور یہ بچے کا سب سے پیارا دور ہوتا ہے۔ جب وہ پہلی بار ماں بولنے کی کوشش کرتا ہے جب وہ ماں کی انگلیاں پکڑ کر دو قدم چلتا ہے تو ماں کی آنکھیں نم ہوجاتی ہے۔ وہ اسے اپنے سینے سے لگا دیتی ہے۔

اگر بچے کو تیز بخار ہو تو باب قریب الگ تڑپ رہا ہوتا ہے۔ بچوں کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کو کسی خاص وقت کا تعین نہیں ہوتا، دن ہو رات بارش ہو طوفان ہو باب اس کو اٹھا کر ہسپتال کی طرف دوڑتا ہے۔ جب ماں باب اپنے بچے کو پہلی بار سکول لے جاتے ہیں تو اس دن وہ اپنے بچے کی اچھی مستقبل کا خواب آنکھیوں میں سجائے ہوتے ہیں۔ اور اپنی دعاوں میں صرف اس کامیابی شامل کردیتے ہیں۔ ہر باب اپنی بساط کے مطابق اچھے سکول میں داخل کروانے کی خواہش رکھتا ہے۔ باب کے جیب میں پیسے ہو نا ہو وہ بچے کو پنسل کاپی ہر صورت لاکر دیتا ہے۔ باب کے پاس کام پر جانے کا کرایہ ہو یا نہ ہو بچے کے اسکول کے لنچ کی فکر ہوتی ہے۔

بچہ سکول سے تھوڑا لیٹ ہو تو ماں کی جان ہی نکل جاتی ہے۔ اگر بچے کو کہیں چوٹ لگ جائے باپ کے کلیجے پر چھریاں چلتی ہیں۔ وہ اسے اپنے جان سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں۔ اور یہ پیار ہر ماں باب اپنے بچوں کو دیتے ہیں چاہے وہ غریب ہو یا امیر۔ بس ان کے کھانے پینے کی جگہیں مختلف ہوتی ہیں۔ ان کا رہن سہن الگ ہوتا ہے۔ ان کے شاپنگ کی مارکیٹوں میں فرق ہوتا ہے۔ اگر امیر پیزہ کھلاتے ہیں تو غریب کسی چوراہے پر لگے توے کا بگر کھلاتا ہے۔

اگر امیر بنگلے میں رہتا ہے تو غریب کسی تنک گلی والے فلیٹ میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ اگر امیر کلفٹن کی سپر مارکیٹ سے کپڑے خریدتا ہے تو غریب محلے کی دکان سے عید کی خریداری کرتا ہے۔ اگر امیر اپنے بچوں کو کرولا میں گھمانے لے جاتا ہے تو غریب رکشے کی سواری کرتا ہے لیکن بچے کو ان کا پورا پیار ملتا ہے جو ایک ماں یا باب سے ملنا چاہیے۔

اولاد کے پیدا ہونے کے بعد انسان اپنے لئے نہیں بلکہ ان کے لئے جی رہا ہوتا ہے۔ صاحب اولاد انسان اپنی اولاد پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتا، جب وہ بہت زیادہ شرارت کرے تو ماں باب ان کے گال پر تھپڑ مار دیتے ہیں لیکن اگلے ہی لمحے ان کو اپنے سینے سے لگادیتے ہیں۔ اور ندامت محسوس کرتے ہیں۔ ان تمام بچوں کی طرح ریحان بھی اپنے ماں باب کے آنکھیوں کا تارا تھا۔ وہ اپنی ماں کا جگر کا ٹکڑا تھا۔ وہ باب کے بوڑھاپے کا سہارا تھا۔

وہ اپنے ماں باب کا ایک خوبصورت اور سنہرا خواب تھا۔ جسے انہوں نے بڑے پیار سے دیکھا تھا، اسے پال پوس کے بڑی مشکلوں اور تکالیف کے بعد جوانی کے ابتدا میں قدم رکھا تھا۔ وہ اپنے ماں باب کے لئے اتنا ہی ہیارا تھا جتنا اس شہر کے امیروں کے بچے ہیں۔ وہ غریب ہی سہی لیکن اپنی ماں کا لاڈلا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کے گھر کے حالات کیا ہیں اس کے ماں باب کیا کام کرتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے اس کی ماں اس کو انڈہ فرائی کرکے ناشتہ دیتی ہوگی۔ یقین ہے وہ رات کو گھر لوٹنے تک ماں باب کی نظریں دروازے پر رہتی ہوں گی۔ اس کا باب فون کرکر کے پوچھتا ہوگا بیٹا کہاں ہو ابھی گھر آجاؤ آپ کی ماں پریشان ہورہی ہے۔

ان کو کیا معلوم تھا کہ ایک دن اس کی چھوٹی موٹی شرارتیں اس کو انسان نما درندوں سے ملائیں گی۔ ان کو کیا معلوم تھا کہ اس معصوم کو مار مار کر قتل کر دیا جائے گا۔ ان کا کیا معلوم تھا کہ جس گلی محلے میں وہ رہتے ہیں جہاں انسان نہیں انسان کے بھیس میں درندے رہتے ہیں۔ ریحان کے اوپر الزام لگا کہ اس نے چوری کی۔ پھر کیا ہوا ایک ننھا پھول سا بچہ ان درندوں کے ہاتھوں چڑھ گیا۔ ان لوگوں نے جنہیں ریحان انسان سمجھتا تھا۔ اپنی درندگی کی اصل شکل میں آگئے۔ لاتیں گھونسے، لکڑی، راڑ کیا کیا اس نھنے بدن نے سہے ہوں گے کتنی ہڈیوں کی ٹوٹنے کی آواز آئی ہوگی۔ کتنا کلیجہ کٹتا جارہا ہوگا۔

جب روح جسم کے حصوں سے نکل رہی ہوں گی تو ریحان کا بدن خدا سے التجاء کررہا ہوگا کہ اے میرے رب مجھے ان درندوں کی مار نہیں سہنی۔ جسم کا ہر کونہ سہم سہم کر خود سے روح کو الگ کررہا ہوگا۔ آخری سانس کے ساتھ جب ریحان کی آنکھ سے آنسو گرے ہوں گے تو عرش پہ بھی آنسو گرے ہوں گے۔ ریحان کی موت پورے پاکستان کے چہرے پہ وہ داغ ہے جس سے کوئی نہیں دھلا سکتا۔ مانتے ہیں کہ جرم کی سزا ہوتی ہے۔ مگر ہاتھوں میں موت کا سامان لئے یہ لوگ خود سے جج، خود سے وکلیل اور اپنے ایریا کو عدالت بنانے کا اختیار کس نے دیا؟ یہ ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک قتل ایک درندگی سے کیا گیا قتل جہاں پہ عدالت، قانون، انصاف کو سڑک کے درمیان نیلامی کے لئے رکھ دیا گیا ہے۔ جہاں سفید پوشاک میں ملبوس لوگوں کے اندر جھانکتی وحشت کو دیکھا جا سکتا ہے۔

عدم برداشت کی بیماری جیسی موذی مرض میں لاحق لوگوں کا یہ ہجوم نہ جانے کتنے ریحان جیسے بچوں کو نگل جائے گا۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ لوگوں کہ یہ احساس ہو کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں اور جو قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے اسے کڑی سزا ملنی چاہیے۔ اور عدالت سے بھی گزارش ہے کہ وہ ایسے کرداروں کے لئے کوئی رحم کی فریاد نہ سنے اور قرار واقعی سزا دے۔

اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).