افسانہ انتخاب


تمام دن سورج اپنے جوبن پر چمکنے کے بعد اب اپنی آخری پھیکی کرنیں ہر سو پھیلا رہا تھا۔ ایک اور دن اختتام پزیر تھا۔ تنہائیوں، آنسوؤں اور کرب سے بھرپور ایک اور رات زہریلی مسکراہٹ اپنے چہرے پہ سجائے بانہیں پھیلا کر اس کی منتظر تھی۔ رات اسے ہمیشہ ہی دہشت میں مبتلا کردیتی تھی۔ وہ کبھی خودپسندی کا شکار نہ ہوئی تھی رات نے تو ہمیشہ اس کی پرتوں کو کھولا تھا جس سے ساری دنیا ناآشنا تھی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کے قدم ڈول رہے تھے ہر رات ایک پر کٹھن سفر کا آغاز ہوتا تھا۔ شاید ہر انسان اپنی زندگی میں اس وادی کا سفر کرتا ہوگا، مگر زندگی کے اس مرحلے میں یہ سفر اس کی برداشت سے بہت زیادہ اذیت ناک تھا۔

وہ ہر طرف بہت سا کام پھیلا کر بیٹھی تھی کہ کسی طرح خود کو رات کے شکنجے سے بچا سکے مگر ہر روز کی طرح تمام کام تیزی سے خود بخود ہی اپنے اختتام کو پہنچ رہے تھے۔ اس کے پہلو میں اس کے بچے موجود تھے جو نیند کی وادیوں میں اتر چکے تھے۔ اس نے معصوم چہروں کی طرف دیکھا اتنا سکون اور ٹھہراؤ کب کیا کبھی اس کی ذات کا بھی حصہ رہا ہو گا؟

اس نے اپنی ہینڈزفری نکالی اور گانے سننے لگی کہ شاید اس کی توجہ اس کے ذہن کو تھوڑا سا بٹا لے اور اب کی بار رات کو شکست دی جا سکے۔ ایک، دو تین نہ جانے کتنے ہی گانے سننے کے بعد اس کو محسوس ہوا کہ شاید آج بہت عرصے بعد وہ رات سے جیت چکی ہے۔ اس کی پلکیں تھکن کے بوجھ سے بوجھل ہو چکی تھیں۔ موبائل کی بیٹری اپنے ختم ہونے کی نشاندہی کر رہی تھی۔ اس نے سکھ کا سانس لیا اور کروٹ لے کر آنکھیں موند لیں۔

وہ ناگن کہاں سوئی تھی۔ وہ تو روز اس پہر کی منتظر ہوتی تھی۔ ایک دم اس کی آنکھوں سے تمام نیند رفوچکر ہوگئی۔ وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کی شکست پر قہقہے لگا رہی تھی اور وہ بدقسمت نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا شکار ہونے کو پھر سے تیار بیٹھی تھی۔ اس کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ اس کی روح کو کھینچا جا رہا تھا۔ رات کی ناگن نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ وہ اس کی روح کو کھینچ رہی تھی اس کے گال اس کے آنسوؤں سے بھیگنا شروع ہو گئے تھے اور ان کی حدت کا اندازہ اس کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں لگا سکتا تھا۔

وہ تو انگاروں کی گرمائش لیے اس کی گردن پر سرک کر اسے جلا رہے تھے۔ اسے کھینچ کر آج پھر اس وادی میں پہنچادیا گیا تھا جہاں ضمیر کی عدالت لگتی تھی۔ یہ عمل اس کے بچپن سے جاری تھا مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ اس وادی کے راستے کی ہیبت ناکی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ یہاں بچپن کے ابتدائی دنوں کی مسرتوں والے راستے دھندلا چکے تھے۔

اس کے تمام گناہ اس کے سامنے موجود تھے۔ ایک، دو تین روح پر نجانے کتنے کوڑے برسائے گئے۔ اس کے جسم کے کیے گئے تمام گناہوں کی سزا روح کو دی جا رہی تھی۔ وہ ایک الگ ٹرانز میں تھی۔ یہ سب سمجھنا کسی بھی انسان کے بس سے باہر تھا۔ سامنے اس کے تمام رشتوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ وہ ان سب سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔ اس کے بچے، ماں، باپ، بہن، بھائی ہر تعلق خود غرضی کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔ کوڑوں کی شدت میں پھر سے اضافہ ہوگیا۔

وہ بے حال ہو چکی تھی۔ اس پر یہ کوڑوں نے اثر کرنا بند کر دیا تھا۔ جلاد نے اس بات کو بھانپ لیا تھا اب اس کو ایک ویرانے میں لیجا کر پھینک دیا گیا تھا۔ دور تک اس کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کوڑوں کی ضربوں نے روح کو نڈھال کر چھوڑا تھا۔ اگلی سزا تجویز کی جارہی تھی۔ چاروں طرف گدھ ہی گدھ نظر آرہے تھے جو اس کی روح کی چیڑ پھاڑ کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ آنسوؤں کی شدت میں اضافہ ہوگیا تھا۔ اس نے اپنا منہ تکیے میں دے رکھا تھا وہ چیخ رہی تھی۔ ایک دفعہ آخری موقع دینے کے لیے دوہائیاں دے رہی تھی مگر اس کی باتیں ان جانوروں کو کہا سمجھ آتی تھیں۔ وہ بھی اس کی طرح بے بس کسی کے حکم کی تکمیل میں مصروف نظر آرہے تھے۔ درد کی شدت کو برداشت نہ کر پاتے ہوئے اس نے آنکھیں کھول دیں۔

رات نے پھر سے قہقہے لگانے شروع کردیے۔ ابھی تو آغاز عشق ہے، یہ انتخاب اس نے اپنی مرضی سے کیا تھا پھر یہ چیخ و پکار کیا تھی؟

بہادری تو ہنس کر اس درد کو جھیلنے میں تھی مگر وہ کہاں اتنی بہادر تھی۔ اس کا وجود کانپ کر رہ گیا۔ اب کے اس نے آنکھیں نہ بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسے لگا اس کی آنکھیں درد اور تھکن کے بوجھ سے پتھرا گئی ہیں۔ اب کے اس کی روح کو کھلی آنکھوں سے ہانک کر بستی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ اسے پہلے کی طرح اب بھی کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ سامنے ایک شناسا چہرہ نظر آیا۔ یہ تو وہی چہرہ تھا جس نے اسے بغاوت پرمجبور کردیا تھا۔ جس نے اس کے لیے خود غرضی کے نئے راستے تراشے تھے۔ اسی کے لئے تو رشتے ناتوں کی ڑوریوں کو توڑ کے اس نے اس وادی کا انتخاب کیا تھا۔ وہ اس کی طرف دیکھنے کا بھی روادار نہ تھا۔

مگر اتنا پرسکون کیسے ہے یہ مرد؟

حدیں تو اس نے بھی توڑی تھیں۔ سزا کے لیے ایک کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ اس کے چہرے پر موجود سکون کو دیکھ کر حیرت میں مبتلا تھی۔ اس نے گھٹی گھٹی آواز نکالنا شروع کیں وہ تو چہرے پر مسکراہٹ سجائے پہلے ہی کی طرح پرسکون بیٹھا تھا۔ مجھے عذاب سے نکال لو، صرف تم ہی مجھے نکال سکتے ہو۔ اس نے اس کی آنکھوں میں جھانکا اسے اس کی مغرور آنکھوں پر رشک آ رہا تھا۔ جو اسی کی ہی دین تھیں۔ اس نے اس کی آنکھوں میں چمک کو دکھا وہ تو تماشبین کی طرح اس سب سے لطف اندوز ہورہا تھا۔

اس نے اپنے ڈھیر ہوتے وجود کو سمیٹنا شروع کردیا۔ زندگی میں بہت سے تعلقات اب بھی موجود تھے جنہیں اس کے ساتھ اور توجہ کی ضرورت تھی۔ ایک لمحے کو موت کی شدت سے خواہش کی گئی۔ اپنی ذات پر رحم نہ کرتے ہوئے موت کی وادی کا سفر اس وادی کا سفر سے قدرے آسان تھا۔

اس نے خود سے عہد کرنا شروع کیے وہ اس مرد کو اپنے خیالوں اور روح سے نوچ نکالے گی۔ میں مزید خود کو اذیت میں مبتلا نہیں کروں گی۔ اس کے دونوں بازو اس کے شدت سے بہتے آنسوؤں کی آمدورفت سے تر ہو چکے تھے۔ میں تم سے شدید نفرت کرتی ہوں۔ اس نے یہ جملہ بہت بار بولا۔ اس کے کانوں کی لوئیں تپ رہی تھیں۔ وہ روز اس جملے کو سننے کی عادی تھیں شاید آج رات کی سزا ختم ہو چکی تھی۔

اس نے اپنے شوہر کی طرف نظر دوڑائی جواس کی تمام کیفیت سے نہ آشنا معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے دوبارہ اس کی آنکھوں میں جھانکا، ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اذیت میں مبتلا روح سے اتنا لاعلم ہوگیا ہو شدت سے بہتے آنسو اس نے کبھی نہیں دیکھے ہوں۔ کرب میں مبتلا روح کبھی اسے کسی سوچ میں نہ ڈال پائیں ہوں۔ اس نے کیسے کبھی نہیں سوچا کہ ہرات کس کے ماتم میں دھاڑے مار مار کے رویا جاتا ہے اور کوئی بندہ پاس نہ پا کر دلاسے دے کر کیسے خود کو چپ کروایا جاتا ہے۔

اسے کسی سے کسی سے کوئی گلا نہ تھا یا شاید گلہ کرنے کے بھی لائق نہ رہی تھی۔ ایسی خودغرض روحیں ایسے ہی لاپرواہ ہمسفر کی حقدار ٹھہرتی ہیں۔ وہ روز تنہائی میں خود کو ایسی ناقابل برداشت سزاؤں کے لئے تیار کرتی ہیں۔ ہر روح کہاں اتنی بہادر ہوتی ہے وہ شاید غیرمعمولی تھی مگر درست انتخاب! ہاں اس معاملے میں وہ ہمیشہ ہی ناکام ہی رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).