کشمیر کی صورتحال: سکول تو کھلے لیکن بچے نہیں آئے


انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سیکیورٹی پابندیوں کے لگائے جانے کے پندرہویں روز بھی حالات معمول پر نہیں آ سکے اور حکومت کی طرف سے پرائمری جماعت تک تعلیمی ادارے کھولے جانے کے اعلان کے باوجود کسی سکول میں کوئی تدریسی عمل شروع نہیں ہو سکا۔

دہلی حکومت کی طرف سے غیر اعلانیہ کرفیو میں نرمی کرنے کے اعلان کے باوجود سری نگر سے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور نے اطلاع دی کہ سری نگر شہر میں کسی جگہ سے بھی پولیس اور فوج کا کوئی ناکہ ہٹایا نہیں گیا۔

ریاض سہیل نے مزید بتایا کہ سڑکوں، گلیوں، چوراہوں پر لگے پولیس اور فوج کے ناکے بدستور موجود ہیں اور شہریوں کو ان ناکوں سے گزرنے کے لیے کڑی پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سری نگر

شہر کے چپے چپے پر پولیس موجود ہے

یاد رہے کہ مودی حکومت نے ریاست جموں اور کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے ختم کرنے کے یک طرفہ اعلان سے قبل ہی پورے علاقے میں سیکیورٹی کے سخت اقدامات لیے تھے اور فرانسیسی خبررساں ادارے (اے ایف پی) کی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار مزید فوجی ریاست میں تعینات کردیئے تھے۔ اس سے قبل کشمیر میں پہلے ہی پانچ لاکھ سے زیادہ سیکیورٹی اور فوجی اہلکار تعینات تھے۔

ریاض مسرور نے بی بی سی اردو سروس کو فون کے ذریعے دئیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اتوار کو سارا دن سری نگر شہر کے تمام علاقوں سے احتجاج، پتھراؤ اور پولیس سے جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔

انھوں نے بتایا کہ انتظامیہ نے اس صورت حال کا یہ کہہ کر اعتراف کیا کہ چند واقعات رونما ہوئے جن میں چند پولیس اہلکار اور چند مظاہرین زخمی ہوئے جنھیں ہسپتالوں میں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد خارج کر دیا گیا۔

گزشتہ شب سری نگر میں مقامی انتظامیہ نے تعلیمی ادارے کھولنے اور جزوی طور پر موبائل کی ٹو جی سروس بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔

لیکن چند گھنٹوں بعد ہی انتظامیہ نے اپنا اعلان کے برعکس موبائل فون سروس کو دوبارہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا اور تعلیمی ادارے کھولنے کے فیصلے کو بدلتے ہوئے کہا کہ صرف پانچویں جماعت تک سرکاری سکول بند رہیں گے۔

سری نگر

انڈیا اخبار ‘دی ایکسپریس’ میں سکول کھولنے کی خبر کو اس شہ سرخ کے ساتھ کیا گیا ‘جموں و کشمری میں تعلیمی ادارے کھل گئے لیکن بچوں کی ریکارڈ غیر حاضری۔’

انڈیا کے ایک اور مقتدر اخبار میں یہ اخبار اس سرخی کے ساتھ شائع کی گئی کہ ‘استاد تو سکول آئے لیکن بچے نہیں۔’

اے ایف پی کے مطابق شہر میں ایک سو نوے پرائمری سکول ہیں اور ان میں صرف نصف درجن سکول میں چند بچے ہی دیکھے گئے۔

سری نگر

سکولوں میں بچے نہیں آئے

ریاض سہیل نے کہا کہ سری نگر میں تجارتی ادارے، کاروبار اور دکانیں مکمل طور پر بند ہیں۔

سری نگر کے علاوہ کشمیر کے دیگر علاقوں کا احوال بتاتے ہوئے ریاض مسرور نے بتایا کہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ پندرہ دنوں میں کسی جگہ بھی علیحدگی پسندوں اور فوج کے درمیان کوئی مسلح تصادم ہونے کا کوئی واقع پیش نہیں آیا۔

انھوں نے کہا کہ مواصلاتی نظام معطل ہونے کی وجہ سے جنوبی کشمیر اور دیگر علاقوں سے جو خبریں پہنچ رہی ہیں ان کا واحد ذریعہ ان علاقوں سے سری نگر پہنچنے والے لوگ ہیں جو اکثر و بیشتر پیدل سفر کر کے سری نگر آ رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ہر جگہ پر فوجی اور سیکیورٹی فورسز نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے لیے رات کو گھروں پر چھاپے مارتے ہیں اور لوگوں کو حراساں کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp