تسلسل کیوں ضروری تھا؟


جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع ہو چکی، اب یہ بحث ختم ہوئی۔ آئیڈیل دنیا میں اصول کیا ہوتے ہیں وغیرہ جیسی بحث کو اٹھا کر ایک طرف رکھیں اور حقیقت کو ویسا دیکھنے کی کوشش کریں جیسی وہ ہے۔ ہمارے ملک میں آرمی چیف کا عہدہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے، یہ اصولی بحث نہیں حقیقت ہے۔ اس پوزیشن پر موجود شخصیت کا انداز فکر، دنیا کو دیکھنے کا انداز، حتیٰ کہ اس کی پسند ناپسند بھی ملکی پالیسی پر نظر انداز ہوتی ہے۔ جو لوگ اس توسیع کو محض عمران خان کا انتخاب یا مجبوری سمجھتے ہیں، وہ اس معاملے کو بہت محدود کر دیتے ہیں۔

سازشی تھیوری یہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ عمران خان کو غیبی امداد ملی لہذا یہ اس کا جوابی  شکریہ ہے۔ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال خود جنرل باجوہ کی پہلی تقرری ہے۔ جس نے ان کو پہلی بار اس آفس میں بٹھایا تھا وہ تو جیل میں پڑا ہے۔ اس سے قبل کی مثال جنرل اشفاق پرویز کیانی ہے جن کو توسیع، آصف زرداری یا یوسف رضا گیلانی نے دی تھی مگر کیا ان دونوں کو اس کے بدلے کوئی ریلیف مل گیا تھا ؟ جواب نہیں میں ہے۔ اس سے قبل پرویز مشرف جس نے اپنے آپ کو خود ہی توسیع دی تھی اس کو بھی نواز شریف نے منتخب کیا تھا، پھر کیا ہوا؟ لہذا یہ سوچنا یا سمجھنا کہ عمران خان کی مدد ہوئی اور جواب میں انہوں نے مدد کر دی، بچوں والی سوچ ہے۔ ان عہدوں پر کام کرنے والے اگر چاہیں بھی تو اس طرح ایک دوسرے کی مدد نہیں کر سکتے۔

آج کل کے حالات میں تو ویسے بھی یہ توسیع والا معاملہ محض عمران خان کی خواہش پر نہیں تھا۔ کیا گورنر سٹیٹ بنک شبر زیدی  یا مشیر خزانہ حفیظ شیخ عمران خان کا انتخاب تھے ؟ ان کا انتخاب تو اسد عمر تھے جو آج کل مکیش کے پرانے گانے سنتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر اپنے حل کی جانب چل پڑا ہے، پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ہمیں پسند آئے نہ آئے، اس مسئلے کو اب ایک یا دو سال میں حل ہونا ہے۔ امریکہ کی افواج کا افغانستان سے انخلا کا مرحلہ بھی اگلے دو برس میں طے پائے گا۔ آئی ایم ایف کا پروگرام بھی تین سالہ ہے جس میں سے چند ماہ گزر چکے۔ پاکستان کی معیشت کو ڈاکومنٹ کرنا یا تاجر کو راضی کرنا کہ وہ اپنے کھاتے کھول دے، پل صراط سے گزرنے کے برابر ہے، دھشت گرد تنظیموں کے حوالے سے فیصلہ کن  اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ وہ تاریخی موقع ہے جس میں پاکستان کو ان راستوں پر سے گزرنا ہے جو کم سے کم الفاظ میں مشکل ترین ہوں گے۔ خصوصاً مسئلہ کشمیر کا حل جو میرے گمان کے مطابق طے ہو چکا ہے۔ اس موقع پر ایک کلیدی منصب پر کسی نئی شخصیت کا آنا بہرحال شک و شبے کی گنجائش پیدا کر سکتا تھا۔ فرض کریں کہ اگر مسئلہ کشمیر کے کسی حل پر اتفاق ہے تو وہ ان ہی شخصیات کے بیچ ہے جو اس وقت آفس میں موجود ہیں، ان میں سے کسی ایک کا جانا اور نئی شخصیت کا داخل ہونا اس تمام پراسس کو راستے سے ہٹاتا نہیں تو کوئی نئی جہت دے سکتا تھا جس کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں۔

موجودہ فوجی قیادت کا تسلسل در اصل موجودہ پالیسی کا تسلسل ہے،عمران خان کی خواہش نہیں۔ میں ایک قدم آگے بڑھ کے کہتا ہوں کہ یہ عمران خان کی خواہش سرے سے تھی ہی نہیں بلکہ حالات کا جبر تھا۔ اب جو لوگ سوچ رہے ہیں کہ اس قدم سے عمران خان کی حکومت کو تین سالہ ضمانت مل گئی، وہ بھی جذبات ہی سے کام لے رہے ہیں۔ کس طرح سے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

شروع کریں ذوالفقار علی بھٹو سے جس نے نئے پاکستان کا نعرہ پہلی بار لگایا تھا۔ وہ ایک شکست خوردہ آدھے ملک کے وزیر اعظم بنے اور اسے نئے پاکستان کا نام دیا، اسے آئین دیا، پانچ سال ایک ایسی فوج کے ساتھ گزارے جو شکست کا زخم لئے بیٹھی تھی اس کے باوجود بھی بھٹو صاحب نے کسی کو سزا تو کیا دلوانی تھی، حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے تک کی جرات نہ کر سکے۔ اپنی مرضی کا ایک ایسا چیف نکال کر لائے جو ان کی نظر میں بے ضرر ترین آدمی تھا، بھٹو کو یقین تھا کہ ضیاء الحق، ان کی شخصیت کا دیوانہ ہے۔ تقرری ہوئی پھر کیا ہوا ؟

جنرل اسلم بیگ سترہ اگست کے حادثے کے نتیجے میں چیف بنے، انتخابات ہوئے، بادل ناخواستہ بے نظیر بھٹو کو قبول کرنا پڑا، تمغہ جمہوریت حاصل کیا اور بے نظیر کو چلتا کیا۔ اب آئے جنرل آصف نواز جن کو قدرت نے مہلت نہیں دی، نواز شریف جب آئے تھے، اس وقت مسلح افواج کے سربراہ کی تقرری کا اختیار صدر مملکت کے پاس تھا جو غلام اسحاق خان تھے، ان کا انتخاب جنرل وحید کاکڑ بنے۔ نواز، اسحاق لڑائی کے بعد اسمبلی توڑی گئی جو سپریم کورٹ نے بحال کردی، ڈیڈ لاک پیدا ہوا، جنرل وحید کاکڑ نے اپنا کردار ادا کیا جس کے بعد غلام اسحاق خان کو نواز شریف کے ساتھ جانا پڑا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جنرل کاکڑ نے غلام اسحاق کے لئے سسٹم نہیں لپیٹا۔ الیکشن ہوئے بے نظیر بھٹو آئیں، اور ان کر ساتھ فاروق لغاری، اب فاروق لغاری کا انتخاب بنے جنرل جہانگیر کرامت، یہ وہ جنرل تھے جن کے ہوتے ہوئے ہی لغاری نے بے نظیر کی حکومت توڑی، الیکشن ہوئے،  نواز شریف آئے، صدر سے اسمبلی توڑنے کے اختیار سمیت بہت کچھ واپس لے لیا جس میں مسح افواج کے سربراہ کا تقرر بھی شامل تھا، اب نواز، لغاری لڑائی شروع ہوئی۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور فاروق لغاری ایک طرف تھے، نواز شریف دوسری جانب۔ لغاری کو امید تھی کہ جہانگیر کرامت جو ان کا انتخاب تھے ان کے ساتھ مل کر نواز شریف کا تختہ الٹ دیں گے، مگر ایسا نہیں ہوا، اور لغاری کو مستعفی ہونا پڑا، سجاد علی شاہ کو خود ان کے ساتھی ججوں نے فارغ کر دیا۔

جنرل جہانگیر کرامت نے ملکی معاملات کو چلانے کے لئے ایک نیشنل سیکیورٹی کونسل بنانے کی تجویز دی جس کے بعد نواز شریف نے ان سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ یعنی وہ جنرل جہانگیر کرامت جو فاروق لغاری کا انتخاب تھے اور جس نے لغاری، سجاد علی شاہ کے مقابلے میں نواز شریف کا ساتھ دیا تھا، وقت بدلنے پر محض ایک بیان پر قربان کر دیے گئے۔

اب آئے پرویز مشرف جن کا انتخاب نواز شریف نے تازہ ملی آئینی طاقت کے بعد کیا تھا، پھر کیا ہوا؟  اس کے بعد کے جنرلز کی مثالیں کالم کے آغاز میں دے چکا ہوں۔

مختصر ترین الفاظ میں تاریخ دہرانے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ موجودہ توسیع کے بارے میں یہ سمجھنا کہ پہلے عمران خان کی مدد ہوئی اور اب انہوں نے جواب دے کر اپنی حکومت مستحکم کر لی ہے۔ محض سادہ لوحی ہے۔ جس نے جانا ہوتا ہے، وہ چلا جاتا ہے اس کا کوئی براہ راست تعلق کسی کی تقرری یا توسیع سے نہیں ہوتا۔ بلکہ دوسری طرح سے دیکھیں تو اس توسیع کے بعد عمران خان کمزور ہوئے ہیں کہ اب ان کے پاس فوجی قیادت کو آفر کرنے کے لئے مزید کچھ بچا ہی نہیں اور آخری تحفے کے بعد تو اولاد تک نظریں بدل جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).