یو ٹرن نہیں اباٶٹ ٹرن


آخر کار وزیر اعظم نے عین توقع کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی ہے۔ باخبر حلقوں اور راز درون خانہ سے آشنا لوگوں کے علاوہ سارا پاکستان جانتا تھا کہ جنرل باوجوہ کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ جن چند عاقبت نا اندیش اور وقت کی نبض سے نا آشنا سادہ لوح پاکستانی وزیراعظم کے پچھلے بیانات کی بنیاد پر اس توسیع میں شک و شبہ کا اظہار کر رہے تھے کہ شاید کپتان صاحب پہلی اور آخری بار یو ٹرن نہ لے کر اپنے چاہنے والوں کو سرخرو کر لیں مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ مگر ان کو بھی امریکہ میں جنرل صاحب کی غیر معمولی پذیرائی کے مناظر دیکھ کر یقین ہو گیا تھا کہ اب مدت ملازمت میں توسیع یقینی امر ہے کیونکہ امریکہ میں تین ماہ بعد ڈوبنے والے ممکنہ ستاروں کا اس شاہانہ انداز سے استقبال نہیں کیا جاتا۔

رہا یہ مسئلہ کہ اس توسیع کا جواز کیا تراشا جائے تو اول تو ایک پیج والی حکومت کو اس بیساکھی کی قطعی ضرورت نہیں تاہم تھوڑی بہت اخلاقی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر جواز تراشنے اور تلاشنے کی نوبت آ بھی جائے تو مسئلہ کشمیر اور سرحد پر ٹینشن کا جواز کیا کم ہے جس نے ایکسٹینشن کی راہ ہموار کی ہے۔ اور فرض محال اگر کو ئی ٹھوس اور مسکت جواز ہاتھ نہ بھی آ رہا ہو تو جنرلوں کے پاس اس طرح کے اقدامات کے لیے توجیہات کی کون سی کمی ہوتی ہے۔

 ویسے توہمارے ہمارے ہاں قوم کے محافظوں سے گستاخانہ سوالات پوچھنا عین غداری اور ملک دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح کے اوٹ پٹانگ اور گستاخانہ سوال پوچھنے کا شوق ہم سیاسی حکومتوں، حکمرانوں اور سیاست دانوں سے پوچھ کر پورا کر لیتے ہیں۔

اس موقع پر بھی ہم جنرل صاحب سے براہ راست کوئی سوال پوچھنے کے بجائے ”سیاسی“ وزیر اعظم جناب عمران خان ہی سے بصد احترام استفسار کریں گے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں جب ہماری آرمی ملک کے اندر دہشت گردوں کے خلاف مختلف آپریشن کررہی تھی اور حکومت نے جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے اشارے دیے تھے تو تب یہی کپتان صاحب اس اقدام کو جمہوریت کش اور اداروں کے خلاف بہت بڑی سازش قرار دے رہے تھے۔ ان کے خیال میں اس طرح کئی قابل اور محب وطن افسران کی حق تلفی ہوتی ہے اور ادارروں کی کارکردگی پر انگلی اٹھتی ہے کیونکہ اس سے یہ تاٹر ملتا ہے کہ ہماری فوج میں قحط الرجال ہے اور سپہ سالار کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔

یادش بخیر دو ہزار سولہ میں جب جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں تو کپتان صاحب نے اس وقت بھی وزیر اعظم نواز شریف پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ نواز شریف جنرل صاحب سے ڈرتے ہیں اس لیے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کر کے انہیں خوش کر نے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس کے بدلے میں وہ آرام سے حکومت کریں۔ کپتان نے اس وقت ببانگ دہل کہا تھا کہ ملک کے حالات جیسے بھی ہوں اگر انہیں وزارت عظمٰی مل گئی تو وہ ہر گز کسی آرمی چیف کی مدت میں توسیع نہیں کریں گے کیونکہ ادارے شخصیات سے نہیں آئین و قانون کی بالادستی سے چلتے ہیں۔

جناب وزیر اعظم ریاست مدینہ کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ کیا انہیں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رض کے عہد خلافت کا وہ واقعہ یاد نہیں جب انہوں نے عین حالت جنگ میں سیف اللہ کو سپہ سا لاری سے معزول کر کے ایک دوسرے صحابی کو لشکر کا امیر مقرر کر دیا تھا؟ کیا آج پاکستان کے حالات اس سے بھی زیادی نازک اور خطرناک ہیں؟

ہم تو دعا کرتے ہیں کہ کپتان کا یہ فیصلہ ملک و قوم کے لیے مفید ثابت ہو اور سرحدپار مودی کی ٹانگیں اس فیصلے سے کانپنے لگیں اور وہ پکے ہوئے پھل کی طرح کشمیر کو ہماری جھولی میں ڈال دے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس بار کپتان صاحب نے یو ٹرن نہیں بلکہ اباٶٹ ٹرن لے اپنے ماضی قریب کے دعووں اور وعدوں کی قلعی ایک بار پھر کھول دی۔ معلوم نہیں آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے انہوں نے جو بیسیوں انٹریوز دیے ہیں ان کے چاہنے والے ان کا دفاع کیسے کریں گے؟ فی الحال تو وہ اس طرح جشن منا رہے ہیں جیسے توسیع جنرل باجوہ کو نہیں نہیں وزیر اعظم عمران خان کو ملی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).