مسلم امہ: بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں


مسلم امہ نامی جنس کے بارے میں لڑکپن میں جب سنا تو کانوں کو بڑا بھلا لگا کہ پچاس سے زائد مسلمان ممالک کا ایک بلاک ہر کلمہ گو پر ٹوٹنے والی کسی افتاد پر یک زبان و یک جان ہو کر دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ “ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے، نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر” شعر سن کر جسم و جاں میں سنسنی کی لہر دوڑ جایا کرتی تھی۔ اسکول کے دنوں میں اس شعر کو جب ماسٹر جی پڑھا کرتے تھے تو ایک عجیب سی “روحانی کیفیت” طاری ہو جاتی تھی اور تصور میں سربکف مجاہد عرب و عجم سے خاک اڑاتے سرپٹ گھوڑوں پر سوار نظر آتے۔

گاؤں کی مسجد کا مولوی بھی جب رقت آمیز لہجے میں خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگتا تو اس میں بھی مسلم امہ کا حوالہ بار بار آتا۔ ان دنوں افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں روس کی ہزیمت کا غلغلہ تھا تو مسلم امہ نامی شے کا تذکرہ بھی بار بار سننے اور پڑھنے کو ملتا تھا۔ یہاں ایک جملہ معترضہ کے طور پر ہی سہی لیکن عرض کر دوں کہ جب حقیقت کھلی تو پتا چلا کہ روس کی شکست میں مسلم امہ سے زیادہ امریکہ کے عزائم اور ڈالروں کو دخل تھا۔ جب مسلم امہ کے بارے میں کریدتے تو ہمارے ایک کالج کے پروفیسر ہمیں ایک شعر سنا کر سمجھایا کرتے تھے۔ “خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر ، سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے”. استاد ذی وقار کے بقول مسلم امہ ایک جسد واحد کی طرح ہے جس کے ایک حصے میں تکلیف سے پورا جسم ہلکان ہو جاتا ہے۔

رسالوں، اخبارات، کیسٹوں سے ہوتا ہوا مسلم امہ کا تصور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں سی ڈی سے ہوتا ہوا سوشل میڈیا پر منتقل ہوا تو ہمارے ذہن بھی نئے نئے سوالات کی گرہیں کھولنے لگا۔ زمینی حقائق نے مسلم امہ کے خوشنما تصور میں دراڑیں ڈالنا شروع کر دیں۔ لڑکپن اور نوجوانی میں مسلم امہ کے جس تصور سے ذہن و قلب سرشار تھے وہ دھوپ میں پڑی برف کی طرح پگھلنے لگا۔ ذہن کا زمینی حقائق سے ٹاکرا ہوا تو یہ عقدہ کھلا کہ یہ ایک سراب سائے کا لاحاصل سفر تھا جس میں فقط پاؤں تھکتے ہیں اور ہاتھ کچھ نہیں آتا۔

مسلم امہ کے تصور کا بت اس وقت بھی زمین بوس ہوا جب پتا چلا کہ عرب و عجم میں تو مسلم ممالک ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا تو دور کی بات ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے بھی روادار نہیں۔ پاکستان میں ایک پوری نسل کو امت مسلمہ کے سحر میں مبتلا کیا گیا جس میں ہمارے مذہبی طبقے کے ساتھ ساتھ حکومتوں نے بھی مقدور بھر حصہ ڈالا۔ ان حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے لیے اس تصور کو پروان چڑھا کر ملک کے عوام کو خواہ مخواہ توقعات کے اس اونچے مینار پر چڑھا دیا کہ جہاں آخر کار انہیں چھلانگ لگا کر نیچے آنا پڑا۔

اس تصور کا بھانڈا اس وقت پھوٹا جب معلوم پڑا کہ دنیا میں ممالک کے درمیان تعلقات کا محرک مذہب سے زیادہ تجارتی مفادات اور مالی منفعت ہوتی ہے۔ امریکہ اگر سعودی عرب پر مہربان ہے تو اس میں امریکہ اور سعودی عرب کے باہمی مفادات پنہاں ہیں وگرنہ امریکہ سے زیادہ ایران سعودی عرب کے قریب ہوتا۔ پاکستان ہی کی مثال لے لیں۔ پاکستان کی چین سے حد درجہ زیادہ قربت ہے حالانکہ عقیدے میں دونوں ممالک بعد المشرقین ہیں۔ ایران اور پاکستان کلمہ گو ممالک ہیں لیکن ایران کی قربت ہندوستان سے حد درجہ زیادہ ہے جب کہ پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہتے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں حالیہ بھارتی اقدامات نے جس آتش کو بھڑکایا ہے اس کے بعد تو مسلم امہ کا تصور مکمل طور پر تحلیل ہو چکا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا شکریہ کہ انہوں نے حقیقت کا برملا اظہار کر دیا اور قوم کو آگاہ کر دیا کہ مسلم امہ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑنا بے سود ہے۔ وزیر خارجہ کے مطابق مسلم امہ کے کاروباری مفادات بھارت سے جڑے ہیں۔ وزیر خارجہ کا یہ بیان حقیقت کا آئینہ دار ہے اور اس قوم کو بھی اس تصور سے سحر سے باہر نکلنا چاہیے کہ مسلم امہ نام کا کوئی بلاک پاکستان کے مفادات کے لیے اس کے ہمرکاب ہو گا۔

دنیا میں ممالک کے باہمی تعلقات معاشی محرکات کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں ، یہاں مذہبی تصورات ایک ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اول تو مسلم امہ کا تصور ہی ایک خام خیال ہے اور پچاس سے زائد مسلمان اکثریت پر مشتمل ممالک، جنہیں مسلم امہ کہا جاتا ہے۔ ان کی علم، معیشت اور جمہوری آزادیوں کے حوالے سے مخدوش حالت پر ٹھٹھے اڑائے جاتے ہیں۔ ان ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی” اوہ، آئی سی” کہہ کر بھد اڑائی جاتی ہے۔ پچاس کی دہائی میں میں جب مسلم بلاک کی تشکیل کے لیے آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں تو ان دنوں پاکستان میں وزرات عظمیٰ کا تاج حسین شہید سہروردی کے سر پر دھرا تھا۔ سہروردی صاحب اپنی رائے کے اظہار میں سودو زیاں سے بالاتر تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے ایس ایم ہال میں خطاب کرتے ہوئے کسی نے ان سے مسلم بلاک کی تشکیل کے بارے میں استفسار کیا۔ سہروردی صاحب نے جواب دینے میں ذرا سا توقف کیا تو پھر گویا ہوئے،” اپ بہت سارے صفروں جو جمع کر لیں یا انہیں ضرب دے دیں۔ اس کا نتیجہ لازمی صفر ہی نکلے گا”. حسین شہید سہروردی کے اس جملے نے پوری حقیقت کو عیاں کردیا اور بعد میں ظہورِ پذیر ہونے والے واقعات نے بھی ان مسلم ممالک کی اجتماعی حیثیت اور دنیا میں ان کے قوت و اختیار کو ثابت کر دیا۔

ہم نے حسین شہید سہروردی جیسوں کی حقیقت پسندی پر کان دھرنے کی بجائے اپنے گھوڑے صحرائے عالم میں مسلم امہ کے سراب کے تعاقب میں دوڑا دیے۔ اب ساٹھ برس بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کسی مسلم امہ کی مدد و نصرت کی عدم موجودگی کے بارے میں قوم کو آگاہ کرتے ہیں تو لازمی ہے کہ تصورات کا شیش محل کرچی کرچی ہونے پر دل میں درد و رنج کی ٹیسییں اٹھیں لیکن “دیر آید درست آید“.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).