راولپنڈی ریپ کیس: متعدد لڑکیوں کے ریپ میں ملوث ملزم جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں


خاتون

راولپنڈی کی مقامی عدالت نے لڑکیوں کو مبینہ طور جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے اور ان کی قابل اعتراض ویڈیو بنانے کے الزام میں گرفتار ہونے والے ملزم قاسم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔

اس مقدے کے تفتیشی افسر کی درخواست پر عدالت نے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا ہے۔

اس مقدمے کی شریک ملزمہ اور ملزم قاسم کی بیوی کرن پہلے ہی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں۔

پنجاب پولیس کے سربراہ عارف نواز نے اس معاملے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے۔

ایس ایس پی انوسٹیگیشن محمد فیصل کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو اس بارے میں تحقیقات کرے گی۔

مزید پڑھیے

45 لڑکیوں کے ریپ میں ملوث جوڑا گرفتار: پولیس کا دعویٰ

بیٹی کا باپ پر ریپ کا الزام

اس تفتیشی ٹیم کے سربراہ محمد فیصل نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم قاسم اور اس کی بیوی کرن سے ابتدائی تحقیقات مکمل کر لی گئی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ملزم کے کمپیوٹر اور موبائل فون کے ریکارڈ سے جو مواد ملا ہے اس کے مطابق10 لڑکیوں کو نہ صرف جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ قابل اعتراض حالت میں ان کے ویڈیو بھی بنائیں گئیں اور تصاویر کھینچی گئیں۔

اس سے پہلے راولپنڈی پولیس کی طرف سے یہ دعوی کیا گیا تھا کہ ملزم کے ریکارڈ سے جو ریکارڈ ملا ہے اس میں45 لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

تفتیشی ٹیم کے انچارج کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا اور اگر تھانے کے حد تک کسی نے میڈیا کو ایسا کوئی بیان دیا ہے تو اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں گی۔

ایس ایس پی محمد فیصل کے مطابق جو ریکارڈ پولیس نے ملزم کے قبضے سے حاصل کیا ہے اس میں10 لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان متاثرہ لڑکیوں کی تین مختلف انداز میں ویڈیو بنائی گئی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکیوں میں یونیورسٹیز کی طالبات بھی شامل ہیں۔

تفتیشی ٹیم کے سربراہ کے مطابق ملزمان میاں بیوی کے خلاف جس لڑکی نے مقدمہ درج کروایا ہے وہ خود اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کی طالبہ ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ملزم نے دوران تفتیش ان چند لڑکیوں کے ایڈریس اور رابطہ نمبر بھی بتائے ہیں جنہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

محمد فیصل کے مطابق ملزم کے کمپیوٹر سے دو فولڈرز برآمد ہوئے ہیں جن میں متاثرہ لڑکیوں کی 500 سے زائد برہنہ تصاویر شامل ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ تفتیشی ٹیم ان لڑکیوں کے ساتھ رابطے کرے گی اور اگر ضرورت ہوئی تو ان کے بیانات قلمبند کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو شامل تفتیش بھی کیا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں ایس ایس پی انوسٹیگیشن کا کہنا تھا کہ ابھی تو صرف اس معاملے میں ایک مقدمہ درج ہوا ہے اور اگر کوئی اور متاثرہ لڑکی سامنے نہ آئی تو سرکار کی مدعیت میں ملزم کے خلاف مزید مقدمات درج کیے جائیں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ ملزمان کے خلاف درج ہونے والے مقدمے کی مدعیہ ملزم کو معاف بھی کردیتی ہے تو ریاست عدالت میں اس تصفیے کی مخالفت کرے گی۔

ایس ایس پی محمد فیصل نے الزام عائید کیا کہ ملزمہ کرن بھی اپنے خاوند کے نقش قدم پر چلتی تھی اور وہ بہت سے لڑکوں کو گھر میں لیکر آتی تھی تاہم پولیس کے بقول اُنھیں ملزمہ کی ایسی کوئی ویڈیو نہیں ملی۔

ملزم قاسم کے بارے میں تفتیشی ٹیم کے سربراہ نے بتایا کہ وہ راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کا رہائشی ہے اور اس نے راولپنڈی کے علاقے گلستان کالونی میں گھر کرائے پر لیا ہوا تھا جبکہ وہ خود کافی عرصے سے بےروز گار تھا۔

ایس ایس پی کے بقول ان دونوں ملزمان کا گزر بسر ایسے ہی غیر قانونی کاموں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ہوتا تھا۔

اُنھوں نے بتایا کہ ملزم قاسم نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے تاریخ کے شعبے میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔

ایک سوال پر کہ کیا ملزم کے کیسی بین الاقوامی گروہ کے ساتھ بھی تعلق رہا ہے، محمد فیصل کا کہنا تھا کہ اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس معاملے کی چھان بین کے لیے ایف آئی اے سائبرکرائم ونگ کی خدمات بھی حاصل کی جارہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp