جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع اور پاکستان کو درپیش چیلنجز


تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے پارلیمانی سال کی تکمیل کے پہلے ہی دن وزیرِ اعظم عمران خان کا اہم ترین فیصلہ سامنے آ گیا۔خطے کی غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر ملک کے نازک ترین دور کا اہم ترین فیصلہ۔۔۔ بہر حال جمہوریت اور ملک کے وسیع ترین مفاد میں یہ فیصلہ جتنی جلدی ہو جاتا اچھا تھا سو یہ ہو گیا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ ایسے وقت میں پاک فوج کی کمان ایک مرتبہ پھر سنبھال رہے ہیں جب ملک کو گھمبیر اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش ہیں۔

علاقائی سلامتی اور خطے میں امن کی ذمہ داری پاکستان کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا امریکی صدارتی انتخابات سے جوڑا جا رہا ہے۔

حالیہ امریکی دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے غیر روایتی طور پر پاکستان کو ’ڈو مور‘ کا کہہ کر روایتی توقعات میں باندھ دیا ہے۔ افغانستان کے امن کے لیے پاکستان کے کردار کو کُلی حیثیت دی گئی ہے۔

اُدھر دو اہم برادر ممالک طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کامیابی کا خراج لینا چاہتے ہیں، ریاض اور دوحا کا دباؤ اپنی جگہ اہم اور چین اور روس اپنے طور پر پُر امید۔۔۔ ایک ننھی جان اور کئی امتحان۔۔۔

پاکستان اپنے اور خطے کے امن کے لیے اپنا کردار ماضی کی نسبت مخلصانہ طور پر ادا کر رہا ہے جب کہ اس ضمن میں افغانستان کے ساتھ اعتماد کی فضا بہتر بنانے میں جنرل باجوہ کو کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہو گی۔

صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کا آئندہ چند ماہ میں آغاز ہو جائے گا اور اس بار امریکہ طویل ترین جنگ سے نکلنے کا اعلان کر کے امریکی عوام کا دل جیتنا چاہتا ہے اسی لیے اُسے گھی سیدھی انگلیوں سے نکالنا پڑے یا ٹیڑھی۔۔۔ انہیں فقط مثبت نتیجے سے مطلب ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔

افغانستان کے مسئلے پر پاکستان کے پاس ڈلیور کرنے کے سوا کوئی چارا بھی نہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان مکمل طور پر ڈیلیور کر بھی سکتا ہے یا نہیں؟

دوسری جانب پاکستان گھمبیر علاقائی مسائل میں الجھ چکا ہے۔ افغانستان میں مثبت کردار کے باوجود امریکہ بہادر کشمیر میں دم سادھے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔

امریکہ انڈیا کا ساتھی ہے یا نہیں تاہم اس کی خاموشی معنی خیز ضرور ہے۔ یوں سمجھیے کہ ہماری شہ رگ پر ہاتھ رکھ کر ہم پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔۔۔

ایک عالمی تانا بانا ہے اور اُس تانے بانے میں ہم بُنے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے ادارے اس صورت حال سے نکلنا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے کس قدر ماحول تناؤ کا شکار ہوتا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے۔

دوسرا اہم چیلنج معاشی اور سیاسی بحران ہے۔ ملک نے گذشتہ ایک سال میں ریکارڈ اندرونی اور بیرونی قرضے لے رکھے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے لاکھ جتن کریں پھر بھی پیا من نہیں بھاتے۔

گذشتہ ایک سال میں سات ہزار ارب روپے کے ریکارڈ قرضے، ڈالر کی اونچی اڑان اور ریکارڈ مہنگائی کا سامنا ہے۔ عوام کی کمر ٹوٹ چکی ہے جبکہ مزید اعشاریے گرنے کی شنید ہے۔

ایف اے ٹی ایف کی دن بدن بڑھتی شرائط اپنی جگہ ڈو مور کا راگ الاپ رہی ہیں، ملک ایسے بیرونی شکنجے میں ہے جو اب سے پہلے کبھی نہ تھا۔

مغربی سرحد میں امن کی شرط پر مشرقی سرحد کو محاذ جنگ بنانے کی تیاریاں اور کمزرور معیشت ریاست کے لئے اہم چیلنج بن چکے ہیں۔

سیاسی راہنما بدعنوانی کے الزام میں اندر ہیں اور جو بظاہر آزاد ہیں اُن کے ہاتھ مصلحتوں نے باندھ رکھے ہیں۔ بے دلی سے مولانا کی کل جماعتی کانفرنسوں میں شریک راہنما عوام کے مسائل کے لئے حتمی جنگ کا اعلان کب کریں گے اس کی امید نہیں تاہم عوام اور سیاسی جماعتوں کی بڑھتی بے چینی اہم چیلنج ضرور بن سکتی ہے۔

سو ایسے میں نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی صورت سوائے ریاست کے ایک متحد بیانیے کی تشکیل کے کوئی اور چارہ نہیں۔

البتہ احتساب کی اس کشمکش میں کپتان کی خواہشیں آڑے آئیں گی یا سیاسی راہنماؤں سے مفاہمت کا آغاز ہو گا۔۔۔ دیکھیے اور انتظار کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).