پیدائش مخالف نظریات: لوگ آپ کو بچے پیدا کرنے سے کیوں روکنا چاہتے ہیں؟


بچوں کی پیدائش کی مخالفت

‘کیا صرف یہ بہتر نہیں ہو گا کہ دنیا کے کسی کونے میں ایک بڑا سوراخ کر دیا جائے اور یہ سب ختم کر دیا جائے؟‘

دنیا میں کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ بچے پیدا کرنا بند کریں۔ یہ لوگ کون ہیں؟ اور اپنے خیالات دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے اتنے کوشاں کیوں ہیں؟

کیا صرف یہ بہتر نہیں ہو گا کہ دنیا کے کسی کونے میں ایک بڑا سوراخ کر دیا جائے اور یہ سب ختم کر دیا جائے؟

29 سالہ ٹومس انگلینڈ کے مشرقی حصے میں رہتے ہیں۔ اگرچہ دنیا کو ختم کرنے کا خیال ان کی ذہنی اختراع ہے لیکن ایک چیز کے بارے میں ان کا کامل یقین ہے اور وہ یہ کہ انسانوں کو بچے پیدا نہیں کرنے چاہیں اور ہماری نسل کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔

اس فلسفے کو انٹی نیٹلیزم یا جنم کی مخالفت کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کوئی نیا خیال نہیں بلکہ اس کا آغاز تاریخ میں قدیم یونان سے ہوا۔ لیکن اسے حالیہ کچھ عرصے میں سوشل میڈیا کے ذریعے بہت فروغ ملا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مالی فائدے کے لیے 26 فرضی بچے

دنیا کو تباہی سے بچانے کا آخری موقع

’مجھے کیوں پیدا کیا، والدین کو عدالت لےجانےکا اعلان

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور ریڈٹ پر درجنوں ایسے گروپ ہیں جو پیدائش کی مخالفت کرتے ہیں اور ان گروپس کے ہزاروں ممبر بھی ہیں۔ ریڈٹ پر ایسے ہی ایک گروپ کے 35 ہزار ممبر ہیں جبکہ ایسے ہی ایک فیس بک گروپ کے چھ ہزار ممبر ہیں۔

ایسے لوگ دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنے خیالات کے جواز میں مختلف وجوہات پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ وجوہات جینیائی میراث، اگلی نسل کے بچوں کو مشکل میں نہ ڈالنے کا خیال، اجازت کا تصور، بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی خطرات سے پیدا ہونے والی پریشانیاں ہیں۔

لیکن یہ لوگ انسان کے نسلی تسلسل کو روکنے کے لیے اکٹھے ہیں۔ انوکھی تحریک ہونے کے باوجود ان کے کچھ خیالات، خاص کر زمین کی موجودہ صورتحال پر تشویش، عام گفتگو کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔

پیدائش مخالف نہ ہونے کے باوجود برطانیہ کے شہزادہ ہیری نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ ماحولیاتی مسائل کے پیشِ نظر وہ اور ان کی اہلیہ زیادہ سے زیادہ دو بچے پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

بچوں کی پیدائش

پیدائش مخالف لوگ جینیائی میراث، اگلی نسل کے بچوں کو مشکل میں نہ ڈالنے کا خیال، اجازت کا تصور، بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی خطرات کو اپنے نظریات کے پرچار کی وجوہات بتاتے ہیں

فلسفیانہ گفتگو

ٹومس نے جنم مخالف ہونے کا تصور پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ انھیں یہ تب معلوم ہوا جب کچھ برس قبل یوٹیوب پر کچھ کمنٹس ان کے خیالات کی عکاسی کر رہے تھے۔ تب سے وہ فیس بک کے ایک پیدائش مخالف گروپ کے لیڈ ممبر ہیں۔ اس گروپ سے ملنے والی معلومات انھیں بڑھاوا دیتی ہے اور اس سے وہ اپنی مباحثے کی صلاحیت کا معائنہ کر سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ بہترین عمل ہے۔ آپ زندگی کے اصل مسائل پر بات کرتے ہیں۔

جیسے اگر آپ کا ایک خیال ہے کہ انسانوں کی نسل ختم ہو سکتی ہے۔ لیکن کیا ہو اگر ارتقائی عمل سے انسان لوٹ آئیں؟ اس کا مطلب آپ مسئلے کا حل نہیں نکال پائے۔

’یہاں بہت سی باتوں پر گفتگو ہوتی ہے اور کچھ باتیں بہت حساس ہوتی ہیں۔‘

لیکن بچوں کی پیدائش کی مخالفت ان کے لیے محض نظریاتی نہیں۔ ٹومس کو لگتا ہے کہ دنیا پر انسانی زندگی کا کوئی مقصد نہیں۔ اس لیے انھوں نے برطانیہ میں صحت عامہ کے ادارے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) سے نس بندی کروانے کی کوشش بھی کی ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔

این ایچ ایس کے ڈاکٹر ایسے کسی بھی نس بندی کے آپریشن سے انکار کر سکتے ہیں اگر انھیں لگے کہ یہ مریض کے حق میں بہتر نہیں۔

لال نٹن

این ایچ ایس کے ڈاکٹر ایسے کسی بھی نس بندی کے آپریشن سے انکار کر سکتے ہیں اگر انھیں لگے کہ یہ مریض کے حق میں بہتر نہیں

رضامندی اور تشدد کے مخالف

جنم مخالف گروہوں میں بعض لوگ اِشتعال انگیز بیان بازی کرتے ہیں مگر اس سے یہ خدشہ نہیں کہ وہ خطرناک ہیں۔ جب وہ معدومیت کی بات کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ مباحثے کی مشق ہے۔ ان کی آن لائن کمیونٹی میں کوئی قتل یا تشدد کی دھمکی نہیں دیتا۔

ٹومس سوچتے ہیں کہ اگر ایک لال بٹن سے انسانی زندگی ختم ہو سکتی تو وہ اسے فوراً دبا دیں گے۔ لیکن ٹومس کا زمین میں ایک سوراخ کر کے سب ختم کر دینے کا خیال متنازع ہے۔ یہ اس لیے کہ جنم مخالف تحریک کا ایک اہم اصول انفرادی رضامندی ہے۔

آسان لفظوں میں اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں پیدائش اور تباہی برپا کرنے کے لیے ہر اس انسان کی اجازت چاہیے ہو گی جو پیدا ہو گا یا مرے گا۔

کرک امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر سین اینٹونیو کے رہائشی ہیں۔ انھیں یاد ہے جب انھوں نے چار سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ ایک بات کی تھی۔ ان کی والدہ نے انھیں کہا تھا کہ بچے پیدا کرنا ہی کسی کی اپنی مرضی اور انتخاب ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ اپنی مرضی سے کسی کو دنیا میں لانا جس کی پیدائش سے قبل اپنی کوئی ضرورت نہیں اور پیدائش کے بعد اسے دنیا میں مشکلات کا سامنے کرنے اور مرنے کے لیے چھوڑ دینا۔‘

کرک کہتے ہیں کہ وہ کم عمری میں ہی جنم مخالف بن گئے تھے۔ وہ انسانی زندگی کی پیدائش کے خلاف ہیں کیونکہ کسی سے کبھی واضح طور پر یہ پوچھا نہیں گیا تھا کہ آیا وہ اس دنیا میں آنا چاہتے ہیں۔

مزید سمجھانے کے لیے وہ کہتے ہیں اگر سب سے ان کی مرضی لی گئی ہوتی کہ وہ زندگی کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔

اس کی بنیاد رضامندی یا اس کے فقدان پر ہے۔

اس خیال کا الٹ بھی کارگر ہے۔ سب کو لال رنگ کے بٹن سے ختم کر دینے کے خیال میں مسئلہ اس بات کا ہے کہ دنیا میں کئی لوگ اپنی زندگیاں خوشی سے گزار رہے ہیں۔ اور شاید سب اس بات سے متفق نہیں ہوں گے کہ انسانی زندگی کو ختم کر دیا جائے۔

اس سے برعکس کرک اور ان کے جنم مخالف ساتھی چاہتے ہیں کہ لوگ خود بچوں کی پیدائش روک دیں اور ان کا ساتھ دیں۔

ذہنی صحت مسائل

پیدائش مخالف لوگ اپنے نظریات میں متشدد نہیں بلکہ وہ یہ سب باہمی رضامندی سے کرنا چاہتے ہیں

ذہنی صحت سے منسلک مسائل

جنم مخالف گروہوں میں ایک اور منفرد موضوع بھی ہے جو سب میں قدر مشترک ہے۔ لوگ ذہنی صحت سے متعلق اپنے تجربات کے پوسٹر شیئر کرتے ہیں اور کبھی کبھار ان لوگوں پر تنقید کرتے ہیں جنھیں بچوں کی پیدائش کی وجہ سے ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔

ایک صارف نے اپنی پوسٹ میں ایک اور صارف کی پوسٹ کا سکرین شاٹ یا تصویر لگائی ہوئی تھی جس میں لکھا تھا کہ مجھے بائی پولر اور جنرلائزڈ انزائٹی کے علاوہ بارڈر لائن پرسنیلٹی ڈِس آوڈر کا سامنا ہے۔

پوسٹ میں جنم مخالف صارف نے لکھا ہوا تھا کہ اس صارف کے دو بچے ہیں۔ مجھے ان بچوں پر ترس آ رہا ہے۔

ایک اور گروپ کے ایک کمنٹ سے واضح تھا کہ کوئی خود کشی کرنے پر غور کر رہا تھا۔

ٹومس کہتے ہیں مجھے شیزوفرینیا اور ذہنی دباؤ ہے۔

میرے خاندان میں کئی لوگوں کو ڈپریشن یا ذہنی دباؤ رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر میرے بچے ہوں گے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ انھیں ڈپریشن کا سامنا رہے گا اور انھیں اپنی زندگی پسند نہیں آئے گی۔

لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ باہر والے اکثر اس مہم سے منسلک لوگوں کو غلط سمجھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں لوگ ہمیں پاگل ذہنی مریض کہنے لگ جاتے ہیں۔ سچائی اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

بڑھتی آبادی

‘اس صارف کے دو بچے ہیں۔ مجھے ان بچوں پر ترس آ رہا ہے’

دنیا کا بچاؤ؟

گذشتہ چند برسوں کے دوران جنم مخالفت کا بیانیہ ماحولیاتی تبدیلی کے ممکنہ تباہ کن اثرات پر منحصر رہا ہے۔

بچوں کی پیدائش کے خلاف سوشل میڈیا کے گروپ میں پوسٹوں سے واضح تاثر ملتا ہے کہ ان کے خیالات ماحولیاتی تبدیلی پر آواز اٹھانے والے کارکنان سے ملتے جلتے ہیں۔

نینسی، جو فلپائن میں یوگا سیکھاتی ہیں، کٹر سبزی خور ہیں اور جانوروں کے حقوق کے ساتھ ساتھ پلاسٹک کے استعمال کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ اس دور میں بچے پیدا کرنا خود غرضی ہو گی۔

یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں اب پیدا ہونے والے بچے ماحول کے لیے تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔

انتہائی ناراض جنم مخالف نامی ایک فیس بک گروپ میں ایک درخواست شیئر کی جارہی ہے جو وہ اقوامِ متحدہ میں بھیجنے کے لیے پرامید ہیں۔ اس کا عنوان ہے بڑھتی آبادی ماحولیاتی تباہی کی بنیاد ہے، دنیا بھر میں بچوں کی پیدائش کو فوراً روکا جائے۔

اب تک اس درخواست پر 27 ہزار افراد دستخط کر چکے ہیں۔

بچے پیدا نہ کر کے ماحول کو فائدہ پہنچانے کا تصور نیا نہیں۔ برطانیہ میں پاپولیشن میٹرز نامی ایک امدادی ادارہ یہ تجویز کئی سال سے پیش کر رہا ہے۔ لیکن یہ لوگ جنم مخالف نہیں ہیں بلکہ وہ انسانی نسل کی معدومیت کے بجائے اس کی بہتری اور استحکام کے حق میں ہیں۔

اس گروہ کے ڈائریکٹر روبن مینرڈ کے مطابق ہمارا مقصد انسانی نسل اور اس دنیا، جس میں ہم رہ نہیں سکتے، کے بیچ ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ اگر دنیا بھر میں کم بچے اور چھوٹے کنبے ہوں گے تو ہم آبادی میں استحکام پیدا کر سکیں گے۔

لیکن کیا بڑھتی آبادی سے یقینی طور پر اور براہ راست ماحول تباہ ہو گا؟ بی بی سی میں عالمی آبادی کی نامہ نگار سٹیفنی ہیگارڈی کہتی ہیں کہ یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ مستقبل کی پیشگوئی کرنا آسان نہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ سائنس پر مبنی اندازوں کے مطابق ’اقتصادی ترقی اور گھٹتی زرخیزی کی شرح کے پیشِ نظر اگلے 80 برسوں میں عالمی آبادی 11 ارب ہو جائے گی۔

ہمیں نہیں معلوم ہماری دنیا اسے برداشت کر پائے گی۔

وہ مزید کہتی ہیں یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ دنیا کتنے لوگوں کو برداشت کر سکتی ہے کیونکہ بات کھپت کی ہے۔ اس میں ہوا، پانی، خوراک، حیاتیاتی ایندھن، لکڑی، پلاسٹک اور باقی سب آ جاتا ہے۔ اور یہ ایک لمبی فہرست ہے۔

واضح ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگوں کی کھپت زیادہ ہے۔ برونڈی جیسے ملک میں 12 لوگوں کے کنبے کی کھپت ٹیکساس میں تین لوگوں کے کنبے کے مقابلے میں اوسطاً کم ہو گی۔

اگلی ایک دہائی میں بہت سے عناصر تبدیل ہوں گے اور ہم اگلی صدی کی پیشگوئی بھی نہیں کر سکتے۔

تنقید اور توہین

ان فلسفیانہ اور اخلاقی مباحثوں کے بیچ کچھ سیاہ اور کم ادبی باتیں بھی ہوتی ہیں۔

کچھ لوگ معمول کی بنیاد پر والدین پر تنقید کرتے ہیں، اور انھیں بچے پیدا کرنے والی مشین کہتے ہیں۔ بعض توہین آمیز پیغامات بچوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

ایک صارف کے مطابق جب بھی میں کسی حاملہ عورت کو دیکھتا ہوں تو مجھے گھن آتی ہے۔ مجھے امید سے ہونے کی حالت سے نفرت ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے بتایا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام جنم مخالف لوگ بچوں سے نفرت کرتے ہیں۔

نیسنی کہتی ہیں مجھے ذاتی طور پر بچے پسند ہیں۔ یہ بات ایسی ہے کہ مجھے بچے پسند ہیں لیکن میں انھیں مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتی۔

شاید انھیں دنیا میں لانے سے اچھا لگے لیکن اس کا ممکنہ خطرہ اتنا زیادہ ہے کہ یہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

لیکن یہ محض تنقید نہیں۔ کچھ جنم مخالف گروہوں میں لوگ کہتے ہیں کہ جنگ زدہ علاقوں میں بچے پیدا نہیں ہونے چاہیں کیونکہ ان کے معذور ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ کم آمدنی والے والدین کے بھی بچے نہیں ہونے چاہیں۔

کبھی کبھار یہ بیان بازی چنندہ نسلوں کی افزائش یا یوجینکس کے تصور جیسا لگتا ہے۔

بچوں کی پیدائش

اقوام متحدہ کو بھیجی جانے والی ایک درخواست پر اب تک 27 ہزار افراد دستخط کر چکے ہیں

ایسے خیالات پر جن جنم مخالف لوگوں سے ہم نے بات کی تو اس پر ان کی مختلف آرا تھیں۔

ٹومس سے جب پوچھا گیا کہ جنگ زدہ علاقوں میں بچوں کی پیدائش پر ان کے کیا خیالات ہیں تو انھوں نے جواب میں کہا کہ بچے پیدا کرنے کا مقصد ہی کیا ہے؟

ایسے ملک میں امید بھی کم ہوتی ہے کہ حالات بدل جائیں گی۔

وہ کم آمندنی والے گھروں میں بچوں کی پیدائش کے خیال سے زیادہ مطمئن ہیں۔

ظاہر ہے میں بچے پیدا کرنے کے خلاف ہوں۔۔۔ لیکن میرا خیال ہے کہ آپ اس طرح کم آمدنی والے علاقے میں خوش رہ سکتے ہیں۔

نینسی کہتی ہیں میرے مطابق بچوں کی پیدائش کی مخالفت سب کے لیے برابر ہونی چاہیے۔

وہ یوجینکس یا نسلوں کی اصلاح کے طریقے کے خلاف ہیں۔ ہم چند گروہوں کا انتخاب صرف اس لیے کیوں کر رہے ہیں کہ وہ مشکل میں ہیں۔

تو کیا زندگی گزارنے کے لیے جنم مخالف لوگ کوئی سادہ فلسفہ رکھتے ہیں؟

کرک کہتے ہیں آپ وہ کریں جو آپ بہترین انداز میں کر سکتے ہیں۔‘

اچھا برتاؤ کریں اور بچے پیدا نہ کریں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp