زندگی مہر گڑھ میں ہے!


”زندگی کسی اور جگہ ہے“ میلان کانڈیرا کو وہ ”اور“ جگہ ملی یا نہیں، مگر میں وثوق سے کہتا ہوں کے فی الحال وہ ”اور“ جگہ صرف مہر گڑھ اسلام آباد ہی ہو سکتی ہے۔ ویسے تو مہر گڑھ بلوچستان میں واقع نو ہزار سال پرانی تہذیب کا نام ہے۔ اس تہذیب کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے ڈاکٹر کامران احمد، فوزیہ سعید، ملیحہ حسین اور تہذیب و ورثے سے پیار کرنے والے کچھ دیوانوں نے تقریباً 2000 ع میں مہر گڑھ کے نام سے ایک تربیتی ادارے کی بنیاد رکھی۔

اس ملک میں ذہنی معذور پیدا کرنے والوں کی تو کوئی کمی نہیں۔ یہ کام تو وطن، وطن کی سلامتی، دین، دین کی سلامتی اور برائے ثواب ملک میں سرکاری و نجی اسکولوں اور جامعات میں وافر مقدار سے بھی کہیں زیادہ ہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا معاشرہ ایک چلتی پھرتی لال مسجد بنا ہوا ہے۔ مہر گڑھ والے یے دو چار دیوانے ملک کی ہر گلی اور کوچہ کو دستور گلی بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کے گلشن میں نئے پھول لگانے کے لیے یہ دیوانے خاموشی سے کام کر رہے ہیں۔

آج ہماری ریاست جیسی ہے اس کو ایسا کس نے، کیسے اور کیوں بنایا؟ یہ ریاست ماں جیسی تو کیا کسی بیوہ جیسی ہی کیوں نہیں بنتی؟ ملک میں ثقافتی گھٹن کیسے پیدا ہوئی؟ اس خطے کی امن، رواداری اور برداشت کی مثبت روایت کا سرکاری نصاب اور تقریبات میں حوالہ کیوں کم ملتا ہے؟ اس طرح کے یا اس سے ملتے جلتے بہت سارے سوالات مہر گڑھ کے تربیتی کورسز کا حصہ ہوتے ہیں۔ رواں ماہ ملک کی نوجوان قیادت کے لیے منعقد کیے گئے 9 دن کے ایک کورس میں راقم بھی شریک رہا ہے۔ مہر گڑھ ایک آشرم نما جگہ ہے۔ ٹیگور کے شانتی نکیتن، احمد آباد میں گاندھی کے آشرم یا پونا میں اوشو کے آشرم جیسی جگہ۔ مہر گڑھ میں منائی گئی ثقافتی شام تو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔

ملک میں جو بھِی تنگ نظری ہے اس کو فروغ دینے اور لوگوں کو زندگی سے دور رکھنے والے بنیاد پرست جنگجو جہاں اپنے کام میں دن رات بغیر کسی وقفے سے مصروف ہیں۔ وہیں آئی اے رحمان، رضا ربانی اور عاصمہ جہانگیر جیسے سپاہ سالاروں کی یہ چھوٹی سی فوج بھی وقفے وقفے سے اپنے کام میں مصروف ہے۔ جینے کا حق کیا ہوتا ہے، بولنے اور رونے کے سیاسی، ثقافتی و سماجی کون سے بہتر طریقہ ہیں جو اپنا کر پرامن طریقے سے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

عورت کو ہراساں کرنے کی کیا کہانی ہے؟ عورت کو کام کاج کی جگہ کیسے ہراساں کیا جاتا ہے؟ اب اس ہراسمینٹ کو روکنے کے لئے جو قانون موجود ہے وہ ملک کے سرکاری و نجی اداروں میں کیسے لاگو ہوگا؟ یے سب کچھ 9 دن میں سندھ، بلوچستان، خیبر پختون خواہ، پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر سے شرکت کرنے والے تقریباً 30 لڑکوں اور لڑکیوں کو ڈاکٹر خادم حسین، ڈاکٹر فوزیہ سعید، محمد عامر رانا، ڈاکٹر کامران احمد اور تربیتی کورس کی اختتامی تقریب میں اعتزاز احسن اور آئی اے رحمان نے اپنے لیکچرز میں سکھایا۔ اس تربیتی کورس نے ہمیں جینے، سوچنے، پڑھنے اور بولنے لکھنے کے نئے زاویے عطا کیے۔ مہر گڑھ کی یہ سیکھنے اور سکھانے کی روایت زندہ رہنی چاہیے۔ مکالمہ ہی زندگی کی علامت ہے۔

اشفاق لغاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اشفاق لغاری

لکھاری، میڈیا سائنسز کا طالب علم ہے۔ پڑھنا، لکھنا، گھومنا اور سیاحت کرنا اس کے محبوب کاموں میں شامل ہیں۔

ashfaq-laghari has 32 posts and counting.See all posts by ashfaq-laghari