آخر ڈاکٹرز بھی تو انسان ہیں


اس سال عیدالاضحی کی گہما گہمی میں ایک خبر سوشل میڈیا پر چھائی رہی۔ دیکھنے والے چھوٹے موٹے ہر انسان کے حواس پہ تو گوشت سمایا ہی ہوا تھا مگر بے خبر گوشت خوروں کے ذہن میں یہ خبر ایک طرح سے دھنس سی گئی۔ خبر یہ تھی کہ ”تحصیل ہیڈ کوارٹر میلسی کے لواحقین نے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کو تشدد کا نشانہ بنایا، جبکہ وہاں موجود پولیس خاموش تماشائی بنی رہی، جیسے وہ ڈیوٹی پہ موجود نہیں بلکہ گھر میں بیٹھے انڈر ٹیکر اور جون سینا کی ریسلنگ دیکھ رہے ہوں۔

اگر دیکھا جائے تو یہ خبر اب ہمارے لئے خبر نہیں رہی۔ ”اس خبر نے ہمارے اعصاب کو نہیں جھنجھوڑا اور نا ہی ہمارے ذہن کے گوشوں میں کوئی احساس کا مادہ پیدا کیا۔ یہ خبر تو ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے، بے حسی کی علامت، مردہ دلی کی دلیل، آئے روز ہر اخبار میں یہی خبر شائع ہوتی ہے کہ فلاں ہسپتال میں فلاں ڈاکٹر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا /ڈاکٹر کو ہراساں کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔

عید کے موقع پر جو عفریت نما واقعہ ملیسی میں پیش آیا وہ کچھ یوں تھا۔ کہ مریض ڈاکوؤں کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گیا تھا، جب اسے تحصیل ہیڈ کوارٹر میلسی لایا گیا تب تک وہ وفات پا چکا تھا، اس کے لواحقین نے ڈاکٹر سے کہا کہ اسے ڈرپس وغیرہ لگاؤ، ڈاکٹر نے کہا آپ کا مریض تو وفات پا چکا، اب ڈرپ لگانے کا کیا فائدہ؟ لیکن لواحقین بضد تھے کہ اسے جب ہسپتال لایا گیا تب وہ زندہ تھا، ڈاکٹر کی غفلت سے اس کی جان گئی، اسی ناچاقی میں لواحقین نے پولیس کے سامنے ڈاکٹر کو شدید تشدد کا نشانہ بنا ڈالا اس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے۔

یہ واقعہ کوئی نیا واقعہ نہیں، نا یہ پہلی مرتبہ ہوا اور نا ہی آخری مرتبہ ہوا۔ ناجانے روزانہ ایسے کتنے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ ہر بار ہم لوگ کف افسوس مل کے چپ ہو جاتے ہیں اور عملی طور پہ کوی حرکت نہیں کرتے نا کوئی عمل درآمد کرتے ہیں۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا رہتے ہیں۔

ڈیوٹی نبھاتے نبھاتے ڈاکٹر اپنی جان ایک کر دیتا ہے، اسے سر اٹھانے کی بھی مہلت نہیں ملتی، اپنی زندگی کو داؤ پہ لگائے یہ روز لوگوں کے رحم و کرم پہ ہوتے ہیں اور سب سے مظلوم بھی یہی طبقہ ہے۔ یہ طبقہ اتنا مظلوم کیوں ہے، آئیے دیکھتے ہیں۔ ایف ایس سی کے بعد یہ لوگ میڈیکل کالج میں داخلہ لیتے ہیں، پانچ سال پڑھ کر پراف (سالانہ امتحان) پاس کرتے ہیں۔ یہ واحد شعبہ ہے جس میں تھیوری اور پریکٹیکل امتحانات دونوں علیحدہ علیحدہ پاس کرنے ہوتے ہیں، گریس مارکس کا کوئی تصور نہیں ہے۔

ایک ریسرچ کے مطابق ایم بی بی ایس کا کورس دنیا کے مشکل ترین کورسز میں سے ہے، پانچ سال پڑھ کر، چھٹا سال ہاؤس جاب کا ہوتا ہے، اس کے بعد آپ پریکٹس کر سکتے، اگر آپ نے specialization کرنی ہے تو اس کے امتحانات علیحدہ ہیں۔ آج کے دور میں سب سے مشکل کام سرکاری میڈیکل کالج میں داخلہ لینا ہے۔ اسی لیے تو ڈاکٹرز کو ”cream of society“ کہا جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں زیادہ تر آبادی دیہی علاقوں میں بستی ہے۔ 5۔ 20 گاؤں کے لئے BHU یعنی بنیادی مرکز صحت ہوتا ہے، جبکہ 20۔ 50 گاؤں کے لئے (RHC) یعنی دیہی مرکز صحت ہوتا ہے، دونوں BHU اور RHC تحصیل ہیڈ کوارٹرز THQ سے لنک ہوتے ہیں۔ THQ آگے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز DHQ / ٹیچنگ ہسپتال سے لنک ہوتا ہے۔ یہ چین سمجھنا نہایت ضروری ہے۔

خاندانی لڑائیاں، زمین کے لئے جھگڑے دیہات میں شہروں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ یہاں سے ڈاکٹرز کی مظلومیت شروع ہوتی ہے۔ لڑائی کے بعد جو سب سے پہلا قانونی کام ہوتا ہے وہ ہے MLC یعنی کہ medico legal certificate۔ یہ رپورٹ ڈاکٹر نے بنانی ہوتی ہے۔ اپنی پسندیدہ رپورٹ کے لئے ڈاکٹرز کو ہر طریقے سے دھمکایا جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر ڈاکٹرز کی فیملیز کو اس میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ تو ایک قانونی عمل ہے جس کا صرف پولیس سے سے تعلق ہے لیکن اس معاملے میں ڈاکٹر کو زبردستی دھکیلا جاتا ہے۔

لڑائی کے بعد زخمیوں کو جب ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے تو چاہے وہ مردہ ہی ہسپتال کیوں نا لایا گیا ہو، ڈاکٹر کو اسے ٹھیک کرنا ہی ہے۔ جب ڈاکٹر یہ بتا دے کہ آپ کا مریض تو لایا ہی مردہ گیا تھا/ یا اس کے بچنے ہی امید نہایت کم تھی تو لواحقین بنا کچھ سنے، سوچے سمجھے ڈاکٹر کو مارنا شروع کر دیتے ہیں کہ ان کے مریض کی جان لڑائی سے نہیں بلکہ ڈاکٹر کی غفلت سے گئی ہے۔

وطن عزیز میں اب ڈاکٹرز کی سیکورٹی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بڑے ہسپتالوں میں تو یہ واقعات کم پیش آتے ہیں کیونکہ وہاں ڈاکٹر تنظمیں اور میڈیا کافی سرگرم ہوتے ہیں لیکن RHC اور THQS میں ڈاکٹرز کا کوئی حال نہیں۔

پاکستان میں مجھے آپ کوئی ایسا شعبہ بتائیں جس میں عید کے موقع پر چھٹیاں نا ہوتی ہوں؟ لیکن ڈاکٹر واحد شعبہ ہے جس میں عید کے موقع پر بھی آپ کو چھٹی نہیں ملتی۔ عید کے دنوں میں بھی ڈاکٹرز اپنے فرائض اتنی ہی دلجمعی سے سرانجام دیتے ہیں جتنا کہ باقی عام دنوں میں۔ میں ذاتی طور پر ایسے ڈاکٹرز کو جانتا ہوں کہ جنہوں نے آخری چار پانچ عیدیں ہسپتال میں ہی گزاری ہیں۔ لیکن پھر پھی ولن ڈاکٹرز ہی کیوں؟

اب ڈاکٹرز کی سیکورٹی کا یہ عالم ہے کہ پہلے تو فی میل ڈاکٹرز کو کچھ نہیں کہا جاتا تھا اب تو سر عام ان کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان سے لڑنے کے لئے خواتین لواحقین کو لایا جاتا ہے۔ ہسپتالوں میں سہولیات فراہم کرنا گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے، اگر کوئی سہولت میسر نا ہو تو اس کا الزام بھی ڈاکٹر پر ہی عائد کیا جاتا ہے۔

دیہی علاقوں میں BHU اور RHC میں ڈاکٹرز کی کمی کی بنیادی وجہ ڈاکٹروں کے لئے اچھی سیکورٹی کا نا ہونا ہے۔ میل ڈاکٹرز کو کسی نا کسی طرح برداشت کر ہی لیتے ہیں جبکہ فی میل ڈاکٹرز کے لئے حالات نہایت مخدوش ہیں۔ دیہی علاقوں میں سیاسی شخصیات کا اثر و رسوخ زیادہ ہوتا ہے تو لوگ اپنا کام نکلوانے کے لئے انہی کے ذریعے ڈاکٹرز کو ہراساں کرتے ہیں۔

میلسی میں جس ڈاکٹر کو عید کے دن پولیس کے سامنے مارا گیا، وہ پاکستان کے سب سے بڑے اور پرانے میڈیکل ادارے کنگ ایڈورڈ کے گریجویٹ ہیں اور گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ ہماری اجتماعی بے حسی کی اس سے بڑی کوئی اور مثال ہو سکتی ہے؟ پھر لوگ گلا کرتے ہیں کہ ڈاکٹرز بیرون ملک کیوں جاتے ہیں، اسی لیے جاتے ہیں کیونکہ ان کی وہاں عزت کی جاتی ہے، ان کے جان مال کی حفاظت کی جاتی ہے۔

ابھی پچھلے سال سر گنگا رام ہسپتال میں ایک مریض کی وفات ہو گئی، ڈیوٹی پر ایک فی میل ڈاکٹر تھی، مریض کے لواحقین اس کو مارنے کے لئے دوڑے، اس بیچاری نے واش روم میں گھس کر اپنی جان بچائی۔ ایسی کتنی مثالیں موجود ہیں۔

عید کے روز میلسی میں جب یہ واقعہ پیش آیا، تب ہم سب تو اپنے گھروں میں خوشی سے عید منا رہے تھے، لیکن وہ ڈاکٹر صاحب اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر اپنی ڈیوٹی پر آئے، پورے پاکستان میں ناجانے ایسے کتنے مسیحا ہوں گے جو اپنی عید ادھوری چھوڑ کر عوام کی خدمت کو آئے۔ اور ہم ان کو ایسا صلہ دیتے ہیں؟ ان کو مار کے؟ ان کو ہراساں کر کے؟ وہ تو آپ سے کچھ نہیں مانگتے۔ نا ہی اپ ان کو کچھ دے سکتے ہیں۔ کم از کم آپ ان کی عزت تو کر ہی سکتے ہیں۔

پاکستان میں ڈاکٹرز کی سلامتی کو جو خطرات لاحق ہیں شاید وہ کسی افریقا کے ملک میں بھی نا ہوں۔ پچھلے سال ڈاکٹروں کی تنظیم  ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے ڈاکٹروں کی سیکورٹی کے لئے احتجاج بھی کیا تھا، OPDs بھی بند کیں تھیں، لیکن ہمارے میڈیا نے ایک دفعہ پھر ڈاکٹرز کو ولن کے طور پر پیش کیا۔ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈاکٹرز کی سیکورٹی کے لئے عملی اقدامات کرے گی۔ اگر حکومت نے ایسے کچھ اقدامات کیے ہوتے تو میلسی کا واقعہ رونما نا ہوتا۔

ڈاکٹرز مسیحا بعد میں ہیں اور انسان پہلے۔ انسان کی عزت، جان مال کی حفاظت کی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے۔ ریاست تو ڈاکٹرز کی حفاظت کے لئے ناکام ہو چکی ہے تو اب اس کا حل کیا ہے؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ڈاکٹرز اب اپنی حفاظت کے لئے بندوق اٹھا لیں؟ ڈاکٹرز مسیحا ضرور ہیں لیکن خدا نہیں۔ وہ ایک بیمار کو دوائی دے کر ٹھیک کر سکتے ہیں لیکن ہسپتال میں لائے گئے مردہ کو ڈرپ لگا کر زندہ نہیں کر سکتے۔

اب اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس کا حل مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹروں کے ساتھ ملکر قانون سازی کریں۔ قانون کے ہاتھ مضبوط ہوں جس سے بالاتر کسی کی ذات نا ہو تب یہ لوگ کا ازدحام اور ان کا بدترین رویہ کنٹرول میں آئے گا۔ سیاسی شخصیات کا ہسپتالوں میں اثر و رسوخ کم کیا جائے۔ ہسپتال کی حدود میں ہر طرح کے اسلحہ لانے پر پابندی لگائی جائے۔ میڈیا کو بھی ایسے عناصر کو سامنے لانا چاہیے جو اس سارے مسئلے کی جڑ ہیں۔ لیکن صرف قانون سازی کچھ نہیں کر سکتی۔

ہمیں بحثیت قوم ہمیں اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔ ہمیں عملی طور ہر اپنے مسیحاؤں کی عزت کرنی ہو گی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، ڈاکٹرز تو صرف ایک ذریعہ ہیں۔ اگر آپ کو ڈاکٹرز سے کسی قسم کی شکایت ہے تو اپ کے پاس سارے قانونی راستے موجود ہیں، قانون کو اپنے ہاتھ میں مت لیں۔ اگر ہم نے اپنے رویے نا بدلے تو وہ دن دور نہیں جب آپ کو اپنے علاج کے لئے کوئی ڈاکٹر نہیں ملے گا۔

جو اپنے مسیحاؤں کی عزت نہیں کرتے ان کے ساتھ صلہ رحمی اور احسان سے پیش نہیں آتے تو پھر نتیجتا ایسا معاشرہ جنم لیتا ہے جہاں بیماریاں ناسور کی شکل اختیار کر جاتی ہیں جس کا علاج ناممکن ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).