انڈیا کے زیر انتظام کشمیر: ’خدشات اور خوف میں مزید اضافہ ہو رہا ہے‘


انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کو آج 15 دن مکمل ہو چکے ہیں تاہم وادی میں کشیدگی اور بندشوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے سامعین کو باخبر رکھنے کے لیے بی بی سی نے ایک خصوصی ریڈیو پروگرام نیم روز کا آغاز کیا ہے۔

منگل کو نیم روز میں بات کرتے ہوئے بی بی سی کے سرینگر میں نامہ نگار ریاض مسرور کا کہنا تھا کہ وادی میں عائد قدغنوں اور بندشوں میں ایک تسلسل سا پیدا ہو چکا ہے۔

’جہاں جہاں کرفیو میں نرمی کی بھی گئی ہے وہاں دکاندار اپنی دکانیں نہیں کھول رہے ہیں اور سٹرکوں پر صرف ہنگامی نوعیت کی ٹریفک ہی موجود ہے۔ ایک ڈیڈ لاک کی سی صورتحال ہے جس کے بیچ عوام میں خدشات اور خوف میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

نیم روز: کشمیر میں کشیدگی، لیح میں خوشی کی لہر

کشمیر: ’ایسی خبریں ملتی ہیں کہ نیند نہیں آتی‘

کشمیر: لاک ڈاؤن میں زندگی کیسی تھی؟

انھوں نے بتایا کہ حکام کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنس کی جاتی ہے اور کل (پیر) شام بھی بہت مختصر پریس کانفرنس کی گئی جس کے آغاز میں ہی بتا دیا گیا تھا کہ سوالات کے جواب نہیں دیے جائیں گے۔

میڈیا کو بتایا گیا کہ حالات مجموعی طور پر نارمل ہیں تاہم کہیں کہیں مظاہرین سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرتے ہیں تاہم ان سے مقامی سطح پر ہی نمٹ لیا جاتا ہے۔

ریاض مسرور کے مطابق پیر ہی کے روز پرائمری سکولوں کو کھولنے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم آج (منگل کو) حکام نے بتایا کہ پہلے دن اساتذہ کی حاضری 30 سے 50 فیصد جبکہ بچوں کی اکثریت سکولوں سے غیر حاضر رہی۔

‘آج بتایا گیا ہے کہ مڈل کلاسز تک کے سکول کھول دیے جائیں گے۔ اساتذہ کی کثیر تعداد، وہ نجی سکولوں کے ہوں یا سرکاری سکولوں کے، سکولوں میں نہیں پہنچ پائی کیونکہ سرینگر کے زیادہ تر حصے اور شمالی کشمیر میں بہت زیادہ سخت ناکہ بندی ہے۔’

کشمیر

سرینگر کے ایک سکول کے احاطے میں پارک کی گئی سکول کی بسیں

انھوں نے مزید کہا کہ اسی طرح بانڈی پورہ اور بارہ مولا کہ چند علاقوں میں، جن میں صوپور بھی شامل ہے، سخت پابندیاں ہیں اور اسی وجہ سے بچوں نے سکولوں کا رخ نہیں کیا۔

کیا کرفیو/پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے؟

انھوں نے بتایا کہ کشمیر میں ایک مراسلہ جاری کیا گیا تھا جس میں سرکاری ملازمین کو یہ ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ وہ ہر حالت میں دفاتر میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں۔

’اگرچہ سٹرکوں سے ٹرانسپورٹ غائب ہے مگر چند ملازمین اپنی نجی گاڑیوں میں دفاتر کا رخ کرتے نظر آتے ہیں یا بیمار لوگ ہسپتال جاتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہنگامی نوعیت کی ٹریفک تو سٹرکوں پر موجود ہے تاہم سٹرکوں پر بھی عجیب صورتحال ہے یعنی اگر کوئی سٹرک دو طرفہ ہے تو اس کی صرف ایک سمت ٹریفک کے لیے کھولی گئی ہے جبکہ دوسری بند ہے اور ایسا سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔

‘آنے جانے میں خاص دقت نہیں ہے مگر ہر ناکے پر روکا جاتا ہے اور شناختی کارڈ دیکھا جاتا ہے۔ اگر شناختی کارڈ نہیں ہے تو کرفیو پاس طلب کیا جاتا ہے۔

میڈیا نمائندگان کے لیے نئے اجازت نامے

‘ریاض مسرور کے مطابق اگرچہ حکام کی جانب سے ہر روز بتایا جاتا ہے کہ پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے تاہم کل (پیر) ہی صحافیوں کے لیے نئے رنگ کے خصوصی کرفیو پاسز (اجازت نامے) جاری کیے گئے ہیں جن پر کوئی معیاد یا مدت درج نہیں ہے۔

’یہ پاسز غیر معینہ مدت کے لیے ہیں جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاید پابندیوں کا سلسلہ ابھی مزید اور غیر معینہ مدت تک چلے گا۔‘

ضروریات روزمرہ کی دستیابی کی صورتحال

ان کا کہنا تھا کہ کئی اندرونی علاقوں میں سبزی، دودھ اور اشیائے روزمرہ کی دکانیں کھولی جاتی ہیں جس کے باعث وادی میں ان کی قلت نہیں ہے۔

کشمیر

’سرینگر میں دو سبزی منڈیاں ہیں جو صبح کے اوقات میں چار گھنٹوں تک کھلی رہتی ہیں۔ تاہم صبح ہوتے ہی منڈیوں، بازاروں میں مکمل سناٹا چھا جاتا ہے۔‘

کیا حالات بہتر ہو رہے ہیں؟

نمائندہ بی بی سی کا کہنا ہے کہ حکام کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سکولوں کو کھولنے کے لیے ہر طرح کے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے ہیں مگر سرینگر کے گرد و نواح کے علاقوں میں انھوں نے دیکھا کہ تمام چھوٹے بڑے نجی اور سرکاری سکولوں میں سے زیادہ تر میں صرف نان ٹیچنگ سٹاف تو موجود تھا مگر بچے یا اساتذہ نہیں۔

والدین نے بھی حکام سے اپیل کی ہے کہ سکولوں کو کھولنے سے قبل سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرینگر کے سب سے بڑے ہسپتال نے بھی کل رات ایک اپیل جاری کی ہے جن میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز سے اپیل کی گئی ہے کہ ایمبولینسز کو نہ روکا جائے اور نہ ہی ان پر پتھراؤ کیا جائے۔

کشمیر

مظاہرے اور پتھراؤ کن علاقوں میں ہو رہا ہے؟

ریاض مسرور کے مطابق شوپیاں، کولگام اور اننت ناگ میں لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے کے دوران ہنگاموں کے کافی واقعات ہوئے اور مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ہر روز ان علاقوں سے پتھراؤ کرنے والوں کو گرفتار کیا جاتا ہے تاہم اگلے ہی روز ان گرفتاریوں کے خلاف مظاہرے کیے جاتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ سرینگر میں صورہ، جہاں فائرنگ کا واقع بھی پیش آیا تھا، کی طرف جانے والے راستوں کے اطراف تقریباً روزانہ کی بنیاد پر چھ کے قریب پتھراؤ کے واقعات پیش آتے ہیں۔

حکومتی موقف کیا ہے؟

ریاض مسرور کا کہنا ہے کہ ابتدا میں صرف علیحدگی پسندوں کے علاوہ انڈیا نواز سیاسی قیادت کو حفظ ماتقدم کے طور پر حراست میں لیا گیا تھا تاہم ان دنوں میں سامنے آنے والی حکومتی پالیسی سے پتا چلا ہے کہ اب حکومت کی جانب سے ایم فور سٹریٹیجی (حکمت عملی) کو اختیار کیا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ایم فور حکمت عملی کے تحت ان تمام سرکردہ افراد کو گرفتار کیا جائے گا جو مظاہروں کا انعقاد یا قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں مولوی حضرات بھی شامل ہیں۔

’ایسے مبلغ اور مولوی حضرات پر بھی کڑی نگاہ رکھی جا رہی ہے جو اپنی تقریروں میں عوام کو اکسانے والی باتیں کرتے ہیں اور اشتعال انگیزی کرنے پر ان کو بھی گرفتار کیا جائے گا۔‘

ریاض مسرور نے بتایا کہ سرینگر کے مرکزی علاقے کی ایک مسجد میں چند لڑکوں نے لاؤڈ سپیکر کھول کر ترانے بجانے اور نعرہ بازی کرنے کی کوشش کی تاہم مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے سربراہ نے انھیں یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ پولیس نے ان سے ضمانت (بانڈ) لے رکھی ہے کہ اس طرح کی کوئی کارروائی ان کے محلے میں نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp