افغانستان میں بد امنی کا فائدہ کسے ہے؟


افغانستان میں شادی کی ایک تقریب میں خود کش حملے سے بڑی تعداد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ افغان طالبان نے فوری طور پر ہزارہ گروپ پر خود کش حملے کے تردید کی لیکن اشرف غنی نے حملے کا الزام افغان طالبان پر عاید کرتے ہوئے شدید تنقید کی۔ اشرف غنی 28 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے امیدوار بھی ہیں اور ان کے پینل میں سابق انٹلیجنس چیف امراللہ صالح اور سرور دانش شامل ہیں۔ صالح ایک ممتاز حیثیت کا حامل تاجک ہے، جو افغانستان کا دوسرا سب سے بڑا نسلی گروپ ہے۔ اشرف غنی کے دوسرے موجودہ ساتھی سابق وزیر انصاف سرور دانش ہیں، جو ہزارہ گروپ میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔

ہزارہ کمیونٹی افغانستان کا تیسرا سب سے بڑا نسلی گروپ ہے۔ پشتون کمیونٹی افغانستان کا سب سے بڑا نسلی گروپ ہے جو تمام نسلی گروپوں میں افغانستان کی مجموعی آبادی کے نصف سے بھی زیادہ تعداد میں ہیں، جبکہ ہزارہ، تاجک کمیونٹی بالترتیب 20 / 20 فیصد ہیں اور دیگر نسلی گروپوں میں ایماق، ترکمان، بلوچ، پاشایی، نورستانی، عرب، براہوی، پامیری، گرجر، وغیرہ شامل ہیں۔ افغانستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت کے واقعات کبھی اس نوعیت کے رونما نہیں ہوئے جس طرح موجودہ حالات میں وقوع پزیر ہو رہے ہیں۔

یہ ضرور ہے کہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد خانہ جنگیوں میں شمالی اتحاد (کئی ممالک کا حمایت یافتہ گروپ) اور افغان طالبان کے درمیان انتہائی خراب تعلقات تھے اور دونوں گروپوں کے درمیان شدید نوعیت کی جھڑپیں بھی ہوا کرتی تھی۔ لیکن افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے اور امریکی حملے کے بعد، خاتمے تک بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر خانہ جنگیاں نہیں ہوئی۔ نسلی بنیادوں پر افغانستان میں نسلی تفریق و نا اتفاقی ضرور پائی جاتی ہے۔

موجودہ حالات میں ماضی کے برعکس افغان طالبان کے تعلقات ایران کے ساتھ بہتر ہوچکے ہیں اور ایران امریکی اثر رسوخ کو کم اور ختم کرنے کے لئے افغان طالبان کی کھلی اور درپردہ ہمہ قسم حمایت و مدد بھی کرتا ہے۔ تاہم ایران، افغان طالبان کو افغانستان کا مکمل اقتدار دیے جانے کے حق میں نہیں۔ دوسری جانب افغان طالبان عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ پورے افغانستان پر امارات اسلامیہ کا جبراً اقتدار بھی نہیں چاہتے۔ تو پھر قابل غور بات یہ ہے کہ عام شہریوں اور نسلی گروپوں پر خودکش حملوں سے کس فریق کو زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

کیا افغان طالبان، جنہیں اس بات کی قوی امید ہے کہ امریکا انخلا کے بعد اقتدار ان کے ہی ’حوالے‘ ہوگا تو وہ عام شہریوں کو نشانہ کیوں بنائیں گے؟ جب کہ افغان سیکورٹی فورسز پر پہلے ہی ان کے مسلح مزاحمت کار، حملوں میں کئی گنا اضافہ کرچکے ہیں اور اپنی کارروائیوں کی ذمے داری بھی قبول اور اُن کارروائیوں کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا بھی جاری کرتے ہیں۔ یا پھر یہ گمان کیا جائے کہ کابل انتظامیہ یعنی اشرف غنی، امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اور عام شہریوں کو نشانہ بنوا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ افغان طالبان کے ساتھ امریکا کا معاہدہ درست نہیں ہوگا کیونکہ افغان طالبان، عام شہریوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔

یہ دونوں نظریے صرف گمان ہیں، ان کی حقیقت و زمینی حقائق کے حوالے سے کوئی بات وثوق سے کہنا قبل از وقت ہے۔ صدارتی انتخابات میں ایک ایسا با اثر گروپ بھی حصہ لے رہا ہے جو افغان امن مذاکراتی عمل کا شدید ترین مخالف ہے۔ یہ گروپ قومی سلامتی کے سابق مشیر حنیف اتمر کا ہے۔ سابق وزیر داخلہ نے گذشتہ برس غیر متوقع طور پر افغان صدر کے ساتھ پالیسی اختلافات کے سبب استعفیٰ دے دیا تھا۔ حنیف اتمر کا ماضی شاندار نہیں بلکہ انتہائی داغ دار ہے۔

اتمر افغانستان میں کمیونسٹ حکمرانی کے دوران بدنام زمانہ جاسوس ایجنسی خادانٹیلی جنس افسر رہ چکے ہیں۔ ان پر سوویت کے جی بی کے ذریعہ تربیت یافتہ، ایچ ایچ ڈی پر ہزاروں افغانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور ان کا قتل کرنے کا الزام ہے۔ افغانستان پر سوویت یونین کے قبضہ کے دوران ( 1979۔ 89 ) اتمر نے مجاہدین کے خلاف جنگ لڑی اور 1988 میں مشرقی شہر جلال آباد میں لڑتے ہوئے اپنی ایک ٹانگ بھی گنوا بیٹھے تھے۔ افغان سیاسی امور کے ماہرین، حنیف اتمر کو اشرف غنی کا سخت حریف قرار دے رہے ہیں جبکہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا گروپ بھی اشرف غنی کے سخت حریف میں شمار کیے جا رہے ہیں۔

یہاں اس بات پر کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ اقتدار کے حصول کے لئے کوئی نسلی گروپ پُر تشدد کارروائیاں نہیں کرتا۔ کیونکہ ماضی میں اقتدار کے لئے افغانستان کو سوویت یونین کی جنگ سے زیادہ نقصان آپسی خانہ جنگیوں سے پہنچا تھا۔ یہاں یہ نکتہ ضرور غور طلب ہے کہ کیا امریکا، اپنے نامکمل انخلا سے قبل افغانستان کو نسلی بنیادوں پر تقسیم تو نہیں کرنا چاہتا۔ کیونکہ افغانستان کی تقسیم کی سازشیں منظر عام پر ہیں کہ افغانستان کو تین حصوں میں نسلی و مذہبی اعتبار سے منقسم کیا جاسکتا ہے۔

امریکا اپنے فروعی مفادات کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے اور باوثو ق شکوک کے ساتھ کئی مؤقرثبوت بھی عالمی ذرائع ابلاغ میں سابق صدر حامد کرزئی کے اس الزام کے ساتھ موجود ہیں کہ امریکا ’داعش‘ (خراسان شاخ) کو افغانستان میں قدم جمانے میں تواتر سے مدد فراہم کر رہا ہے۔ داعش نے مسلکی بنیادوں پر عام شہریوں، مساجد، امام بارگاہوں پر خود کش حملے بھی کیے اور کئی واقعات کی ذمے داریاں بھی قبول کرچکا ہے۔ اس کے بعد سوچ کا دائرہ ازخود اس جانب مڑ جاتا ہے کہ داعش (خراساں شاخ) یا کرائے کے قاتل (بلیک واٹر) افغانستان میں کسی بھی نسلی یا فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانے کے لئے کارروائیاں کرسکتے ہیں جس کا براہ راست فائدہ صرف دو ممالک کو پہنچتا ہے۔

ان دو ممالک میں ایک امریکا تو دوسرا بھارت ہے۔ امریکا کے معاشی مفادات کو چین کے عالمی اقتصادی پروگرام ”ون بیلٹ ون روڈ“ سے شدید خطرات ہیں۔ جب کہ بھارت نے افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررکھی ہے اور افغانستان کے زیادہ تر بڑے منصوبے بھارت کے پاس ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ بھارت کو خدشہ ہے کہ افغانستان کے قدرتی وسائل پر اُس کے ناجائز قبضوں پر اجارہ داری خطرے میں پڑ جائے گی۔ اسی لئے افغانستان میں امن کے قیام کی راہ میں بھارت سب سے زیادہ حائل نظر آتا ہے کیونکہ کٹھ پتلی اور محدود خطے پر صدارتی انتخابات کا مکمل فائدہ بھارت (امریکا) کو ہی پہنچتا ہے اور ’را، این ڈی ایس، موساد، سی آئی اے‘ ایجنٹس کی عام شہریوں کے خلاف کارروائیاں خارج ازامکان نہیں ہیں کیونکہ افغانستان کی سرزمین پر کالعدم تنظیموں و شدت پسند جماعتوں کی موجودگی بد نام زمانہ ایجنسیوں کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

ان کا مقصد جہاں پاکستان و چین کو نقصان پہنچانا ہے تو دوسری جانب قیام امن کے لئے تمام کوششوں کو بھی سبوتاژ کرنا ہے۔ افغانستان میں امن کا استحکام سب سے بڑا چیلنج ہے۔ امریکی افواج کا انخلا تو بہرصورت ہونا ہے لیکن افغانستان میں کسی بھی حکومت کو اپنے پیروں پر کھڑا نہ کرنے کی عالمی سازش بھی عیاں ہے کیونکہ افغانستان میں اگر امن قائم ہوجاتا ہے تو چین کے عظیم عالمی اقتصادی منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہونے پر مغرب کی معاشی اجارہ داری کے خاتمے کے دن شروع ہونے کے تحفظات مخفی نہیں ہیں۔

کابل میں ہونے والے عام شہریوں پر حملوں کی دہشت گردی کے واقعات کو عالمی سیاسی مفادات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عام شہریوں کی ہلاکتوں پر فضائی حملوں میں حکومتی فورسز کے ملوث ہونے کی یوناما رپورٹ کھلی کتاب ہے۔ نسلی، فرقہ وارانہ بنیادوں پر خانہ جنگیوں کی سلسلے کو شروع کرنے کی سازشوں کو افغان عوام نے ہی ناکام بنانا ہوگا۔ انہیں کسی ایک فریق کے خلاف بھڑکانے کے لئے عالمی سازش کے تانے بانے کو بھی دیکھنا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ افغانستان میں بد امنی کا فائدہ کس کے پلڑے میں جاتا ہے۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ افغانستان میں امن افغان عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).