سر باجوہ کو ایکسٹینشن کس نے دی؟


سات جون دو ہزار انیس کو مشہور کالم نگار محمد حنیف نے بی بی س اردو میں ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا ”سر باجوہ نہ کریں“۔ اس کالم میں محمدحنیف صاحب نے جنرل باجوہ کی ممکنہ ایکسٹینشن کے حوالے سے ان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ایکسٹینشن نہ لیں اور اگر وہ ایکسٹینشن کے متمنی ہیں بھی تو انھیں سابقہ ڈکٹیٹرز جنرل ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی طرح اقتدار پر قبضہ کر کے خود ایکسٹینشن لینی چاہیے نہ کہ جنرل کیانی کی طرح کسی منختب وزیرِاعظم سے۔

مگر سر باجوہ نے محمد حنیف صاحب کے مشورے پر عمل نہیں کیا اوردانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے جنرل کیانی ماڈل ہی اپنایا۔ کیونکہ جب براہِ راست سامنے آنے کی بجائے پیچھے بیٹھ کر سارے معاملات بخوبی انجام پارہے ہوں تو کھل کر سامنے آنا حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ چنانچہ ہمارے وزیرِاعظم عمران خان صاحب نے اپنی حکومت کا پہلا سال پورا ہونے کے اگلے ہی دن جنرل باجوہ صاحب کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔ جس میں اس توسیع کی وجہ موجودہ ملکی حالات کی سنگینی بتائی گئی۔

اس خبر کے سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر تبصروں اور تجزیوں کی خوب رونق لگی۔ کسی نے موجودہ حالات کے تناظر میں اس کی تعریف کی کہ اس سے پچھلے ایک سال سے جو پالیسیاں چل رہی ہیں ان کا تسلسل جاری رہے گا اور نئے آرمی چیف کے فیصلہ کرنے میں بے یقینی کی صورت حال پیدا ہوجائے گی، کیونکہ ہمارے ملک میں نیا آرمی چیف کا انتخاب کرنا بھی کسی معرکہ سر کرنے سے کم نہیں ہوتا ہے۔

تو کسی نے اس فیصلے پر یہ کہہ کر تنقید کی کہ کسی بھی ادارے کے سربراہ کے لیے اپنی ملازمت کی مدت میں توسیع حاصل کرنا بالکل بھی درست نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے فیصلے سے اس ادارے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور خاص طور پر اگر فوج جیسا منظم ادارہ ہو۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے اس فیصلے پر کسی حیرت کا اظہار نہیں کیا۔ ان کے مطابق پاکستان میں اس طرح کا فیصلہ ہونا کوئی انہونی نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی آرمی چیف کو ایکسٹینشن ملتی رہی ہے اور جنرل باجوہ ایکسٹینشن حاصل کرنے والے چھٹے آرمی چیف ہیں۔

پھر کچھ لوگ اس فیصلے کے تانے بانے واشنگٹن سے ملا رہے ہیں۔ ان کے مطابق جب کچھ عرصہ پہلے وزیرِاعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ امریکہ کے سرکاری دورہ پر گئے تھے تب جنرل باجوہ صاحب کی ایکسٹینشن کے معاملات وہاں امریکہ بہادر کے کہنے پر طے پا گئے تھے اور بس ایک رسمی اعلان باقی تھا جو کہ انیس اگست کو کر دیا گیا۔

اس حوالے سے نامور صحافی حامد میر کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں جنرل (ر) امجد شعیب نے اس بات کا انکشاف کیا کہ ان کی جنرل باجوہ سے کچھ عرصہ پہلے ملاقات ہوئی تھی، جس میں انھوں نے اِن کو بتایا تھا کہ وہ ذاتی طور پر ایکسٹینشن لینے کے حق میں نہیں ہیں اور انھوں نے اس حوالے سے حکومت پاکستان کو آگاہ بھی کر دیا ہے۔ تو جنرل شعیب کو لگتا ہے کہ اپنے دورہِ امریکہ کے دوران جنرل باجوہ صاحب نے اپنے فیصلے پر ملک کے وسیع تر ملکی مفاد کی خاطر نظرِ ثانی کی ہے۔

اس میں تو کسی کو ذرہ برابر بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ فیصلہ جنرل باجوہ نے ہی لیا ہے کیونکہ ہمارے وزیرِاعظم جناب عمران خان صاحب چاہے ماضی میں جنرل کیانی کی ایکسٹینشن کے فیصلہ پر تنقید کرتے رہے ہیں اور جنرل راحیل شریف کے ایکسٹینشن نہ لینے کے فیصلے کو انھوں نے سراہا تھا۔ مگر اب اس فیصلے کی توثیق کرنا ان کی مجبوری تھی کیونکہ ان کو اقتدار میں لایا ہی اسی وجہ سے گیا تھا کہ اپنے من پسند فیصلے ان سے کروائے جا سکیں۔ جس کا عملی مظاہرہ گزشتہ ایک سال میں ہم دیکھ چکے ہیں اور آگے بھی دیکھیں گے۔ اسی لیے ٹویٹر پر ایک بھارتی صارف نے یہ ٹویٹ کیا ”جنرل باجوہ نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دے دی۔ “

جہاں تر اس فیصلے کا ملک کے وسیع تر قومی مفاد اور موجودہ حالات کی سنگینی کا تعلق ہے تو ہمارے حالات تو ہمیشہ سے ہی نازک اور سنگین رہے ہیں اور قومی مفاد بھی یہاں ہمیشہ مقدم رہا ہے۔ اس قومی مفاد کے تناظر میں یہاں جو بھی فوج کے سربراہ رہے ہیں چاہے انھوں نے اپنے عہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی یا ایکسٹینشن لی، ادارے کی اپنے بالادست ہونے کی پالیسی ویسے ہی رہی ہے۔ اور مستقبل قریب میں بھی اس کے بدلنے کے امکانات بہت معدوم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).