مبینہ ویڈیو سکینڈل: سپریم کورٹ نے سابق جج ارشد ملک کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا


سپریم کورٹ

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے منگل کے روز احتساب عدالت کے جج سے متعلق دائر کی گئی تین درخواستوں کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے مبینہ ویڈیو سکینڈل میں ملوث اسلام آباد کی احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کے باوجود اپنے پاس رکھنے پر وفاقی حکومت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ حکومت اس جج کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔

عدالت نے ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ ہی ارشد ملک کے خلاف کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سربراہ کی طرف سے اس ضمن میں ایک رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو یہ رپورٹ پڑھنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر کوئی قابل اعتراض الفاظ ہوں تو ان کو بے شک حذف کر دیں۔

رپورٹ سننے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس رپورٹ میں ابہام ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دو ویڈیو تھیں جن میں ایک وہ ویڈیو جس میں احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک قابل اعتراض حالت میں ہیں جس کی بنا پر اُنھیں بلیک میل کیا گیا جبکہ دوسری ویڈیو وہ ہے جو مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران دکھائی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

’شکر کریں کہ آپ محفوظ ہیں’

جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو بنانے والا شخص گرفتار

جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

جج کو کام سے روکنے کا حکم مگر ن لیگ کا مسئلہ عدالتی فیصلہ

بینچ کےرکن موجود جسٹس عظمت سعید نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ ایف آئی اے کے پاس وہ ویڈیو موجود ہے جو مریم نواز نے پریس کانفرنس میں دکھائی۔ ڈی جی ایف آئی نے اس کا نفی میں جواب دیا جس پر جسٹس عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پورے پاکستان کے پاس یہ ویڈیو ہے اور اگر نہیں ہے تو صرف ایف آئی اے کے پاس نہیں ہے۔

بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل انور منصور سے استفسار کیا کہ کیا اس شخص کے بارے میں معلوم ہوا ہے جس نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں تعینات کروایا۔

جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ناصر جنجوعہ نامی شخص یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ انھوں نے ارشد ملک کو تعینات کروایا۔

اٹارنی جنرل کے بقول ارشد ملک کو گذشتہ برس مارچ میں اسلام آباد میں تعینات کروایا گیا جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد ارشد ملک کو تعینات کروایا گیا۔ جسٹس عظمت سعید نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ کیا اس ویڈیو کا فرانزک کروایا گیا یا اس کو کسی ماہر کو دکھایا گیا جس پر ڈی جی ایف آئی اے کی بجائے اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ اس کا فرانزک ٹیسٹ بھی کروالیں گے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ انھوں نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو اپنے پاس کیوں رکھا ہوا ہے جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تفتیش کے سلسلے میں وہ اسلام آباد میں ہیں۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کو ہلکا لے رہے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ تفتیش کی آڑ میں سابق جج کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جج کے اس کردار سے ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کتنے شرم کی بات ہے کہ جج ارشد ملک خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کا تعلق سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خاندان سے رہا ہے۔

عدالت نے ان درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو اگلے دو تین روز میں سنایا جائے گا۔

اس مبینہ ویڈیو سکینڈل کے خلاف ایک درخواست گزار اکرام چوہدری نے عدالت سے استدعا کی کہ اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کروائی جائیں اور سپریم کورٹ خود اس کی نگرانی کرے جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت عظمی نگرانی کرے تو بھی اعتراض اور نہ کرے تو پھر بھی انگلیں اٹھائی جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp