لائن آف کنٹرول کے آرپار کشمیری مسافر واپسی کے منتظر


تیتری نوٹ

19 اگست کو لائن آف کنٹرول پر بنے تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ کهلنے کی خبریں تهیں

انڈیا کی جانب سے کشمیر کو دی گئی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

دونوں ملکوں کی فوجیں لائن آف کنٹرول پر جہاں ایک دوسرے کے فوجی ہلاک کرنے کے دعوے بهی کر چکی ہیں وہیں ایک دوسرے پر عام شہری آبادی کو نشانہ بنانے کے الزامات بهی لگائے جا رہے ہیں۔ اس کشیدگی کے آغاز کے بعد سے پاکستانی حکام کی جانب سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کم از کم پانچ شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

کشیدگی میں اضافے کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے درمیان سفری رابطے بھی معطل کر دیے گئے ہیں اور اس صورتحال میں متعدد افراد ایسے ہیں جو سرحد کے آر پار پھنس کر رہ گئے ہیں۔

مزید پڑھیے

’انڈیا معاملہ وہاں لے گیا ہے جہاں سے واپسی مشکل ہے‘

ایل او سی: وہ واحد راستہ جو اب بھی کھلا ہے

ایل او سی: ’میں انھیں ہتھیار صاف کرتے ہوئے دیکھ سکتا تھا‘

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکهنے والے کم از کم 40 افراد لائن آف کنٹرول کے اس پار واپسی کے منتظر ہیں جبکہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے دس افراد واپس جانے کے لیے کسی وسیلے کے متلاشی ہیں۔

19 اگست کو لائن آف کنٹرول پر تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ کهلنے کی خبریں آئیں تو اس مقام پر مسافر بهی موجود تهے اور انھیں لینے کے لیے آنے والے ان کے اہلخانہ بهی لیکن کیا مسافر اور کیا ان کی استقبالیہ پارٹی سب ہی نامراد واپس گئے۔ ی۔

عرفان رشید

عرفان رشید نے بتایا کہ ان کے اہلخانہ نے چار اگست کو واپس آنا تها لیکن حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ راستہ ہی نہیں کهولا گیا

کراسنگ پوائنٹ پر اپنے رشتہ داروں کو لینے کے لیے آنے والے شہری میڈیا سے بچتے نظر آئے۔

ایک خاندان کے سربراە سے جب ہم نے بات کی تو انھوں نے کہا کہ وە انتظار تو کر رہے ہیں لیکن اس بارے میں میڈیا سے بات نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب موجود رشتے داروں کے لیے مصیبت بن جائے گ

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے واپسی کے منتظر افراد میں پلندری کے علاقے کے رہائشی عرفان رشید کے چچا اور ان کے اہلخانہ بهی شامل ہیں۔ عرفان رشید نے بتایا کہ ان کے انکل اور اہلخانہ نے چار اگست کو واپس آنا تها لیکن حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ راستہ ہی نہیں کهولا گیا۔

’آج پتا چلا کہ دونوں طرف پهنسے مسافروں کے لیے خصوصی طور پر راستە کهولا جائے گا، اس لیے صبح سے یہاں انتظار کر رہے تهے۔ ابهی کئی گهنٹوں بعد پتا چلا ہے کہ آج بهی نہیں کهلے گا۔ اب آئندە سوموار کو بلایا ہے۔‘

وە کہتے ہیں ’جو اس بار ہو رہا ہے ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا، پہلی بار حالات اتنے خراب ہیں کہ سمجھ نہیں آرہی کہ وە واپس آ سکیں گے یا نہیں، کوئی رابطە نہیں ہو پا رہا۔‘

کشمیر

اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد انڈیا اور پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر پانچ مقامات پر کراسنگ پوائنٹس کهولنے کا اعلان کیا تها

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کراسنگ پوائنٹس کی منتظم اتهارٹی ٹاٹا کے مطابق ان کی کوششوں کے بعد حکومت اور متعلقہ ادارے اس بات پر راضی ہوئے کہ جو واپس آنے اور جانے والے مسافر ہیں ان کی واپسی کا انتظام کیا جائے جبکہ نئے مسافروں کی آمدورفت پر پابندی جاری رہے گی۔

پاکستان کی جانب سے حکام نے حامی بهری تو اس وقت تک اتنی تاخیر ہو چکی تهی کہ لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب سے بتایا گیا کہ واپسی کے منتظر افراد مسلسل انتظار کے بعد واپس چلے گئے ہیں اور اب وە آئندە ہفتے ہی آئیں گے۔

ایل او سی پر موجود کراسنگ پوائنٹس

اکتوبر 2005 میں پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آنے والے زلزلے نے اس قدر تباہی مچائی کہ انڈیا اور پاکستان نے اپنے اختلافات پس پشت ڈالتے ہوئے یہاں آر پار پیدل آمد ورفت اور خصوصاً امدادی سامان کی ترسیل کے لیے چند مقامات پر راستے کهولنے کا فیصلہ کیا۔

یوں لائن آف کنٹرول پر پہلی مرتبہ نومبر 2005 میں حاجی پیر کے مقام پر پیدل آنے جانے کے لیے راستہ کهلا۔

انڈیا اور پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر پانچ مقامات پر کراسنگ پوائنٹس کهولنے کا اعلان کیا تها۔ یہ کراسنگ پوائنٹس پہلے صرف پیدل آمدورفت کے لیے کهولے گئے تهے تاہم 2008 میں پہلی بار ان میں سے دو مقامات پر تجارت کا آغاز بهی ہوا۔

کراسنگ پوائنٹس کو ایک ایک کر کے کهولا گیا اور ان مقامات پر سب سے پہلے ان بارودی سرنگوں کا صفایا کیا گیا جو لائن آف کنٹرول کے آر پار نقل و حرکت کو روکنے کے لیے بچهائی گئی تهیں۔ جس کے بعد یہاں انتظامی بلاکس کی تعمیر ہوئی اور بعض مقامات پر پل یا سڑکیں بهی تعمیر یا ان کی توسیع کا کام کیا گیا۔

خیال رہے کہ سری نگر مظفر آباد بس سروس کے علاوە یہ پانچ وە کراسنگ پوائنٹس ہیں جہاں سے مسافر پیدل یا لائن پار کر سکتے ہیں، اس سلسلے میں فیصلہ کیا گیا کہ یہاں ان لوگوں کی ترجیح دی جائے گی جن کا تعلق تقسیم شدہ خاندانوں سے ہے۔

ایل او سی

تیتری نوٹ واحد کراسنگ پوائنٹ تھا جہاں سے پلوامہ حملے کے بعد بھی مسافروں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا

مظفر آباد سری نگر بس سروس

سنہ 1965 میں معطل ہونے والی بس سروس کے دوبارە آغاز کی تجویز انڈیا نے 2001 میں دی تهی جو تعلقات کی برف میں دب کر رە گئی۔ سنہ 2003 میں یہ تجویز دوبارە میز پر آئی تو دونوں ممالک نے اعتماد سازی کے لیے اس پر پیشرفت کی اور یوں کئی اجلاسوں کے بعد فروری 2005 میں معاہدہ طے پایا اور اسی سال اپریل میں کئی دہائیوں کے بعد سری نگر مظفر آباد بس سروس کا آغاز ہوا۔

حاجی پیر۔ اڑی کراسنگ پوائنٹ

یہ لائن آف کنٹرول پر پہلی باضابطہ کراسنگ کا مقام ہے۔ نومبر 2005 میں یہاں سے زلزلے سے متاثرین کی امداد کے لیے سامان کی ترسیل ہوئی تهی تاہم اس پوائنٹ سے شہریوں کی کراسنگ نہیں ہوئی اور بعد ازاں اس پر مزید کام بهی نہیں ہو سکا۔ اس لیے یہ کراسنگ پوائنٹ فنکشنل نہیں ہے۔

نوسیری ۔ تیتهوال کراسنگ پوائنٹ

یہ کراسنگ پوائنٹ چلیانہ کے نام سے بهی جانا جاتا ہے اور یہ وہ علاقہ ہے جو رواں ماە کے آغاز میں اس وقت خبروں میں آیا جب پاکستان نے انڈیا پر یہ الزام لگایا کہ اس کی فوج نے شہری آبادی کو کلسٹر بموں سے نشانہ بنایا ہے۔

یہاں چلیانہ کے مقام پر دریائے نیلم پر پل تعمیر کیا گیا تها جہاں سے مسافر پیدل کشمیر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ دریائے نیلم کی تنگ سی گزرگاە ہے اور یہاں دوسری جانب بنے گهر واضح دیکهے جا سکتے ہیں۔ یہ کراسنگ پوائنٹ صرف مئی سے اکتوبر تک کهولا جاتا ہے اور فی الحال یہ بهی بند ہے۔

چکوٹهی – اڑی کراسنگ پوائنٹ

اس کراسنگ پوائنٹ پر لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت بهی ہوتی تاہم یہاں رواں برس مارچ میں اس وقت تجارت روک دی گئی جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اس مقام پر قائم کمان پُل کی مرمت کے کام کا آغاز ہوا۔

اس کے بعد اپریل میں انڈیا نے الزام لگایا کہ چکوٹهی اڑی اور تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ سے اسلحہ اور منشیات سمگلنگ ہو رہی ہے اور یوں یہاں سے تجارت روک دی گئی۔ تاہم پاکستان میں ٹریول اینڈ ٹریڈ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پل کی مرمت ایک بہانہ تھی انڈیا نے جان بوجھ کر اس کام کو طوالت دی تھی۔

راولاکوٹ۔ پونچھ ، تیتری نوٹ ۔ چکاں دا باغ کراسنگ پوائنٹ

راولا کوٹ اور پونچھ کو ملانے والا یہ کراسنگ پوائنٹ حالیہ کشیدگی کے دوران بند ہونے والا آخری پوائنٹ ہے۔ یہاں تجارت تو اپریل سے ہی معطل تهی تاہم رواں ماە آخری بار یہاں پانچ اگست کو پیدل افراد نے لائن آف کنٹرول پار کی تهی۔ اب یہ راستہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔

تتە پانی ۔ مہیندر کراسنگ پوائنٹ

یہ کراسنگ پوائنٹ بهی 2005 میں زلزلے کے بعد امدادی سامان کی ترسیل اور پیدل آمدورفت کے لیے کهولا گیا تها تاہم حاجی پیر کراسنگ پوائنٹ کی طرح یہ بهی اب فنکشنل نہیں۔

راولا کوٹ پونچھ بس سروس

اس بس سروس کا آغاز راولا کوٹ اور پونچھ میں تیتری نوٹ اور چکاں دا باغ کے مقام پر جون 2006 میں کیا گیا تها اور بعد میں اسی راستے پر تجارت کا آغاز بھی ہوا تاہم حالیہ کشیدگی کے باعث اس وقت یہ بس سروس بهی معطل ہے۔

واضح رہے کہ اس مقام پر بظاہر بس نہیں چلتی اور لوگ چند میٹر کا یہ فاصلہ پیدل ہی طے کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp