حکومت کو اگلا صفحہ پلٹنا پڑے گا


نئے پاکستان کا پہلا برس نسبتا ً خاموشی سے گزر گیا، اس ضمن میں وزیراعظم عمران خان کا متوقع خطاب بھی نہیں ہوا، تاہم ایک برس گزرنے کے بعد سٹاک ٹیکنگ کا آڈٹ یقینا ہونا چاہیے جو بعض شعبوں میں ہو بھی رہا ہے۔ پیر کو وزیراعظم نے اپنی اقتصادی ٹیم اور کچن کیبنٹ کے کچھ ارکان کے ساتھ طویل صلاح مشورہ کیا۔ اس میں اقتصادی پالیسیوں کے علاوہ گورننس، احتساب، جمہوریت، آزادی صحافت، خارجہ اور سکیورٹی حکمت عملی کا بھی جائزہ لیا گیا۔

اگر تحریک انصاف کی حکومت اپنے دوسرے سال میں گزرے برس کی کامیابیوں اور کوتاہیوں کا غیر جانبداری سے جائزہ لے کر نئی سمت متعین نہیں کرتی تو یہ بھی ایسے ہی گزر جائے گا، ویسے بھی ثبات ہے تغیر کو زمانے میں، حکومت ہو یا کاروبار جب تک آگے بڑھنے کے لیے سعی مسلسل نہ کی جائے اور نئے راستے تلاش نہ کیے جائیں تو معاملات جمود کا شمار ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ برس اکانومی کو درست لائن پر ڈالنا ہی سب سے بڑا چیلنج تھا لیکن فی الحال کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے، صرف یہی کہا جا رہا ہے کہ ہم سابق حکومت کے برعکس اب درست پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جن کے نتائج سامنے آنے میں کچھ وقت درکار ہو گا، اس حوالے سے عوام کو صبر کی تلقین کی جا رہی ہے، لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ حکومت کو خود بھی احساس ہے کہ کچھ معاملات ابھی اصلاح طلب ہیں۔

وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس کے بعد معاون خصوصی اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان نے میڈیا کو بریف کرتے ہوئے برملا اعتراف کہا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ تاجروں اور بیورو کریٹس سے متعلق نیب قوانین پر نظرثانی کی جائے گی کیونکہ نیب کے طریقہ کار کی بنا پرملکی اور غیرملکی بزنس مین سرمایہ کاری کرنے پر تیار نہیں۔ محترمہ کے مطابق وہ اپنا سرمایہ بینکوں میں ڈال رہے ہیں اور نہ ہی انویسٹ کر رہے ہیں بلکہ اسے گدّوں کے نیچے چھپا رکھا ہے۔

ساتھ ہی ساتھ بیوروکریسی عضو معطل بنی ہوئی ہے اورکوئی فائل نہیں نکا لتے۔ حکومت کا نیب کے بارے میں تجزیہ جزوی طور پر درست ہے لیکن اس کے کچھ اور بھی محرکات ہیں جو ملک میں سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہوا کہ حکومت نیب کے قانون میں تبدیلی کے بغیر اسے کس طرح لگام ڈالے گی کیونکہ اس کا اب تک تو استدلال یہ رہا ہے کہ احتساب کے نام پر اپوزیشن کی پکڑ دھکڑ کا جو مینا بازار لگا ہوا ہے اس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ نیب ایک آزاد ادارہ ہے نیز اس کا چیئرمین مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پیپلزپارٹی کی مشاورت سے لگایا تھا۔

اب قانون بدلے بغیر کیونکر نیب اپنی جہت بدلے گا کیونکہ قانون کی نظر میں بزنس مین ہو یا سیاستدان سب برابر ہیں، کسی ایک طبقے کو استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ احتساب عدالتوں کو ضمانت کا اختیار ملے گا، نیب عوامی عہدیداروں کے سوا کسی کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا۔ جیسا کہ سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پیپلزپارٹی کے رہنمارضا ربانی نے کہا ہے کہ نیب قانون بدنیتی پر مبنی ہے اور اس کا مقصد سیاسی افراد کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنا ہے۔

قانون پر عمل درآمد کی دعویدار اس حکومت کا تو خود ہمیشہ یہ استدلال رہا ہے، لہٰذا بہتر ہو گا اپوزیشن کے تعاون سے نیب کے قانون میں ترمیم لائی جائے تاکہ یہ صاف شفاف اور بلا امتیاز احتساب کر سکے اور اس کی مانیٹرنگ کے لیے کوئی پارلیمانی کمیٹی بھی مقرر کر دی جائے۔ نیز یہ کہ حکومت کو پکڑو، جانے نہ پائے، اپوزیشن والے چور ہیں کے اپنے بیانیے کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ ابتدائی طور پر تو یہ بات قابل فہم نہیں ہے کہ سوائے انھیں عملی سیاست سے باہر رکھنے کے لئے پکڑا جا رہا ہے۔

جو اپوزیشن رہنما اگر وہ فلائٹ رسک نہیں ہیں تو ان سے معاملات کی تحقیقات کے لیے انھیں جوق در جوق جیلوں میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ اقتصادیات کو بحال کرنے کے کچھ اور بھی لوازمات ہیں۔ مثال کے طور پر اگر شرح سود 13.25 فیصد ہو جائے تو کون مائی کا لال ہو گا جو کاروبار کو منافع بخش بنا سکے گا۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ انتہائی مستحسن قدم ہے لیکن اگر ٹیکس افسر ہر وقت بزنس مینوں کے سر پر سوار رہیں گے تو وہ کیا کاروبار کر پائیں گے۔

برسوں کی بے قاعدگیوں کو یکدم درست کرنے کی سعی کرنے کے بجائے بتدریج آگے بڑھنا چاہیے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں خاصی کمی اور ہو شربا مہنگائی کی بنا پر ہر چیز کی مانگ میں کمی بھی بزنس کلائمیٹ کو تباہ کر رہی ہے۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان کو گلہ ہے کہ بیوروکریٹس نیب کے ڈر سے فائلوں پردستخط نہیں کرتے۔ یقینا ایسا ہی ہے لیکن ایک طرف تو کرپٹ بیوروکریٹس کی روزی بند ہو گئی ہے لیکن ایماندار بیوروکریٹس بھی ڈرتے ہیں کہ کل کلاں ہمیں بھی دھر لیا جائے گا، کئی ایسے بیورو کریٹس کی مثال دی جا سکتی ہے جو گرفتار ہیں یا تفتیش بھگت رہے ہیں، اپنی صفائی میں سب کچھ پیش کرنے کے باوجود ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔

سرمایہ کاری لانے کے لیے گالی گلوچ کے اس ماحول کو بھی درست کرنا پڑے گا جس کے تحت پی ٹی آئی کے کھلاڑی اپنے بیانات اور سوشل میڈیا پر ہر شخص کو چور قرار دیتے ہیں۔ اچھی گورننس کا تقاضا ہے کہ نالائق و نا اہل وزراء اور اعلیٰ عہدیداروں کو فارغ کیا جائے اور اچھی ٹیم بنانے کے لیے باقاعدہ عرق ریزی کی جائے۔ بہت سے وزراء اپنی ”خوش گفتاری“، موٹی تگڑی سفارش یا سیاسی ضرورت کے تحت اعلیٰ عہدوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور ان کی کارکردگی ناقابل رشک ہونے کے باوجود ان کی پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے۔

یقینا خان صاحب ایک مخلوط حکومت کے سربراہ ہیں اور انھیں پارلیمنٹ میں بہت معمولی عددی اکثریت حاصل ہے۔ اس کے باوجود لیڈر شپ کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اچھی ٹیم تشکیل دے۔ امریکی مدبر سابق صدر نکسن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، لیڈر شپ کا تقاضا ہوتا ہے کہ بطور لیڈر کرپٹ لوگوں کو نکالنا آسان ہوتا ہے لیکن نا اہل لوگوں کی نشاندہی کر کے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہی خان صا حب کا المیہ ہے۔ ایک دور میں کہا جاتا تھا کہ آمریتوں کے تحت بہت ترقی ہوتی ہے، اب بھی پاکستان میں فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف کے حامیوں کے مطابق اقتصادی طور پر ان ادوار کو سنہرا قرار دیا جاتا ہے۔

یہ الگ بات ہے ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں اپنی خدمات کے عوض امریکہ سے اربوں ڈالر اینٹھنے کے باوجود انفراسٹرکچر کا کوئی بڑا پراجیکٹ نہیں لگا اور ان آمروں کے ادوار میں نہ صرف سیاسی ادارے سے تباہ ہوئے بلکہ سیاست میں کرپشن کی ابتدا بھی انہی کے تحت ہوئی اور جب بھی اقتدار پر شب خون مارا گیا تو کہا گیا میرے عزیز ہم وطنو! ہم کرپشن ختم کرنے آئے ہیں اور پھر کرپشن ہی سے صرف نظر کرنے سے ان کو فروغ حاصل ہوا۔

شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ خان صاحب کے ایک سال میں ماسوائے محاذ آرائی اور اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے جمہوریت کے فروغ کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ وزیراعظم اپوزیشن رہنماؤں سے ہاتھ ملانے کے بھی روادار نہیں۔ اسی بنا پر پارلیمنٹ میں قانون سازی مفقود ہے۔ اگلے جمعے کو صدر مملکت عارف علوی پارلیمنٹ کا ایک سال مکمل ہونے پر مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ وہ ایک سال کی کیا کارکردگی بیان کریں گے یہ انھیں ہی علم ہو گا جس کی بنا پر حکومت کو پارلیمانی جمہوریت آگے بڑھانے کے لیے اگلا صفحہ پلٹنا پڑ ے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).