ہماری لائبریری


لائبریری میں سکوت طاری ہے۔ ائیر کنڈیشنڈ کی سرد کُہر آلود ہوائیں چل رہی ہیں۔ زیادہ تر میزیں خالی ہیں۔ کہیں کہیں اِکا دُکا طالبعلم بیٹھے مطالعہ کر رہے ہیں۔ ایک کونے کی میز پر سفید کلف زدہ اوور آل پہنے ہوئے ایک خُوبرو دوشیزہ کتابوں پر جُھکی ہوئی ہے۔ اس کے حِنا مَالیدہ بال اس کے سفید اوور آل پر بے نیازی سے بکھرے ہوئے ہیں۔ ہوا کے جھونکے گزرنے پر اس کی کتھئی زلفیں دِھیرے دِھیرے کروٹیں لے رہی ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا جیسے جھکڑ چلنے پر مکئی کے بُھٹے کی مہندی رنگ ریشم ہوا میں لہرا لہرا کر اپنے پَکنے کا پیغام دے رہی ہو۔

حسینہ کا نام ماہم ہے، اس کے سامنے تین چار کتابیں بکھری ہوئی ہیں۔ ماہم سال اول کی طالبہ ہے۔ وہ اناٹومی کی کتاب سے کسی ہڈی کے فوسے (Fossa) پڑھنے اور اٹلس (Atlas) پر انہیں تلاشنے میں مصروف ہے۔

اچانک لائبریری کا ساؤنڈ پروف دروازہ کھلتا ہے۔ سال اول کا ایک بانکا نوجوان اندر داخل ہوتا ہے۔ اس نے بال جیل ( Gell) میں چُپَڑ کر درمیان سے مانگ نکالی ہوئی ہے۔ طالبعلم کا نام گلفراز ہے۔ وہ لائبریری میں نصب الماریوں اور ان میں درج کتابوں پر طائرانہ نظر ڈالتا ہے۔ کتابیں دیکھ کر اسے ایک جُھرجِھری آتی ہے۔ وہ اس غم میں گُھل رہا ہے کہ شاید ڈاکٹر بننے کے لیے یہ ساری کتابیں پڑھنی پڑھیں گی۔ اچانک اس کی توجہ پر سکون سمندر کی مخمور موجوں کی مانند نڈھال بَلونڈ (Blonde) پر جا ٹھہرتی ہے۔ اس کی کانوں کی لُویں سُرخ ہو جاتی ہیں۔ وہ چپکے سے قریبی نشست پر بیٹھ جاتا ہے اور مسلسل رخ زیبا کو دیکھے جاتا ہے۔ وہ جتنا دیکھتا جا رہا ہے اتنا ڈوبتا جا رہا ہے۔ کچھ سوچ کر اس کی دل میں عجیب خواہش جنم لیتی ہے کہ وہ ان بالوں کی بُرشی سی بنا کر اپنے گُلابی گالوں پر پھیرنا شروع کر دے گلفراز ایک کَپکپِی کے ساتھ اس خیال کو نفرت سے جھٹک دیتا ہے۔

یہیں سے محبت کی وہ لازوال داستان شروع ہوتی ہے جس کا اختتام تیسرے سال میں باہمی چپقلش یا پانچویں سال میں حسینہ کے ماموں کے بیٹے بشارت کی اِنٹری کی وجہ سے ہوتی ہے۔

جس طرح یہ مقولہ سفید جھوٹ ہے کہ کھیلوں کے میدانوں کی آبادی سے اسپتال ویران ہو جاتے ہیں، بالکل ایسے ہی اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں لائیبریری میں تشریف رکھے ہوا ہر شخص کتاب پڑھنے کو ہی آیا ہوا ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ ٹھنڈی ہوا انجوائے کرنے کو آتے ہیں یا مفت کا انٹرنیٹ استعمال کرنے۔ کچھ جَوڑے اپنی عارضی محبت کو دوام بخشنے کو کوئی ویران گوشہ تلاش کرتے ہیں اور کچھ کرونک سلیپر (Chronic sleepers ) یہاں بیٹھے بیٹھے نیند کے مزے لیتے ہیں۔ بہر حال یہاں خالصتاً پڑھائی کو تشریف لانے والوں کی تعداد خاصی مایوس کن ہے۔

یہ فرسٹ ائیر کے اوائل کی بات ہے۔ ہم اپنی آوادہ گرد طبیعت اور ایکسٹرا سیلبیٹک افیرز یعنی فضول کتب بینی کی عادت کے مارے لائبریری میں آ دَھمکے۔ سائنسز کی ہزاروں کتابوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ہم اس الماری تک پہنچے جہاں لائبریری سٹاف کے نزدیک اردو ادب کا خزانہ سمویا ہوا تھا۔

کتابوں کو اُلٹنا پَلٹنا شروع کیا تو ان کے موضوعات پڑھ کر ہمارے رونگٹے بتدریج کھڑے ہونا شروع ہو گئے۔ جو کتابیں ہماری یادداشت میں چِپک گئیں ان کے ٹائٹل کچھ یوں تھے۔

زیتون کے تیل سے بواسیر کا علاج، پیاز کے چھلکے صحت کا خزانہ، تحفہ دلہن، میٹھے امرود کیسے پیدا ہوں۔ ایک رات میں فرفرانگریزی بولیں۔ سہاگ رات کی سترہ مقبول دعائیں۔ خالص شہد کی پہچان کے بیس طریقے۔ یاجوج ماجوج کہاں چُھپے ہیں؟ عالم اسلام اور یہودی سازشیں۔ پارلیمنٹ سے بازار حسن تک اور بازار حسن سے واپس پارلیمنٹ ہاؤس تک۔ 21 بڑے سیاستدانوں کے رنگین معاشقے۔ کالا بندر اور عمرو عیار۔ ٹارزن چاند پر۔

اب خدا کے شکر سے ہمیں بَواسیر کی کوئی شکایت نہیں تھی، صحت بھی اچھی بھلی تھی۔ امرود ہم اگاتے نہیں تھے اور انگریزی سے ہماری بنتی نہیں ہے۔ یاجوجوں ماجوجوں سے ملنے کا کوئی اشتیاق نہیں تھا۔ اور سیاستدانوں کی نجی زندگیوں میں ہمیں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ دلہن ہم نے بننا نہیں تھا تو تحفہ کیا لینا۔ اور سہاگ رات کی اتنی ایڈوانس جانکاری سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہونا تھا۔

ہم جن قدموں سے داخل ہوئے انہیں سے واپس نکل آئے اور باہر نکلنے تک ہمارے رونگٹے بتدریج بیٹھ چکے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).