میرے لکھنے کے جنون میں حائل رکاوٹیں


مجھے بچپن سے ہی لکھنے کا بہت شوق تھا۔ لیکن میرا تعلق ایک سخت ماحول والے جاگیردارانہ گھرانے سے تھا۔ جہاں عورت کی ایک حدود مقرر کر دی جاتی ہے۔ جہاں کافی خواہشیں قربان کرنا پڑتی ہیں۔ اکیسں سال کی عمر میں ہی میری شادی کر دی گئی میاں یورپ ہوتے تھے کچھ عرصہ بعد یورپ آگئی زندگی کی بھاگ دوڑ میں جب اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار محسوس ہوا تو کالم لکھنے کی کوشش کی سب سے پہلی تحریر ہم سب میں بھیجی جو پبلش ہوگئی۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی کہ میرا لکھا ہوا بھی پبلش ہو گیا، اس کے بعد جیسے مجھ میں ہمت آگئی خود پہ اعتماد آنے لگا تھا۔ میں نے فیس بک اکاونٹ اور ٹیوٹر اکاونٹ پہلی بار بنایا اپنے نام سے وہاں بھی کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی۔ ٹائم کم ہوتا تھا۔ لیکن میرے اندر اتنا جذبہ تھا کہ ناشتہ بناتے ہوئے بھی ٹویٹ کر دیتی تھی اکثر لوگوں کا شکوہ ہوتا تھا کہ بات ادھوری لکھتی ہو جیسے پیچھے کوئی ہانڈی جل رہی ہو۔

پردیس میں رہتے ہوئے یا ایک اچھا ادارہ ہونے کی وجہ سے میرا ہمیشہ پاکستانی فوج کے حق میں ہی قلم اٹھتا تھا۔ نہ ہی میں نے کبھی کسی سیاسی جماعت کی خوشامد کی تھی نہ ہی کسی جماعت سے دشمنی۔ بس اختلاف تھا تو موروثی سیاست سے اور غریب عوام کے حقوق نہ دینے سے۔ مجھے اپنے قانون سے ہمیشہ سے شکایت رہتی تھی کہ وہ یورپ کی طرح امیر غریب کے لئے ایک کیوں نہیں ہے۔ خیر جو میری ناقص عقل میں آتا تھا۔ لکھ دیتی تھی اور بہت شکر گزار ہوں اپنے تمام فالورز کی جو میری ساری بونگیوں کو لائیک کرتے اور میں خود کو الطاف حسین سمجھنے لگی تھی۔

دل میں اتنا اعتماد ضرور ہوتا تھا کہ پاکستان بھائی بہن ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے قریب ہونے کا احساس پردیس کی اُداسی کم کر دیتا تھا۔ اچانک ہی مجھے خواتین کے نام کے اکاونٹ سے میسج آنے شروع ہوگئے کہ فلاں شخص آپ کا شوہر ہے؟ جب میں انکار کرتی تو کہتی نہیں آپ کا سر نیم وہی ہے اور وہ تو کہ رہے تھے کہ آپ ان کی بیوی ہو خیر کافی بار میں نے اگنور کیا بلاک کیا لیکن کچھ فرق نہیں پڑا۔ ایک بار تو میرا دل کیا کہ اپنا نکاح نامہ ہی پبلش کر دوں پھر خیال آیا کہ اس نام کے بھی کتنے لوگ ہوں گے جو دعوے دار ہوں گے کہ یہ میں ہوں اس کے پیچھے کسی کا مقصد کیا تھا۔ یا وجہ کیا تھی مجھے سمجھ نہیں آئی، لیکن مجھے توڑنے کے لئے وہ کیا کہتے ہیں۔ ٹوٹا ہوا ڈنڈا بھی برتن کے لئے کافی ہوتا ہے مجھے دکھ اور غصہ دونوں تھے کہ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے۔

کئی خیال آرہے تھے کہ واقعی ایک عورت کو دبانے کا ہتھیار ہے یا پھر عورت کے ساتھ معاشرہ ایسا سلوک کرتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے خاندان میں عورت کی حدود بنا دی گئی تھی اور ہمارے مذہب میں بھی عورت کو جنازہ وغیرہ پڑھنے سے منع کیا گیا تھا۔ یا پھر ہم جاھل معاشرے کا حصہ ہیں۔ جہاں احساس کمتری کے مارے لوگ ہیں۔ جو مرد حضرات نیٹ فشنگ کر کے عورت کے نام کے اکاونٹ بناتے ہیں۔ ہم دنیا کو کیا دکھا رہے ہیں۔ کہ ہم کیسی قوم ہیں۔ کیا ان کے ضمیر ملامت نہیں کرتے ہوں گے کیا ان کے گھر کی بیٹی یا بہن کے ساتھ ایسا ہو تو یہ برداشت کریں گے بہت سے سوال میرے ذہن میں گھوم رہے تھے اور فیصلہ کرنا تھا کہ اب لکھوں کے نہ لکھوں اپنے اندر ایک عجیب سا احساس تھا کہ پتا نہیں کب سے اور کتنے لوگ ایک دوسرے کو کہ رہے ہوں گے کہ میں ان کی بیوی ہوں یا میں ان کی گرل فرینڈ ہوں۔ ایک عجیب سی جنگ جاری تھی تو یہ تحریر لکھی آگے کیا ہوگا کچھ پتا نہیں۔ ہوسکتا ہے مجھ میں پہلے سے زیادہ ہمت آجائے یا ہو سکتا ہے میرے ہاتھ ہمیشہ کے لئے رک جائیں کچھ نہیں کہہ سکتی کاش ہماری قوم میں شعور آجائے ہر عورت کسی کی بیٹی ہوتی ہے کسی کی بہن ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).