داخلی و معاشی استحکام کے بغیر کچھ ممکن نہیں


بھارتی سرکار نے رواں ماہ کشمیر کی امتیازی حیثیت برقرار رکھنے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کر دیا تھا۔ گزشتہ ستر سالوں سے بھارت مختلف حیلوں سے کشمیری عوام کی نسل کشی کی ڈھکی چھپی کوششوں میں مصروف تھا۔ صدارتی حکم کے ذریعے مذکورہ آرٹیکل کا خاتمہ مگر کشمیری عوام کی نسل کشی کی سیدھی سادھی اور اعلانیہ ترکیب ہے۔ آج سے قبل غیر کشمیری شخص پر وادی میں جائیداد خریدنے اور ملازمت حاصل کرنے جیسی پابندیاں عائد تھیں تاکہ کشمیری عوام کی اکثریت غیر مقامی افراد کی آباد کاری کے سبب اقلیت میں تبدیل نہ ہو۔

اب اس پابندی کے خاتمے کے بعد کشمیر کا درد سر ختم کرنے کے لیے بلا جھجک وہی طرز عمل اختیار کیا جائے گا جو اسرائیل غزہ میں کر رہا ہے۔ اس مذموم عمل پر کشمیری عوام کے ممکنہ رد عمل کو دبانے کے لیے دو ہفتوں سے زائد گزرنے کے بعد بھی کرفیو نافذ ہے جس کے باعث پورا مقبوضہ کشمیر جیل بنا ہوا ہے۔ حریت لیڈر شپ کے علاوہ بھی تمام قابل ذکر لوگ گرفتار ہیں۔ عوام گھروں میں محصور ہیں انہیں نماز عید اور قربانی تک کی اجازت نہیں ملی۔ آزادی کا پیدائشی حق مانگنے والوں کو شیلنگ، تشدد اور پیلٹ گنوں کے ذریعے معذور کیا جا رہا ہے۔ محاصرے کے باعث خوراک اور ادویات کی قلت ہے اور لوگ سنگین بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ٹیلی فون، موبائل، انٹرنیٹ، میڈیا اور مواصلات کے دیگر تمام ذرائع بند ہونے کی وجہ سے وہاں کی کچھ خبر موصول نہیں ہو رہی۔

غور طلب بات ہے کہ ہماری طرف سے شور شرابے کے سوا کوئی سنجیدہ رد عمل نظر نہیں آیا۔ ہماری سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی گالیاں اور دھینگا مشتی نظر آتی رہی اور اس پلیٹ فارم سے محض ایک رسمی قرارداد منظور کرنے کے سوا دنیا کو کوئی مضبوط پیغام نہیں ملا۔ دفتر خارجہ کی بھی کوئی واضح سمت نظر نہیں آ رہی۔ سمجھ سے باہر ہے ملائیشیا اور اسپین جیسے ممالک جو عالمی منظر نامے پر نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں، ان سے رابطے سے کیا حاصل ہو گا؟

سلامتی کونسل کا مشاورتی اجلاس منعقد ہونے پر یہاں آسمان اٹھا لیا گیا۔ اس بند کمرے کے اجلاس سے کیا برآمد ہوا؟ ہمارے وزیر خارجہ پہلے ہی یہ فرما رہے تھے کہ ”سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے کوئی بھی ہماری راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ ہمیں خام خیالی میں نہیں رہنا چاہیے کوئی ہمارے لیے ہار لے کر نہیں کھڑا۔ دنیا کے اپنے مفادات ہیں اور انڈیا ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ ہم امہ کی بات کرتے ہیں مگر امہ کے محافظوں نے وہاں بھاری سرمایا کاری کر رکھی ہے“۔

اللہ کرے اعلی سطح پر اب حقیقتاً یہ سوچ پیدا ہو جائے کہ مسئلہ کشمیر ”عالمی سطح پر اجاگر“ ہونے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے کشمیر آزاد ہونا ہوتا تو ستر سال سے ہو چکا ہوتا۔ سمجھ لینا چاہیے کشمیر جب بھی آزاد ہوا اپنی ہمت سے ہو گا اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اس کے لیے مگر پہلے داخلی سطح پر استحکام اور معاشی طور پر مضبوط ہونا ہو گا۔

کشمیر کی حالیہ صورتحال اور ہماری بے بسی و تنہائی کی ذمہ داری صرف موجودہ حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ آج تک جب جب کشمیریوں پر مظالم میں شدت آئی صرف اسی وقت ہمارے دفتر خارجہ کی جانب سے رسمی مذمت کی گئی۔ وقتی طور وزیراعظم اور دیگر ریاستی اداروں کے سربراہان بھی دو چار بیانات دے دیتے تھے۔ اور پھر اللہ اللہ خیر صلہ۔ گزرے ستر سالوں میں ہم کشمیر پر اپنا قابل ذکر مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے۔ ہماری حکومتوں کو چاہیے تھا کہ تمام پارلیمانی جماعتوں اور ریاستی اداروں کی مشاورت سے ایک متفقہ کشمیر پالیسی بنائی جاتی۔

پھر دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کر کے مستقل مزاجی کے ساتھ اسے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا۔ دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی کہ یہ محض دو طرفہ تصفیہ طلب جغرافیائی مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی حقوق کی سنگین پامالی کا مقدمہ ہے۔ ہم نے ایک کشمیر کمیٹی تو قائم کر دی مگر آج تک اس پلیٹ فارم سے دنیا پر اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کے لئے کبھی کوئی لابنگ نہیں کی۔ سال میں ایک آدھ دن کشمیر کے نام کر کے ہم سرخرو ہوجاتے ہیں کہ ہمارا فرض ادا ہو گیا۔

کچھ وقت کے لئے یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ وادی کشمیر یا کشمیری عوام سے ہمارا کوئی مذہبی اور جذباتی لگاؤ بھی ہے۔ پھر بھی ثابت ہوگا کہ کشمیر کی آزادی اور اس کا حصول ہماری ریاست کے لئے نا گزیر ہے۔ ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور ہماری معیشیت کو زندہ رکھنے کے لیے پانی کی فراوانی لازم ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں پانی لانے والے تمام دریاؤں کا منبع کشمیر ہی ہے۔ وادی پر قابض بھارت جب چاہے اس پانی پر رکاوٹ کھڑی کر کے ایک گولی چلائے بغیر ہمیں زندہ درگور کر سکتا ہے۔

پچھلے چند سالوں سے بھارت کشمیر میں مسلسل ڈیموں کی تعمیر مصروف ہے، جس کی وجہ سے ہمارے ہاں قحط کی صورتحال پیدا ہوتی جا رہی ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا اور ہم نے کشمیر پر کوئی سنجیدگی نہ دکھائی تو عنقریب ہم پانی کی بوند بوند کو ترستے نظر آئیں گے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسٹریٹجک لحاظ سے قابض بھارتی افواج کی جموں کشمیر کی چوٹیوں پر موجودگی ہماری ریاست کے لئے نہایت خطرناک ہے۔ اس کی افواج جب چاہیں اپنی دور مار توپوں کے ذریعے ہمارے لئے مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔

کشمیر کی آزادی نہیں تو، ہمیں اپنی بقا کے تحفظ کی خاطر ہی اس متعلق لازما سنجیدگی دکھانا پڑے گی۔ سنجیدگی سے کسی مقصد میں جتنے کے لئے مگر فرصت درکار ہوا کرتی ہے۔ فی الوقت ہمیں آپسی دست و گریبانی سے فرصت میسر نہیں تو ہم کیسے کسی دیگر مسئلے پر توجہ دے سکتے ہیں؟ ہمارے لئے زیادہ ضروری اس وقت ملک سے چوروں اور لٹیروں کا خاتمہ ہے۔ خلاف طبیعت آوازوں کو کچلنا بھی عصر حاضر کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اپنی اپنی سیاست بچانا کشمیر کی بیٹیوں کی عزت بچانے سے کہیں زائد توجہ طلب ہے۔ کشمیر پر بھارتی راج ختم کروانے سے قبل یہ طے کرنا بھی لازم ہے کہ اس دیس پر اصل ”راج“ کس نے کرنا ہے؟ جیلوں سے ٹی وی اور اے سی کی سہولت واپس لینا پانی کے ذخائر واگزار کرانے سے زیادہ توجہ طلب امر ہے۔

اچھی بات ہے شاہ محمود قریشی کو ادراک ہو گیا کہ دنیا تو کجا ہمارے ساتھ مسلم امہ بھی نہیں کھڑی۔ لیکن کاش وہ یہ بھی سمجھ لیں کہ جب تک ہم خود اپنے مفادات اور اختلافات بھلا کر اس مسئلے پر متفق نہیں ہوں گے تو، کوئی دوسرا ملک کیونکر اپنے مفادات پس پشت ڈال کر ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا؟ نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومتی ارکان اس نازک موقع پر بھی اندرونی سطح پر اتفاق رائے کی سعی کے بجائے مزید تقسیم کو بڑھاوا دینے میں مصروف ہیں۔

خود حکومت بھی اس کنفیوژن کا شکار ہے کہ ہندوستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ ایک وزیر انڈیا سے جنگ کا بیان دیتا ہے تو دوسرے کا موقف اس کے برعکس ہے۔ وزیراعظم صاحب جھلا کر پوچھ رہے ہیں کیا میں انڈیا پر حملہ کردوں؟ حالانکہ وزیراعظم صاحب بخوبی جانتے ہیں ہمارے پاس جنگ کے علاوہ بھی انڈیا کو راہ راست پر لانے کے آپشنز موجود ہیں۔ مسئلہ مگر وہی ہے ان آپشنز کو بروئے کار لانے کے لیے معیشیت مضبوط ہونا لازم ہے۔ کون نہیں جانتا کہ خراب معاشی حالت کے سبب ایف اے ٹی ایف کی بلیک میلنگ میں آ کر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑے نہ چلائے ہوتے تو آج انڈیا کو اس اقدام کی جرات نہ ہوتی۔ لہذا اگر حکومت واقعتا کشمیر کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے ملک میں جاری ہیجان ختم کر کے داخلی و معاشی استحکام پیدا کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).