جنم جنم کا دکھ سہتی مامتا


بابل کے در و دیوار سے جڑے رشتوں کی اپنائیتوں سے لپٹ لپٹ کے روتی کے آنچل کا پلو اجنبی نوشہ کی اچکن سے باندھ دیا گیا تومجازی خدا کے مسکن میں پاؤں دھرتے ہی بیگانگی کے واہموں میں جا پڑی۔ چوکھٹ پکڑوائی کی رسم کی ادائیگی کے دوران ڈری سہمی سماعتوں میں اس کی ہم عمر مامتائی نصیحت گونجنے لگی، بٹیا! شریف زادیوں کی ڈولیاں شوہر کی چوکھٹ میں داخل ہوتی ہیں تو جنازے کی صورت باہر آیا کرتی ہیں۔ سوچوں میں پلتے خوابوں کے شیش محل چھناک کی آواز کے بغیر اُس وقت چکنا چور ہوگئے جب پیا گھر صرف ایک کمرے پہ مشتمل چاردیواری تک سے محروم مقدر ٹھہرا۔

دیہاڑی دار شوہر کی شام کو ملتی کمائی سے ملتی گیلی لکڑیوں کو پھونکیں مار مار کے چولہا جلاتی کی دُکھتی آنکھوں میں سجے اولاد نرینہ کے سپنے اس وقت دھواں دھواں ہوگئے جب درد زہ کی چیخیں بیٹی کی ولادت پہ آ مُنتج ہوئیں۔ طنز و تشنیع کے تیروں کی بارش میں یہ مشق ستم اس وقت تک جاری رہی جب تک نخز نرینہ سے گود ہری نہ ہوگئی۔ مشقت کشی کے تسلسل میں چار بیٹیوں کے بعد بیٹے سے جڑے نیک شگون نے بالآخر بات بات پہ منہوس کہلانے والی کی پیشانی پہ سرخروئی مرتسم کر دی۔

بچپنے کی معصومیت کو پیچھے چھوڑتیں چاروں بیٹیاں امربیل کی مانند بام شباب پہ چڑھنے لگیں تو ادھر گھر کے در و دیوار کے ساتھ ساتھ ماں کے پر بھی چھوٹے پڑنے لگے۔ توہمات کے زنداں میں اکثر سوچا کرتی کہ کاش دن بڑے ہوجائیں تو شاید دیہاڑی کی قیمت بھی بڑھ جائے کیونکہ اب تو اس کا بہانہ کہ مجھے بھوک نہیں دوسروں کی بھوک کو مٹانے کے لئے ناکافی ہوچکا تھا۔ سُوکھی صحرائی زمین میں خاردار بُوٹی کی مانند خود رو سوال کی چبھن اکثر اس سے پوچھا کرتی کہ جوانی کی دہلیز میں کون سی ایسی کھاد پڑی ہے کہ مہینوں گوشت کی شکل سے محروم ہڈیوں پہ بپھرتا گوشت ایک دم ابدان کی چاردیواری سے جھانکنے لگتا ہے۔

آئے دن چھوٹے پڑتے ملبوسات میں گڑتی گِدھوں کی نگاہوں سے گھبرا اٹھتی سوچوں میں طرح طرح کے واہمے در آتے کہ مہتاب مثل جبینوں پہ کوئی کالک مل گیا تو۔ جُھرجُھری لیتی نسرین کا خوف بھائی کے دیرینہ کنوارے پن کی مایوس تاریکی میں چاند بن کے ابھرا اور یوں لباسِ ہُنَّ کی تلاش میں لیلیٰ اپنے ماموں کے وٹے سٹے کی بھینٹ چڑھتی ناشناسا مجنوں کی پالکی میں سوار ہو گئی۔ نئی دلہنیا کو پہلا جھٹکا تب لگا جب پڑوسن نے بتایا کہ دیورجی چوری و قتل کے الزام میں جیل کاٹ چکے ہیں لیکن گُھٹی میں ملے سبق نے گلا گھونٹ لیا کہ شوہر کے گھر سے واپسی صرف نعش کی صورت ممکن۔

پُھول جیسے گال پہ پہلا پُھول اس وقت کاڑھا گیا جب پُھولی پھالی نند کے پُھولے چہرے کو واپس اصلی حالت میں لانے کے لئے شوہر نے پہلا تھپڑ رسید کیا۔ اورپھر یہ نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا کہ کرموں جلی ایک بٹیا کی ماں بن بیٹھی۔ پچھلے دوسالوں سے تھپڑوں، مُکّوں، لاتوں کے وار بے چُوں و چراں اپنے بدن پہ سہتی کے اندر مامتا کیا اُتری چند ماہ کی ننھی گڑیا کے کملائے مُکھڑے کو برداشت نہ کر پائی۔ شوہر نے معمولی بخار قرار دے کر ٹالنا چاہا تو تمام بندھنوں کو توڑتی ماں اپنی ماں کے گلے لگ لگ کے پُھوٹ پُھوٹ کے پھٹ پڑی۔ سسک سسک کے سسکیاں بھرتی لیلیٰ اپنی بٹیا کی زندگی کی بھیک مانگتی کہہ رہی تھی، اماں، ماموں کے گھر بچانے کی خاطر میں نے سارے دُکھ جھیلے لیکن اپنی اولاد کوبے بسی کی موت نہیں مرنے دوں گی۔ دیر تلک دونوں طرف سے آنسوؤں کی ماتم داریاں حوا زادیوں کے دُکھوں کا ایک دوسرے کو پرسہ دیتی رہیں۔

11 اگست کا سورج گہری نیند سو چکا تھا۔ دن بھررنگ برنگے جانوروں کے ساتھ کلکاریاں مارتے بچوں سے سجتے گونجتے گلی کُوچے ویران پڑے تھے۔ کبھی کبھی لاہورجاتی سڑک پہ انجن کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ کسی گاڑی کے ہارن کی آوازکا پیچھا کرتے کتوں کے بھونکنے کی آواز دُور ہوتی کہیں دُوریوں میں گم ہو جاتی تھی۔ آج بھی اس نے فرشی پنکھے کے سامنے چارپائیوں کی قطار کے آخر میں چارپائی یہ کہہ کے ڈالی تھی مجھے پنکھے کی ہوا اچھی نہیں لگتی۔

پچھلے چار مہینوں سے لیلیٰ کے گھرنہ بسنے کا دُکھ اس کی چھاتی میں رُندھ گیا تھا۔ پھر اچانک سے اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس رات کا منظرپوری ہولناکیوں کے ساتھ آ کھڑا ہؤا جب پستول کے زور پہ اس کی نواسی کو رضوان نے چھینا تھا۔ گڑگڑا گڑاگڑا کے پاؤں پکڑتی بے بسی سفاکیت کے سامنے ڈھیر ہوگئی تھی۔ خوفناکیوں کی آغوش میں اللہ جانے کیسے آنکھ لگی ہی تھی کہ پانی کے گرنے جیسی آواز پہ بدک اٹھی تو داماد پٹرول چھڑک رہا تھا۔

بازووں سے منہ چھپاتی کی فلک شگاف چیخ نے جیسے دیا سلائی دکھا دی آنا فانا آگ بھڑک اٹھی۔ بھڑکتے شعلوں کے چنگل سے رہائی دلانے والی بیٹی ماں کو بچانے کی خاطر آگ سے لڑ پڑی۔ زندگی کے دکھوں کی جلن سے لڑتی نسرین آج نشتر ہسپتال ملتان میں بدن کی جلن میں جلتی بلتی اکھڑتی سانسوں کے جسم سے ٹوٹتے رشتے کی تار تار کی شکستگیوں کی اذیتوں کو اپنی رؤاں رؤاں میں اتارتی کے آخری الفاظ تھے ہے کوئی مسلمان جو مجھے انصاف دلا دے۔ اللہ جانے قرطاس تقدیر پہ جنم جنم کا دکھ سہتی مامتا کب تک تحریر ہوتی رہے گی کہ ماں کے جنازے کی پائنتی پکڑ پکڑ کے دھاڑیں مارتی لیلیٰ کو منہوس پکارنے والے چہروں نے ابھی سے نتھنے چڑھانے شروع کر دیے ہیں۔

راقم نے چند روز قبل فیس بُک پہ مظلومہ کی دہائی پوسٹ کی۔ مظلومہ کے جلتے بدن کی تصاویر دیکھتے ہی کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔ تمام احباب نے اس کو وائرل کرنے میں اپنے حصے کا دیا جلانے کا کرداربخوبی ادا کیا۔ اگلے دن ہی نئے تعینات ہونے والے ڈسٹرکٹ پولیس افسر بھکر فیصل گلزار نے درد شناسی و فرض شناسی کے تمام تر تقاضے پورے کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کی داد رسی کے لئے نہ صرف سرگرمیاں تیز کر دیں بلکہ براہ راست اپنی نگرانی میں پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو احسن انداز میں نباہتے ہوئے مفرور مجرم کو قانونی گرفت میں آنے پہ مجبور کر دیا۔ کل ہی مجھے بیت المال دفتر سے کال پہ بتایا گیا کہ جناب عون عباس مینیجنگ ڈائریکٹر پاکستان بیت المال نے مظلومہ کے علاج معالجے اور مالی امداد کے لئے اقدامات کا اعلان کیا تھا۔

قارئین کرام۔ خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ لیکن وطن عزیز میں عائلی زندگی کے لئے کی جانے والی قانون سازی کا احاطہ اس قدر تنگ ہے کہ روزانہ اخبارات کے کالے حروف، برقی پردوں پہ دکھائی دیتی دختران حوا کی داستانیں چلّا چِلّا کے انسانیت کوجھنجھوڑ رہی ہوتی ہیں لیکن ایوانوں میں بیٹھے تخت نشینوں کے کان پہ جُوں تک نہیں رینگتی۔ شادی بیاہ کے رسوم ورواج کو لگام دینے کے ساتھ ساتھ ایسے قانونی بیرئیرز لگائے جائیں کہ بے راہ روی کو راستہ نہ مل سکے۔ محلے اور گاؤں کی بنیاد پہ مصالحتی کونسلز کو با اختیار اور فعال بنا کر بھی ایسی مشکلات کی راہ سدھائی جا سکتی ہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کُھلے پٹرول کا گیلن حملہ آور کی رسائی میں کیسے آیا۔ یقینا ذمہ داران کو شامل تفتیش کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).