کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ ہلاکتوں کی تصدیق


کشمیر

کشمیر میں اگرچہ کئی علاقوں سے کرفیو اٹھا لیا گیا ہے لیکن ابھی بھی صورتِ حال قابو میں نہیں ہے اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس کا کہنا ہے کہ بارہ مولا ضلع میں مشتبہ جنگجوؤں کے ساتھ ایک جھڑپ میں ایک پولیس آفیسر اور ایک جنگجو ہلاک ہو گیا ہے۔

یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انڈیا کے حکام نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد وادی میں کسی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ کارروائی کے بعد اسلحہ اور آتشی مادہ بھی قبضے میں لیا گیا ہے۔

وادی میں کرفیو و لاک ڈاؤن کی صورتحال کو آج سولہواں دن ہے اور اب جموں و کشمیر کے چند علاقوں سے پابندیوں میں نرمی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں مگر حالات اب بھی معمول پر نہیں آئے ہیں۔

جموں و کشمیر

ایک کشمیری خاندان سرینگر کے ایک پولیس سٹیشن کے باہر اپنے زیرِ حراست رشتے دار سے ملنے کے لیے کھڑا ہے

جموں و کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے سامعین کو باخبر رکھنے کے لیے بی بی سی کے خصوصی ریڈیو پروگرام نیم روز میں بدھ کے روز گفتگو کرتے ہوئے بی بی سی کے نمائندے عامر پیرزادہ کا کہنا تھا کہ سرینگر میں حکومت نے بہت سے علاقوں سے پابندیاں مکمل طور پر اٹھا لی ہیں جن میں سرینگر سول لائنز، راج باغ ایریا اور سینٹرل سرینگر کے علاقے شامل ہیں۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ اولڈ سرینگر، ڈاؤن ٹاؤن اور صورہ میں ابھی پابندیاں صرف کچھ حد تک اٹھائی گئی ہیں جبکہ وہاں سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی ہے کیونکہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں ابھی بھی چھوٹے بڑے پیمانے پر پتھراؤ اور سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ تصادم کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ: ’کل ہم شوپیاں گئے تھے جسے پچھلے پانچ سالوں کی تاریخ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مقامی عسکریت پسندی کا مرکز مانا جاتا ہے۔ وہاں شوپیاں کے مرکزی شہر میں کوئی سیکیورٹی نہیں تھی۔ ساری سیکورٹی اٹھا لی گئی تھی۔ لیکن عجیب سی بات یہ تھی کہ اس کے باوجود نہ کوئی دکان کھلی ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی سویلین سڑک پر تھا، حالانکہ کرفیو نہیں تھا۔‘

عامر پیرزادہ کے مطابق انھوں نے جب مقامی لوگوں سے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’کرفیو ختم ہوا ہے مگر ہماری ناراضی ختم نہیں ہوئی۔‘

مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے راتوں کو ان کے گھروں پر چھاپوں میں ان کے بہت سارے بچوں اور آدمیوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

عامر پیرزادہ کا کہنا تھا کہ وہ ان حراستوں سے متعلق سرکاری حکام سے بات نہیں کر پائے کیونکہ فی الوقت کوئی دستیاب نہیں تھا۔

مگر ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ سوال گزشتہ ہفتے جموں و کشمیر حکومت کے پرنسپل سیکریٹری سے پوچھا تھا کہ کتنی گرفتاریاں اور حراستیں ہوئی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ گرفتاریاں مرکزی طور پر نہیں ہوئیں بلکہ ضلعی اور تحصیل کی سطح پر ہوئی ہیں اور اس حوالے سے ان مقامی اہلکاروں نے اب تک اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔

عامر پیرزادہ نے بتایا کہ نیشنل کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی قیادت پانچ اگست سے اب تک نظر بند ہے اور ابھی تک کسی کو ان کی موجودہ صورتحال سے متعلق علم نہیں ہے اور حکومت کی طرف سے بھی ان گرفتاریوں کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان نہیں آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر: ’ایسی خبریں ملتی ہیں کہ نیند نہیں آتی‘

کشمیر: ’خدشات اور خوف میں مزید اضافہ ہو رہا ہے‘

کشمیر: ’جو اس بار ہو رہا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا‘

انھوں نے بتایا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے حکم آیا تھا کہ آج سے مڈل سکولز کھلیں گے ’مگر کل تک ہم جو زمین پر صورتحال دیکھ پائے وہ یہ تھی کہ کچھ سکول ویسے ہی بند تھے جبکہ کچھ سکولوں میں سٹاف آ چکا تھا مگر بچے نہیں آئے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’بہت سارے بچے آئے تھے اور اس کی جانب سے ضلعی اور تحصیل کی سطح پر اعداد و شمار بھی جاری کیے گئے ہیں، مگر جہاں تک ہم جا پائے، وہاں تک ہماری ملاقات کسی بھی سکول کے بچے سے نہیں ہوئی۔‘

’ہم نے بہت سے سکولوں پر تالا دیکھا، پرسوں ہم پولیس پبلک سکول گئے تھے جو کہ پولیس کے زیرِ انتظام ہے، وہاں پر بھی سٹاف آ چکا تھا مگر کوئی بھی طالبِ علم موجود نہیں تھا۔‘

جموں و کشمیر

سرینگر میں ایک کشمیری نوجوان بحال ہونے والے چند ٹیلیفونز میں سے ایک کے ذریعے رابطہ کر رہا ہے

رابطوں اور رسد کی صورتحال

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں رابطہ کاری میں حائل دشواریوں پر بات کرتے ہوئے عامر پیرزادہ کا کہنا تھا کہ اس لاک ڈاؤن کو ابھی تقریباً 15 دن ہو گئے ہیں مگر اب بھی صرف لینڈ لائن بہت تھوڑی تعداد میں کھولی گئی ہیں وہ بھی صرف سینٹرل سری نگر سول لائنز میں۔ اکثریتی کشمیر میں ابھی تک کوئی رابطوں کی سہولت موجود نہیں ہے، اور لوگ اپنوں تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔

’رابطوں پر جو پابندی ہے اس کی وجہ سے خبریں ہم سے بہت دور ہیں جس کی وجہ سے ہم صرف آنکھوں دیکھا حال ہی بیان کر پا رہے ہیں۔‘

اشیائے خورد و نوش اور دواؤں کی فراہمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پانچ اگست کو جب یہ لاک ڈاؤن باقاعدہ شروع ہوا، اس سے پہلے حکومت کے بہت سارے احکامات لیک ہوئے تھے جن میں نیم فوجی دستوں کی تعیناتی، راشن اور ایندھن ذخیرہ کرنے، ڈاکٹروں کو ہسپتالوں میں موجود رہنے اور ہسپتالوں کو ضروری اشیاء اور دوائیں ذخیرہ کرنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔

’ان سب نے کشمیر میں ایک افراتفری کو جنم دیا تھا، جس کی وجہ سے ہر کشمیری نے اس شک کا اظہار کیا تھا کہ شاید کشمیر میں کچھ بڑا ہونے والا ہے اس لیے تمام لوگوں نے ضروریاتِ زندگی، گیس، راشن اور دواؤں اور ایندھن کو ذخیرہ کرنا شروع کر دیا تھا۔‘

جموں و کشمیر

سرینگر کے ایک ہسپتال میں مظاہروں کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو طبی امداد دی جا رہی ہے

’اگر مجموعی طور پر بات کریں، جیسے کہ شوپیاں، تو حکومت کی طرف سے وہاں کوئی پابندی نہیں ہے، لوگوں کو چلنے دیا جا رہا ہے، سڑکوں پر ٹریفک ہے اور پرائیوٹ گاڑیاں چل رہی ہیں، مگر پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے، دکان کھولنے والے نہیں ہیں، ساری دکانیں اور پبلک ٹرانسپورٹ بند ہیں۔‘

‘اس سکون میں کہیں ڈر بھی ہے، خوف بھی، جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجنے سے اور لوگ اپنی دکانیں کھولنے سے ڈر رہے ہیں۔‘

بڈگام: سکول یا بند ہیں یا خالی

بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور نے بھی سری نگر سے ملحقہ ضلع بڈگام کا دورہ کیا اور دیکھا کہ وہاں بھی اکثر سکولوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پچھلے تین دن سے حکومت کی یہ کوشش ہے کہ کشمیر میں کام کاج شروع ہو جائے، درس و تدریس کا عمل شروع ہو جائے۔ پرسوں کہا گیا کہ پانچویں جماعت تک سکول کھولے جائیں گے لیکن اس دن کسی بھی سکول میں کسی طرح کا تدریسی عمل نہیں ہوا حالانکہ کچھ سکولوں میں ہم نے دیکھا کہ چند اساتذہ موجود تھے لیکن ضلع بڈگام کے پاؤڑہو علاقے میں آئے ہیں جہاں گورنمنٹ مڈل سکول ہے جو کہ تالا بند ہے۔

’آج بھی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ سکول شروع ہوں گے لیکن آج بھی ہم نے دیکھا کہ سری نگر کے پوش علاقوں میں بھی سکولوں میں کوئی سرگرمی نہیں ہے۔‘

بی بی سی کے نامہ نگار نے پاؤڑہو کے گورنمنٹ مڈل سکول کے مقامی ہیڈ ماسٹر سے بات کی اور پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اب تک طالب علم غیر حاضر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بنیادی وجہ یہ ہے کہ بچے ڈرے ہوئے ہیں۔ ’ان کے والدین بھی ڈر کی وجہ سے انھیں سکول نہیں آنے دیتے کہ کہیں انھیں کچھ ہو نہ جائے۔‘

بی بی سی نے وہاں سکول کے کچھ سابق طالب علموں سے بھی بات کی۔

ایک سابق طالب علم نے بتایا کہ ’یہاں پر حالات ہی ایسے نہیں ہیں کہ بچے سکول آ پائیں۔ آج کل پورے کشمیر میں حالات خراب ہیں کون سکول آئے گا۔ والدین بھی بچوں کو سکول آنے سے روکتے ہیں اور یہاں کے مقامی لڑکے بھی سکول نہیں کھولنے دیں گے کیونکہ یہاں حالات ہی ٹھیک نہیں ہیں۔ آئین سے ہمارے آرٹیکل کو انھوں نے توڑا جو بہت بڑی غلطی ہے۔‘

پانچ اگست کے بعد علاقے میں نہ صرف خوف اور دہشت ہے بلکہ اس حوالے سے نوجوانوں میں ناراضی بھی پائی جاتی ہے۔ حالانکہ بڈگام سری نگر کے ساتھ ہی ملحقہ ضلع ہے اور سری نگر اور دوسرے ضلعوں کے مقابلے میں یہ غیر حساس ہے لیکن یہاں بھی لوگ ناراض ہیں اور بچے خوف کی وجہ سے سکولوں کا رخ نہیں کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp