سرینگر: ’لوگوں میں غصہ اور مایوسی ہے‘: رتول جوشی کی رپورٹ


سرینگر — میرے کمرے کی لینڈ لائین نے رات میں کام کرنا بند کر دیا تھا۔ میں نہیں جانتی آیا کسی نے رات کو مجھے کال کرنے کی کوشش کی۔ اس بات کا بھی نہیں پتا کہ یہ آج بھی کام کرے گا یا نہیں؟ کل مجھے اپنی اِی میل استعمال کرتے ہوئے بھی بہت دقت ہوئی۔ مزید وقت برباد کرنے کی بجائے، آج میں زبیر کی اِی میل استعمال کروں گی۔

اس شہر کے بارے میں میرے تاثرات درج ذیل ہیں :
لوگوں میں غصہ ہے، بہت زیادہ غصہ۔ لوگوں میں مایوسی ہے کہ ان کی آواز دبائی جا رہی ہے۔ بلکہ، اس سے بڑھ کر یہ کہ ان کی آواز کوئی سن نہیں رہا۔ لوگوں میں ریاست کی جانب سے احساس بیگانگی اور ترک کیے جانے کا احساس بڑھ رہا ہے۔

سڑکوں پر امن تو ہے مگر بڑی تعداد میں فوج کی موجودگی اسے دہشت ناک بنا رہی ہے۔ کسی بھی بڑے احتجاج کے نہ ہو سکنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کشمیر کی تمام لیڈرشپ، کیا سیاسی یا علیحدگی پسند، سب ہی زیر حراست ہیں۔ وادی میں کوئی لیڈر نہیں جو عوام کو بتا سکے کہ وہ کیا کریں۔ احتجاج اور پتھراؤ کے اکا دکا واقعات ہوئے ہیں مگر انہیں جلد ہی کنٹرول کر لیا گیا۔ مزید براں، لوگوں کو بڑی تعداد میں جمع نہیں ہونے دیا جا رہا کیوں کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ ہجوم میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ ساؤرا میں بی بی سی کی جانب سے احتجاج کی کوریج کے بعد سے انتظامیہ اس معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہو گئی ہے۔

سڑکوں پر ٹریفک بہت کم ہے اور لوگ باہر نکلنے سے احتراز برت رہے ہیں۔ اگرچہ شام کو ہلکی پھلکی سیر اور ہمسایوں سے گپ شپ کے لیے لوگ باہر ضرور نکلتے ہیں۔ ورنہ وہ اپنے گھروں میں رہنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں، ایسی حالت میں کہ باہر کی دنیا سے رابطے کا کوئی ذریعہ ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ لینڈ لائنز نہ کھولنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اب بہت کم لوگوں کے پاس لینڈ لائن فون ہے اور ملک کی اکثر آبادی کے پاس موبائل فون ہیں۔

جموں اور کشمیر کی پولیس میں بھی بے چینی کے پائے جانے کے آثار ہیں ؛ اور اس معاملے میں انتظامیہ میں بھی ڈر پایا جاتا ہے کہ کوئی بغاوت نہ ہو جائے۔ اسی لیے، انتظامیہ بہت احتیاط برت رہی ہے۔ اسی لیے ہر پولیس سٹیشن میں سیکورٹی کی اوپری تہہ ’سی آر پی ایف‘ کی ہے، جو نیم فوجی فورس ہے۔ جہاں بھی جموں و کشمیر پولیس ڈیوٹی دے رہی ہے وہاں ان کے ساتھ ’سی آر پی ایف‘ بھی موجود ہے۔ یہی حال ہمارے ہوٹل میں بھی تھا۔ دوسری جانب، جموں کشمیر پولیس کی تنخواہیں، ان کے الاؤنسز جن میں رسک الاؤنس، گھر کا کرایہ اور میڈیکل پیرا ملٹری فورسز کے برابر کر دیا جائے گا۔ یہ ان کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ ہے اور کسی قسم کے غصے کو ختم کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔ اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں یہ وقت ہی بتائے گا۔

اکثر کشمیری بین الاقوامی برادری سے مایوس ہوا ہے، خصوصاً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے جموں کشمیر پر بند کمرہ اجلاس سے۔ مگر میں ایسے چند لوگوں سے ملی ہوں جن کا کہنا تھا کہ وہ اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس صورت حال پر نوٹس لے۔ لوگوں کا پاکستان پر بھی اعتماد بہت کم ہے۔ جن لوگوں سے میرے بات ہوئی ہے ان میں سے اکثر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کیا کر لے گا‘ ۔ یہاں آزادی ہی غالب بیانیہ ہے۔

بھارت کے مین سٹریم میڈیا کو یہاں ’ولن‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ چھ کیمرہ ٹیموں پر تشدد کیا جا چکا ہے اور ایک ٹیم کا ساز و سامان تباہ کر دیا گیا۔ اداغ میں زبیر اور میں نے بھی ایک طرح کا ہجوم کا غصہ سہا ہے۔ اداغ بہت حساس زون ہے اور احتجاج اور پتھراؤ کا مرکز ہے۔ ان کا طریقہ کار بہت سیدھا سادھا ہے۔ جب آپ اس زون میں داخل ہوتے ہیں تو کچھ لوگ آپ سے بات کرنے کے لیے آگے آ جاتے ہیں۔ آپ اس بات کا اندازہ نہیں کر پاتے کہ پیچھے بہت سے لوگ موجود ہیں اور جیسے ہی وہ لوگ جو آپ سے بات کر رہے ہیں انہیں اشارہ کرتے ہیں بہت سے لوگ دھیرے دھیرے آپ کو گھیر لیتے ہیں اور آپ کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ ان میں سے اکثر 14 سے 20 برس کے نوجوان ہیں اور ان میں بہت غصہ بھرا ہوا ہے۔ جس ہجوم نے ہمیں گھیرا تھا اس نے ہمیں اس لیے جانے دیا کہ زبیر نے ان سے کشمیری زبان میں تبادلہ کیا اور کیوں کہ میں ایک عورت ہوں۔

دہلی سے آئی ہوئے میرے میڈیا کے چند دوستوں نے مجھے بتایا کہ انہیں منفی خبریں رپورٹ کرنے سے روکا گیا ہے اور کشمیر میں ترقی سے متعلق خبریں کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس لیے کشمیریوں کا یہ گلہ جائز ہے کہ ہندوستانی میڈیا تصویر کا صحیح رنگ نہیں دکھا رہا۔

پیر باغ کے قدرے متمول علاقے سے ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”پتھراؤ بھی ایک طرح کا اظہار کا ذریعہ ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں کو آزادی اظہار کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ “

میں صرف یہ بتانا چاہتی ہوں کہ کشمیر کے نوجوانوں میں آزادی اظہار کا کس قدر مسخ شدہ تاثر پروان چڑھ رہا ہے۔ پتھراؤ کرنے والے بہت سے نوجوانوں کو تو اس بات کا علم ہی نہیں کہ آرٹیکل 370 کیا ہے اور اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟

ذاتی طور پر میرے لیے سب سے زیادہ پریشانی کی بات یہ تھی کہ اکثر لوگ ٹی وی پر آنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ کچھ لوگ بات کرتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں مگر جیسے ہی کیمرہ آن کیا جاتا ہے وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ ان کی کہانیاں رپورٹ ہی نہیں ہوں گی۔ کچھ تو میڈیا سے بات کرنے کو پسند ہی نہیں کرتے اور بہت سے دوسرے سمجھتے ہیں کہ کیمرے پر آنے سے انہیں خطرہ ہو سکتا ہے۔ اکا دکا نظر آنے والے پھل فروش اور دکان دار جو کام پر نکل آئے تھے انہوں نے بھی کیمرے پر فلمائے جانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ انہیں ’غدار‘ کہا جائے گا۔

میں نہیں جانتی کہ میرے خیالات جاننے سے کوئی مدد ملے گی مگر میں نے جو حالات سے اخذ کیا ہے اس کا اظہار کرنا چاہتی ہوں۔ میں انتظامیہ سے بات کرنے اور ان کا موقف جاننے کی کوشش کروں گی۔ لوگوں سے بات کرنے اور ان کی کہانیاں جاننے کی بھی کوشش کروں گی۔ رابطہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ سوائے اس کے کہ جب ہم میڈیا سینٹر میں ہوتے ہیں جہاں ہمیں اپنی اِی میل اکاؤنٹ تک رسائی حاصل ہوتی ہے، ہم مکمل طور پر دنیا سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔

رتول جوشی وائس آف امریکہ اردو سروس کی نئی دہلی میں نمائندہ ہیں جو اس وقت سرینگر میں ہیں اور وہاں سے کیمرہ مین زبیر ڈار کے ہمراہ رپورٹنگ کر رہی ہیں۔
بشکریہ وائس آف امریکہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).