قیام پاکستان کے بعد دو قومی نظریہ ۔۔۔ چودہ سوال


مسلم لیگ نے متحدہ ہندوستان میں یہ نظریہ پیش کیا کہ ہندوستان میں ایک نہیں بلکہ دو قومیں بستی ہیں۔ اس سوال کو فی الوقت ایک طرف رکھ دینا چاہئے کہ ہندوستان میں صرف ہندو اور مسلم دو قومیں کیوں تھیں؟ ہندوستاں میں بسنے والے مسیحی، پارسی اور سکھ قوم کا درجہ کیوں نہیں رکھتے تھے؟ ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ مسلم لیگ نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ہندوستان میں دو قومیں بستی ہیں۔ چنانچہ آزاد ہندوستان میں دو ریاستیں بننی چاہئییں۔ طویل آئینی بحران کے نتیجے میں مسلم لیگ کا یہ موقف تسلیم کر لیا گیا۔ پاکستان اور ہندوستان وجود میں آگئے۔ یہ دونوں قومیں گزشتہ 70 برس سے موجود ہیں۔ پاکستان کے سیاسی ارتقا اور اجتماعی مکالمے کے تناظر میں درج ذیل سوالات پوچھنے کی ضرورت ہے۔

  1. اگر پاکستان ایک قوم ہے تو اس کا اب دو قومی نظریہ سے کیا تعلق ہے؟
  1. برطانوی حکمرانوں، آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس سمیت تمام سیاسی فریقوں نے دو ریاستوں کے قیام پر اتفاق کر لیا۔ پاکستان ایک قوم کے طور پر وجود میں آیا۔ اب یہاں دو قومی نظریے پر اصرار کا مطلب کیا ہے؟
  1. پاکستان کی ریاست بین الاقوامی نقشے پر ایک آزاد ریاست ہے یا اس کا ہندوستان کی ریاست کے ساتھ جغرافیائی ہمسائیگی کے علاوہ بھی کوئی آئینی تعلق ہے؟ اگر ایسا کوئی تعلق نہیں تو پاکستان کے باشندوں سے اس دو قومی نظریے پر اصرار کیوں کیا جائے جو اب ماضی کے ایک سیاسی موقف کی حیثیت رکھتا ہے؟
  1. 1971 میں پاکستان سے بنگلہ دیش الگ ہو گیا۔ 1947 کے متحدہ ہندوستان میں اب تین خود مختار اور آزاد ریاستیں موجود ہیں۔ کیا پاکستان بنگلہ دیش پر کوئی دعویٰ رکھتا ہے؟ کیا 1947 کے تناظر میں دو قومی نظریہ اب تین قومی نظریہ بن چکا ہے؟
  1. اگر پاکستان ایک قوم ہے تو اس میں مختلف مذاہب کی بنیاد پر اقوام کی تشکیل کا نظریہ برقرار ہے یا وہ آزادی کے بعد ختم ہوچکا ہے؟
  1. اگر پاکستانی قومیت کی تشکیل عقیدے کی بنیاد پر ہونا ہے تو کیا پاکستان کے غیر مسلم باشندے ایک آزاد ملک کے شہری اور برابر کے شہری ہیں؟ یا ان کی حیثیت مسلمانوں سے الگ ہے؟
  1. اگر پاکستان کے شہریوں میں درجہ بندی کا کوئی تصور پایا جاتا ہے تو اس امر کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ ایسے شہریوں کی الگ حیثیت کا تعین 14 اگست 1947 کو کیا گیا تھا؟
  1. کیا اس امر کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ مسلم لیگ نے پاکستان کی موعودہ ریاست میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو سونپنے کے بارے میں کبھی کوئی دستاویزی عندیہ دیا تھا۔
  1. 15 اپریل 1941 کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ مدراس میں پاکستان کو مسلم لیگ کا نصب العین بیان کیا گیا تھا۔ کیا اس موقع پر پاکستان کے ممکنہ غیر مسلم شہریوں کو مطلع کیا گیا تھا کہ پاکستان مین حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہو گی؟
  1. اگر قرار داد مقاصد پاکستان کے مسلمان شہریوں اور غیر مسلم باشندوں کے مابین عمرانی معاہدے کی حیثیت رکھتی ہے تو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں کسی ایک بھی غیر مسلم رکن نے اس معاہدے کی تائید کیوں نہیں کی؟
  1. 8 اپریل 1950 کو نئی دہلی میں پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان اور بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جو لیاقت نہرو معاہدہ کہلایا۔ اس معاہدے میں ضمانت دی گئی تھی کہ دونوں حکومتیں اپنے اپنے علاقوں میں اقلیتوں کو بلا امتیاز مذہب، شہری حقوق میں مکمل برابری کا درجہ، جان، مال، عزت و آبرو اور ثقافت کا تحفظ، نقل و حرکت کی آزادی اور تقریر و تحریر اور کاروبار اور عبادت کی آزادی دیں گی۔ 10 اپریل 1950 کو دونوں ممالک کی اسمبلیوں نے اس معاہدے کی توثیق کی۔ کیا پاکستان کے غیر مسلم شہری اس معاہدے کے عملی اطلاق پر بحث کر سکتے ہیں؟
  1. اگر پاکستان کے غیر مسلم شہری برابر کے شہری حقوق نہیں رکھتے تو کیا ان کی آزادی کا ایجنڈا ابھی نا مکمل ہے؟
  1. اگر پاکستان میں دو قومی نظریہ پر اصرار کیا جاتا ہے تو کیا اس میں موجودہ بھارت کے مسلمان شہریوں کی رائے کو بھی کوئی درجہ دیا جائے گا؟
  1. ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ ایک سیاسی موقف تھا یا عقیدے کا حصہ تھا؟ اگر یہ عقیدے کا حصہ تھا تو اس عقیدے کا اطلاق ہندوستان اور پاکستان کے حصے میں آنے والے مسلمانوں کے لئے الگ الگ کیوں ہوا؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments