حیا فاطمہ اقبال: موسمیاتی تبدیلی کو خطرہ سمجھنا اچھی بات ہے مگر یہ کافی نہیں


’ہمیں شور مچانا چاہیے جب ہمارے ملک میں کوئلے کا پلانٹ لگتا ہے اور پھر سے کوئلے کی کھدائی شروع ہوتی ہے۔ ہمیں اسے ملک و قوم کی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھنا چاہیے کیونکہ سورج، پانی اور ہوا ہمیشہ رہیں گے لیکن کوئلہ ختم ہو جائے گا اور جب وہ ختم ہو گا تب ہم دیکھیں گے کہ اس نے ہماری آب و ہوا کو کتنا گندا کرکے چھوڑا ہے۔‘

یہ کہنا ہے پاکستان کی دستاویزی فلم ساز حیا فاطمہ اقبال کا جو اب نیشنل جیوگرافک کے ساتھ مل کر پاکستان بھر سے موسمیاتی تبدیلی کو تصویروں کی شکل میں ریکارڈ کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ماحولیاتی تبدیلی: ’دنیا نازک موڑ پر پہنچ گئی ہے‘

پاکستان میں خشک سالی سے زرعی پیداوار متاثر

ماحولیاتی تبدیلی کیا ہے؟

’صنعتی ممالک کا گند پاکستان جیسے ممالک بھگت رہے ہیں‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حیا نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی اس وقت پاکستان کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=dfII4YaLexA&t=32s

’پاکستان دنیا بھر کے ان ممالک میں سے ایک ہے جن پر موسمیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے۔ یہ اثر سیلاب، طوفان، بارشوں کی زیادتی اور لینڈ سلائیڈنگ جیسے مسائل کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔‘

نیشنل جیوگرافک نے دنیا بھر سے دستاویزی فلم سازوں اور فوٹو گرافرز سے اپنے اپنے ملک کی موسمیاتی تبدیلی پر مبنی کہانیوں کو تصاویر کے ذریعے بیان کرنے کو کہا ہے۔

حیا کی ساتھی عمبر راجانی ایک ماحولیاتی سائنسدان ہیں جن کا تعلق کراچی کی حبیب یونیورسٹی سے ہے۔ وہ اپنی ایک اور ساتھی مدیحہ اعجاز کے ساتھ کام شروع کرنے ہی والی تھیں لیکن مدیحہ کا انتقال ہو گیا۔

مدیحہ اعجاز نہ صرف ایک معروف فوٹوگرافر تھیں بلکہ ماحولیاتی موضوعات پر خاصی گرفت بھی رکھتی تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد یہ پروجیکٹ حیا فاطمہ کے حصے میں آیا۔

حیا نے اپنی دستاویزی فلم کے لیے آسکر اور ایمی ایوارڈ جیتا ہے۔ اس سے قبل انھوں نے ہیومنز آف نیویارک کے ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگوں کی کہانیاں ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پہنچائی ہیں۔

حیا کہتی ہیں ’موسمیاتی تبدیلی ایک نہایت ہی بورنگ موضوع سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ کچھ سائنسدانوں کی کہانی ہے اور وہ بس ایک ڈگری دو ڈگری کی باتیں کرتے رہتے ہیں اور ہمیں نہیں پتا اور نہ ہی لگتا کہ اس سے کوئی فرق پڑے گا۔‘

اس پروجیکٹ میں حیا کے ساتھ دو اور لڑکیاں بھی شامل تھیں جنھوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کر کے کہانیاں اکٹھا کیں۔

’ہم نے کراچی کی ساحلی پٹی سے شروعات کی اور پھر ننگر پارکر، تھر سے ہوتے ہوئے پاکستان کے باقی علاقوں میں گئے۔

حیا فاطمہ اقبال

’یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جو چیزیں ہمیں شہروں میں میسر نہیں ہوتیں اگر ان کی تھوڑی سی بھی جھلک ہمیں دیہی زندگی میں نظر آتی ہے تو ہم متاثر ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہاں پر سب اچھا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔‘

اس کی مثال دیتے ہوئے حیا نے بتایا ’چترال کی سنوغر وادی میں حالیہ سیلاب کے بعد ایک خاندان سے بات کی تو معلوم ہوا کہ ان کا پورا گھر تباہ ہو چکا تھا کیونکہ وہ گلیشیئر کے بہت قریب رہتے تھے، تو جب پانی کا ریلا پتھروں سمیت آیا تو ایسا نہیں کہ گھر تباہ ہو گیا بلکہ وہ زمین کو کھاتا ہوا چلا گیا۔

’مطلب اب اگر وہ اپنا گھر ڈھونڈنے جائیں تو گھر تو ایک طرف وہ زمین ہی نہیں رہی جس پر ان کا گھر تھا یا جہاں پر ان کی فصلیں تھیں۔‘

موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں حکومتی بیانات بھی کم و بیش سننے کو ملتے ہیں لیکن حیا کہتی ہیں ’یہ حکومت اور خاص طور سے عمران خان وہ واحد وزیرِ اعظم ہیں، جو موسمیاتی تبدیلی کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا ’پالیسی ساز یا حکومتی ادارے آگے چل کر اگر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی کوشش کرتے ہیں، تو انھیں یہ دیکھنا ہو گا کہ مسئلے کا جو حل تھر پر لاگو ہوتا ہے وہ چترال پر نہیں ہو سکتا کیونکہ زمین مختلف ہے اور لوگوں کا رہن سہن بھی۔‘

حیا کہتی ہیں کہ زیادہ تر پاکستانی گلگت بلتستان اور دیگر شمالی علاقہ جات سیر و تفریح کے لیے جاتے ہیں اور ان علاقوں کو سیاحت کے نظریے سے ہی دیکھا جاتا ہے۔

’جب ہم وہاں کے لوگوں سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس ہماری کوئی خبر نہیں۔ آپ کے پاس چند شہروں کی سیاست کے علاوہ دکھانے کو کچھ بھی نہیں ہے۔‘

اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے حیا نے کہا کہ لوگوں نے انھیں یہاں تک کہا ’ہمیں پہاڑوں پر رہتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے ہماری تو کوئی آواز ہی نہیں سنتا ہے۔‘

حیا نے بتایا کہ لوگوں نے یہ بھی کہا ’ہمیں یہ لگتا ہے کہ ہماری آوازیں پہاڑوں سے ٹکرا کے ہمارے ہی پاس واپس آ جاتی ہیں۔‘

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp