کشمیر میں نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری، نظامِ زندگی بدستور معطل


سرینگر

کشمیر میں پانچ اگست کے بعد سے چار ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالات معمول پر آنے کے حکومتی دعوؤں کے برعکس سرینگر کے مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ رات کے اوقات میں کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

وادی کی تازہ ترین صورتحال سامعین تک پہنچانے کے لیے شروع کیے جانے والے بی بی سی اردو کے خصوصی ریڈیو پروگرام ’نیم روز‘ میں بات کرتے ہوئے سرینگر سے نامہ نگار ریاض مسرور نے بتایا کہ مقامی لوگوں کے مطابق سکیورٹی اہلکار رات کے اوقات میں گھروں پر چھاپے مار کر نوجوانوں کو گرفتار کر رہے ہیں۔

کشمیر کی صورتحال پر بی بی سی اردو کی خصوصی کوریج

خیال رہے کہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کشمیر میں پانچ اگست کے بعد سے چار ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور ان میں سے بہت سوں کو وادی کے قید خانوں میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے انڈیا کے مختلف شہروں میں منتقل کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’کرفیو ختم ہوا ہے مگر ہماری ناراضی ختم نہیں ہوئی‘

کشمیر: لاک ڈاؤن میں زندگی کیسی تھی؟

کشمیر: ’خدشات اور خوف میں مزید اضافہ ہو رہا ہے‘

گرفتاریوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سری نگر رہائشی اکبر ڈار نے بی بی سی کے نامہ نگار کو بتایا ‘ہمارے دو لڑکے اٹھائے گئے ہیں۔ شاید باہمی تناؤ یا کسی اور وجہ سے۔ رات کے ٹائم پر لے گئے‘

سرینگر

سرینگر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں نظامِ زندگی اب بھی معطل ہے

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی گرفتار افراد سے ملاقات ہوئی ہے تو اکبر ڈار کا کہنا تھا ’جی ہاں۔‘

ریاض مسرور کے مطابق ان کی ملاقات ایک ایسی خاتون سے بھی ہوئی ہے جن کے بیٹے کو پرسوں رات گرفتار کر کے تھانے لے جایا گیا اور لڑکے کے نابینا دادا سڑک پر رو رہے تھے۔

اس سوال پر کہ وہ کہاں ہیں ان کی والدہ کا کہنا تھا ’وہ نوگام پولیس سٹیشن میں ہیں۔ وہ (سکیورٹی اہلکار) رات کے وقت آئے اور دروازے اور کھڑکیاں توڑ دیں۔ ہم نے اپیل کی کہ ہم لڑکوں کو صبح پولیس سٹیشن لے آئیں گے مگر وہ اس سے متفق نہیں ہوئے۔‘

لڑکے کی والدہ نے مزید بتایا ’چند روز پہلے گاؤں میں ایک لڑائی ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ پتھراؤ میں ملوث ہے اور اس کے والد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ ہم بہت خوفزدہ تھے، کیونکہ گھر میں ہم صرف خواتین ہی موجود تھیں اس لیے ہم نے دروازہ نہیں کھولا۔‘

انھوں نے الزام لگایا کہ ’سکیورٹی اہلکار گاڑیوں میں آتے ہیں اور اپنی گاڑیوں کو کچھ فاصلے پر کھڑا کر کے گلیوں میں پیدل آتے ہیں اور چھوٹے بچوں کو مارتے ہیں۔ بغیر کسی وجہ کہ وہ (سکیورٹی اہلکار) کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیتے ہیں اور ردِعمل میں بچے ان پر پتھراؤ کرتے ہیں۔‘

سرینگر

چند حساس مقامات کے علاوہ باقی جگہوں پر پابندیوں اور کرفیو میں نرمی آئی ہے

مذکورہ خاتون کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘سکیورٹی اہلکاروں نے رات کے ڈھائی بجے ہمارے گھر پر ریڈ کیا اور کھڑکیاں توڑ ڈالیں۔ ہم بہت ڈرے ہوئے تھے۔ ہمارے گھر میں دل کا ایک مریض اور عمر رسیدہ افراد بھی ہیں۔ ہم نے ان سے التجا کی ہم صبح کو خود ہی پولیس سٹیشن آ جائیں گے۔‘

تاہم بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق ایسے اقدامات اور گرفتاریوں کے حوالے سے جب حکام سے پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ابھی معلومات جمع کی جا رہی ہیں لہٰذا یہ اعدادو شمار بعد میں بتائے جائیں گے۔ ’حکام گذشتہ دس روز سے مسلسل اس سوال کو ٹال رہے ہیں۔‘

وادی کی صورتحال کے بارے میں ریاض مسرور کا کہنا ہے کہ چند حساس مقامات کے علاوہ باقی جگہوں پر پابندیوں اور کرفیو میں نرمی آئی ہے۔

تاہم ان کے مطابق سرینگر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں نظامِ زندگی اب بھی معطل ہے اور کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں حکومت کی کوششوں کے باوجود بھی بحال نہیں ہو پا رہیں۔

نامہ نگار کا کہنا ہے کہ سرکاری حکم نامے کی وجہ سے اساتذہ تو سکولوں میں آ رہے ہیں لیکن بچے بالکل بھی سکول نہیں جا رہے ہیں۔ ’یہ عجیب صورتحال ہے کیونکہ ساری علیحدگی پسند قیادت اور ہند نواز قیادت نظربند یا قید ہے اور کسی نے بھی ہڑتال کی کال نہیں دی ہے۔‘

انھوں نے کہا ’کشمیر میں ایک خوفناک سی خاموشی ہے۔ جنوبی کشمیر میں ایسے بہت سے گاؤں ہیں جن میں سکیورٹی فورسز تعینات نہیں ہیں مگر لوگ بھی باہر نہیں ہیں۔‘

حریت رہنماؤں کی جانب سے جمعے کو ہڑتال کی خبروں کے حوالے سے ریاض مسرور نے بتایا کہ صرف صورہ کے علاقے میں اس طرح کے پوسٹر دیکھے گئے ہیں جن میں جمعے کے روز بعد از نماز جمعہ احتجاج کی کال ہے۔ تاہم اس کی تصدیق ممکن نہیں کیونکہ تمام حریت قیادت قید ہے اور دفاتر میں بھی تالہ بندی ہے۔

واضح رہے کہ صورہ کے مقام پر ہی انڈیا مخالف احتجاج میں مظاہرین پر پولیس کی شیلنگ اور چھرے لگنے سے متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔

وادی میں خوف کے ماحول کے بارے میں بات کرتے ہوئے ریاض مسرور نے بتایا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ کشمیر میں مہینوں تک کرفیو رکھا گیا ہو لیکن اس بار رابطے کا ایک بھی ذریعہ نہیں چھوڑا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وادی میں ہر کوئی بس ایک سی سوال کرتا نظر آتا ہے ’اب آگے کیا ہو گا؟‘

انھوں نے کہا ’پہلے ایک ہفتے میں تو لوگوں کو خدشہ تھا کہ انڈیا اور پاکستان میں جنگ چھڑ جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا تو اب لوگوں کو لگتا ہے کہ بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر لوگ مسلسل کسی بھی تعطل کے بغیر خوف کی کیفیت میں گرفتار ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32465 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp