درویشوں کے ڈیرہ پہ تاثرات


سب دوست جانتے ہیں کہ بون انجری کی وجہ سے میں آج کل بیڈ ریسٹ پہ ہوں۔ پہلے کچھ ہفتے تو ٹراما میں نکل گئے۔ دوستوں کی مہربانی اور توجہ سے میں دوبارہ نارمل ہونا شروع ہوئی۔ کچھ دن پہلے روشی نے مجھے ایک کتاب دیتے ہوئے کہا کہ یہ پڑھو۔ بدقسمتی سے میں گھر آتے ہوئے کتاب وہیں بھول گئی۔ دوبارہ جانا ہوا تو اس نے کہا کہ کتاب لے کر نہیں گئی تو میں نے کہا دے دو۔ آتے ہوئے یاد سے لے کر آئی۔ گھر آ کے انٹرنیٹ بند کر کے فون چارجنگ پہ لگایا۔

کیونکہ کتاب پڑھنے کے لیے مجھے یکسوئی اور ماحول چاہیے ہوتا ہے۔ خیر کتاب پڑھنا شروع کی۔ اس نے آہستہ آہستہ مجھے اپنے حصار میں لینا شروع کیا۔ رابعہ الربا سے میرا تعارف بس فیس بک کی حد تک ہے۔ اور وہ میری دوستوں کی دوست ہیں تو مجھے عزیز بھی ہیں۔ ڈاکٹر خالد سہیل سے میرا تعارف درویشوں کا ڈیرہ پڑھتے ہوئے ہوا۔ اور مجھے اپنے اوپر غصہ بھی آیا کہ ایسا انسان میری فرینڈ لسٹ میں کیوں شامل نہیں۔ کتاب میں رابعہ اور درویش کے ایک دوسرے کو لکھے گئے پچاس خطوط شامل ہیں۔

دو الگ نظریات پہ یقین رکھنے اور ماننے والے لوگوں کے درمیان اتنے تحمل اور محبت سے بات بھی ہو سکتی ہے، خاص طور پہ جب ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت ہو۔ یہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یقین ہوا۔ ایک طرف رابعہ ہیں جو تصوف کی دنیا کی باسی نظر آتی ہیں، جبکہ دوسری طرف ان سے بالکل الٹ ڈاکٹر سہیل خالد۔ جو رابعہ کے نظریات و تصورات سے بالکل الگ ہیں وہ رابعہ کے نظریات کا اس قدر احترام کرتے ہیں کہ تنقید کا ایک لفظ ان کے کسی خط میں مجھے نظر تک نہیں آیا۔

مرد اور عورت کی دوستی کو لے کر جس سفاکی سے رابعہ نے مشرق میں رہنے والے لوگوں کے رویے بیان کیے ہیں، وہ بلاشبہ قابل تحسین بھی ہیں اور لمحہ فکریہ بھی۔ مرد اور عورت دوست نہیں ہو سکتے یہ جملہ بچپن سے سنتے سنتے ہم آج اس عمر تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ بات ہمارے معاشرے میں اکثریت پہ ایسے ہی لاگو ہے جیسے رابعہ نے لکھا۔ لیکن اقلیت میں بہرحال ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ڈاکٹر خالد جیسی مرد و عورت کی دوستی کو مانتے ہیں۔

وہ دوستی جو درویش اور ڈونا میں تھی۔ جس میں درویش تو لوگوں کی باتوں کے ڈر سے تعلق ختم کرنا چاہتا ہے لیکن ڈونا کہتی ہے کہ ہماری دوستی کی بنیاد اخلاص پر ہے اور یہ کہ ایک دن میری شادی ہو جائے گی اور میرا شوہر ہماری دوستی قبول کر لے گا۔ ایسا ہی ہوا۔ یہ جرات ایک عورت کر سکتی ہے یہ میں مانتی ہوں۔ کیونکہ میں ایک عورت ہوں۔ محبت کے فلسفے کو میرے خیال سے بے ٹی ڈیوس نے زیادہ اچھے سے سمجھا دیا۔ دوستی کو دوسروں سے نہیں خود سے بچا کے رکھنا ہے۔

بے شک انسان کا سب سے بڑا دشمن انسان خود ہے پھر کوئی اور ہے۔ انسان کے برے رویے اسے کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں۔ درویش کے والد کی پانی کی گہرائی والی مثال بھی مجھے پسند آئی۔ رابعہ کو آنے والے خواب اور پھر رابعہ کا ان کو حقیقی زندگی سے جوڑنا بھی میرے لیے انوکھی چیز ہے۔ مجھے عمر کے کچھ حصے میں تصوف سے لگاؤ رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے لاشعور میں جو ہوتا ہے وہ ہمارے خوابوں میں آتا ہے۔ کئی جگہ رابعہ نے مرد اور عورت کے تعلق بارے اتنی درست بات لکھی ہے کہ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔

کہ یہ تو میں بھی کہتی ہوں۔ کئی جگہ مجھے محسوس ہوا کہ رابعہ نے جیسے میرے خیالات کو صفحے پہ اتار دیا ہے۔ پانچ فٹ والی محبت رابعہ نہیں کر سکتی اور بیس فٹ تک کوئی رابعہ کے ساتھ نہیں جا سکتا، اس جملے نے آنکھیں نم کر دیں۔ محبت نہ پا سکنے کا غم بہت گہرا ہوتا ہے۔ شاید بیس فٹ سے بھی گہرا۔ مرد عورت کو جنسی غلام سمجھتا ہے۔ میں بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہوں۔ مشرق کے مرد میں ابھی اتنی اعلی ظرفی پیدا نہیں ہوئی کہ وہ عورت کو جنس سے ہٹ کے دیکھے۔

عورت سے دوستی کا زیادہ تر مطلب بستر تک پہنچنا ہی ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال اچھے مرد بھی موجود ہیں، لیکن اقلیت میں۔ میں نے ایک بار لکھا تھا کہ عورت کو اپنی پاکیزگی اپنی شلوار کے ناڑے کو مضبوطی سے باندھ کے ثابت کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ مرد کے لیے یہ الٹ ہے۔ رابعہ کے خطوں میں مجھے یہ حقیقت بارہا نظر آئی جس نے مجھے افسردہ کیا۔ دوسری طرف درویش کا ملک ہے جہاں وہ عورت کو بطور جنس نہیں بطور انسان دیکھتے ہیں۔ ان کی مغرب میں کئی عورتوں سے دوستی ہے۔

لیکن مشرق کی عورت سے وہ اس طرح کی دوستی کی توقع نہیں کرتے رہے جیسی ان کی مغرب میں ہے۔ زہرا جی اور رابعہ کا شکریہ کہ انہوں نے مشرق کی عورت کے بارے درویش کے خیالات بدلے۔ درویش کے والد کی زندگی کا بدلاؤ اور ان کی والدہ کی حالت نے بہت افسردہ کیا۔ میں نے بھی ایسا ہی ایک تجربہ اپنی زندگی میں دیکھا ہے۔ میں سمجھ سکتی ہوں کہ درویش کی زندگی پہ اس کیا اثرات ہوئے ہوں گے۔ لیکن درویش کی ایک چیز نے مجھے بہت متاثر کیا۔ درویش کے اپنے لیے دیکھے جانے والے چار خواب۔ جن کو درویش نے پورا کرنے کی جدوجہد کی۔ اور ان کو پورا کر لیا۔ یہ جدوجہد ہمیں سکھاتی ہے کہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی جستجو کبھی مت چھوڑیں۔ نہ ہی خواب دیکھنا چھوڑیں۔

درویش انسانی نفسیات پڑھنے اور ان کو بہتر بنانے کا ماہر بن گیا ہے۔ وہ خوش قسمت ہے کہ وہ ایسے ملک میں ہے جہاں ذہنی بیماری کو بھی بیماری سمجھا جاتا ہے۔ اور ان کا علاج کروایا جاتا ہے۔ درویش کی والدہ کی خواہش بھی پوری ہوئی درویش کی صورت میں۔ رابعہ کے والد کے کردار نے مجھے متاثر کیا۔ اور اپنے والد کی کمی بھی محسوس ہوئی۔ جب رابعہ نے ذکر کیا کہ وہ اپنے والد کی انگلی پکڑ کے نہر کنارے واک کرتی تھیں۔ میں اس نعمت سے محروم رہی۔ رابعہ کے خطوط میں ایک عورت کی زندگی کا احاطہ ہوتا ہے۔

پوری کتاب پڑھنے کے بعد مجھے درویش اور رابعہ کے بیچ کے تعلق پہ رشک آیا۔ ہمارے یہاں برداشت، رواداری اور ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرنے کی عادت تقریبا مفقود ہو چکی ہے۔ لیکن دونوں کے خطوط نے ثابت کیا کہ اچھائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ رشتوں کے بیچ کی گہری نفسیات دکھاتے ہوئے درویش اور رابعہ کے خطوط بلا شبہ ایک اچھی کاوش ہیں۔ رابعہ نے جو دوستوں بارے باسکٹ اور ڈائپر کی مثال دی وہ واقعی ہی درست ہے۔ دوسری طرف عورت کے جذبات کو بھی کھل کر بیان کیا، کہ عورت کیا چاہتی ہے۔

مرد کی جلد بازی عورت کو اس سے متنفر کر دیتی ہے، میں اس بات سے متفق ہوں۔ بلاشبہ اس کتاب نے میرے ذہن کو کافی خوراک دی ہے۔ کتاب ختم کرتے ہی میں نے ڈاکٹر خالد سہیل کو فیس بک پہ سرچ کیا۔ اور فورا سے ریکویسٹ بھیج دی۔ دوپہر میں چیک کیا تو ریکویسٹ پینڈنگ تھی۔ میں نے ریکویسٹ ڈیلیٹ کر کے دوبارہ سینڈ کی۔ تا کہ نظروں میں آ سکے۔ کچھ دیر بعد ایکسیپٹ ہو گئی۔ میں نے سوچا تھا کتاب پر تب لکھوں گی جب ڈاکٹر صاحب دوست ہوں گے۔ شکر ہے ریکویسٹ جلدی قبول ہو گئی۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے عہد میں بھی میرے ارد گرد ایسے ہیرے لوگ پائے جاتے ہیں جو انسان کو انسان سمجھ کے ٹریٹ کرتے ہیں۔ جو انسان دوست ہیں، اور جو انسان دوستی کے علمبردار ہیں۔ سلامتی اور نیک خواہشات ایسے تمام دوستوں کے لیے جو انسان کی فلاح کے لیے کام کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).