سی پیک: ہماری قومی حماقتوں کی داستان مجاہد اور امریکی چالیں


علی بابا کا مالک جیک ما آٹھ جنوری دو ہزار اٹھارہ کو شیر بنا دھاڑتا ہے ”کوئی سیاستدان یہ ہمت نہیں کر سکتا، ہاں میں کہتا ہوں کہ ہم ہانگ کانگ کی مارکیٹ میں آئیں گے۔ اس شہر کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں گے“۔

اکیس اگست دو ہزار انیس یہی ہانگ کانگ ہے، وہی جیک ما ہے اس کی میاؤں اخبار میں چھپتی ہے کہ ہانگ کانگ مارکیٹ میں لسٹنگ کا علی بابا نے اپنا پندرہ ارب ڈالر کا پروگرام ملتوی کر دیا۔ جیک ما بھی پھر شیخ ہی نکلا۔ گیلی جگہ پیر نہیں رکھتا۔

چینی اخبارات بھرے پڑے ہیں چینی تڑیوں سے کہ امریکہ نے اگر ہانگ کانگ میں کوئی پنگا لیا بیان دیا تو ہم اینٹ کے جواب میں وٹا ماریں گے، پابندیاں لگائیں گے۔ وٹہ ابھی چینی حکومت کے ہاتھ میں ہے جیک ما پتلی گلی سے دوڑ بھی گیا۔

ادھر رک جائیں۔ پاکستان آ جائیں۔ صدر شی نے ایک خواب دیکھا دنیا بھر کی مارکیٹوں اور راستوں سمندروں کو چین سے کنیکٹ کرنے کا۔ اس کے مختلف نام بتائے۔ آج کل اس خواب کو بی آر آئی کہا جاتا ہے۔ بی آر آئی پراجیکٹ کا فلیگ شپ یعنی وہی نیلی آنکھوں والا پیارا سا گولو بچہ سی پیک تھا۔

چینیوں نے وہ سارے علوم استعمال کر کے جو حاصل کرنے ہمیں چین جانے کا حکم ہے۔ بہت احتیاط کے ساتھ کام میں لا کر اس پراجیکٹ کا آغاز کیا۔ انتظار کیا کہ سریا سیمنٹ کے سیانے میگا پراجیکٹ کے شوقین نواز شریف برسراقتدار آئیں تو سی پیک شروع کیا جائے۔

معاہدے ہوئے، ان کی ہوا تک کسی کو نہ لگنے دی گئی۔ احسن اقبال نے کھاتوں والی کتاب مستقل اپنی بغل میں چھپا کر رکھی۔ اربوں ڈالر کے میگا پراجیکٹس کا پاکستان میں آغاز ہوا۔ فرض کریں پچاس ارب ڈالر کے پاکستان میں پراجیکٹ شروع ہوئے۔

یہ پراجیکٹ کرنے چین کا پرائیویٹ سیکٹر پاکستان آیا۔ چینی حکومت کا اپنا سرمایہ کم استعمال ہوا۔ چین کے پرائیویٹ سیکٹر نے زیادہ پیسے لگائے۔ اپنی آسانی کے لیے پچاس فیصد سمجھ لیں چینی سیٹھوں کا پیسہ تھا، حقیقت میں کہیں زیادہ تھا۔

سیٹھ چینی بھی ہو تو جاتا پرافٹ کے پیچھے ہی ہے۔ پاکستان بھی وہ منافع کمانے ہی آئے۔ نام صرف چینی حکومت کا ہوا کہ اس نے سی پیک شروع کر رکھا ہے۔

پاکستان میں دودھ شہد کی نہریں رواں ہوں گی ، گلگت سے بندہ نہر میں اترے گا اور سمندروں میں سلپ مارتے ہوئے کسی عرب ساحل پر پڑا ہوا ملے گا۔ یہ تاثر بہت پکا قائم ہو گیا۔ ایسے میں ہم نے بھی نہانا ہے کا سر اٹھاتے ہوئے مغربی روٹ کا پنگا ناک ترانہ دو صوبوں میں بجانا شروع کر دیا گیا۔ اب سی پیک ہی معطل پڑا تو سب مزے سے سو رہے۔

چینیوں نے پاکستانیوں نے سب کچھ سوچا تھا یہ نہیں سوچا تھا کہ امریکی کیا سوچیں گے۔ وہ سی پیک کو برداشت کر لیں گے؟ پاکستان کا یوں لڑھکتے ہوئے چین سے جا کر ملنا۔

امریکی ایسا کیوں کرتے؟ وہ اب بہت مزے لے لے کر سب کو سناتے ہیں کہ کسی جنگ (کارگل وغیرہ ) میں پھنس جاؤ تو چھڑائیں ہم، سیلاب میں ڈوب جاؤ زلزلہ آ جاوے تو ہم بچائیں۔ آئی ایم ایف گلا دبا کر پیسے مانگے، ایف اے ٹی ایف گھوریاں مارے تو ہم مدد کریں۔ کمائی کرانی ہو تو چینی، اب بھگتو۔

امریکیوں نے اپنے بہتر رابطوں، پاکستانی سماج کی زیادہ سمجھ بوجھ، پرانے تعلق اور اچھے ہوم ورک سے چینیوں کو پاکستان میں عبرتناک شکست دی ہے۔

چین نے پاکستان کے لوگوں سے ساری عمر محبت جتائی۔ حقیقت میں فاصلہ رکھا۔ تعلق رکھا تو پنڈی سے۔ ون ونڈو آپریشن کی اس سہولت سے فائدہ اٹھایا۔ سارے پاکستان کو ایسا ہی سمجھا جیسے پنڈی والے ہیں۔ فوج اک ڈسپلنڈ ادارہ ہے۔ وقت کی پابندی کی جاتی ہے۔ کام اک ترتیب سے ہوتے ہیں۔ افسر پروفیشنل ہیں جو انہیں کہا جائے وہ کر کے لے آتے ہیں۔

سی پیک کا پاکستان میں آخری سرا گوادر میں تھا۔ یعنی بلوچستان سے معاملہ کرنا تھا۔ اسے آن بورڈ لینا تھا۔ جمہوریت ضروری تھی۔ سول کے ساتھ تعلق رابطہ رکھنا تھا۔ ہمارا سول افسر ہو سیاستدان ہو یا عوام سب خیر سے اپنی طبعیت پہ چلتے۔ کوئی اک دوسرے سے نہیں ملتا۔ ان سے معاملہ کرنا اک بہت مختلف کام اور تجربہ تھا۔ میڈیا، عدالت، سیاسی جماعتیں، اپوزیشن اور قبائلی مزاج مختلف قومیتیں ان سب سے معاملہ کرتے چینی باقاعدہ ہانپ گئے۔ امریکی ان سب کے ہی پرانے اور اچھے واقف ہیں۔

کوئی سازشی تھیوری نہیں ہے۔ کوئی غدار نہیں ہے۔ جس کا ہوم ورک اچھا تھا۔ جس کی رسائی زیادہ تھی جو چابی دینے کی زیادہ صلاحیت رکھتا تھا۔ اس نے میدان مار لیا۔ کوئی کسر رہتی تھی تو کپتان آ گیا، اس نے پوری کر دی۔

کپتان سے بھی پہلے حوالدار بشیر آ گیا۔ وہ جب کہیں پنڈ کا پھیرا لگا کر آیا۔ اس نے کسی پراجیکٹ پر کام کرتے اپنے گرائیں سے قصے سنے۔ اینٹ بجری مہنگی بکتی دیکھی، گرائیں کو ساٹھ ستر روپے زیادہ کماتے دیکھا تو جا کر واپس سیلوٹ مار کر رپورٹ کر دی کہ سر بہت کرپشن ہو رہی۔ سر نے فیلڈ سے آئی رپورٹ اوپر سر کو بتا دی اور چل سو چل۔

یہی کرپشن پکڑنے کپتان کنڈی ڈال کر بیٹھا ہے اب۔ اس نے ہمیں جلسوں میں بڑی سکرینیں لگا لگا کر سمجھایا کہ چینی کمپنیاں سب سے زیادہ کمیشن دیتی ہیں۔ بڑے پراجیکٹ تو کیے ہی اس لیے جاتے کہ اس میں کمیشن لیا جاوے۔

وزیراعظم بن کر ہمارے کپتان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ آئی ایم ایف نے سٹیٹ بنک پر اپنا گورنر لگوا دیا۔ ہمیں اک وزیرخزانہ بھی دستی پارسل کر دیا۔ امریکی وزیرخارجہ نے کئی بار بیان دیا کہ ہم ہر صورت یقینی بنائیں گے کہ ہمارا پیسہ چینی قرضوں کی واپسی میں استعمال نہ ہو۔

اب آئی ایم ایف کو سارے چینی معاہدوں کا قرضوں کی تفصیلات کا علم ہے امریکیوں کو بھی معلوم ہے۔ سی پیک کے کئی پراجیکٹ کے لیے مختص فنڈ ممبران اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کے لیے عطا کر دیا گیا ہے۔ سی پیک پر اب کام بہت سست رفتاری سے جاری ہے۔ چینی ہمیں حیران حیران دیکھ رہے ہیں۔ ان کو لمبے ہی گھاٹے ہوئے ہیں، کیسے؟

وہ ایسے کہ بڑی بڑی چینی کمپنیاں پاکستان آئی تھیں۔ ہواوے نے لاہور کا سیف سٹی پراجیکٹ کیا تھا۔ آپٹیکل فائبر بچھا رہی ہے۔ لاہور اورینج ٹرین پر کام الیکشن سے پہلے مکمل ہونا تھا اب تک لمک رہا ہے۔ یہ بھی ایک چینی کمپنی بنا رہی ہے۔ چائنہ الیکٹرک نے پاور پراجیکٹ کیے تھے۔

ملتان میٹرو میں کرپشن ہونے کا ایک لمبا سٹورا اخبارات میں چھپتا رہا۔ یہ چینی کمپنی تھی۔ ظاہر ہے کوئی سیٹھ مالک ہو گا۔ پولیس کیس بھگت کر اب باقی سیٹھوں کو ہماری مہمان نوازیوں کے قصے سناتا ہوگا۔

علی بابا نے دراز ڈاٹ پی کے خریدی تھی۔ یووان اور روپوں میں بزنس کرنے کی تب اسے اجازت دی گئی تھی۔ اب ڈالر میں کرنے کو کہا جا رہا۔ کام نہیں ہو رہا۔

سی پیک تو چلے گا۔ نہ پاکستان اسے چھوڑے گا نہ چین۔ پہلے راؤنڈ میں چینیوں نے دھول چاٹی ہے۔ امریکی پورے نمبروں سے پاس ہیں۔ چینیوں نے اگر فوک گیت ہی سنا ہوتا ”گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہو گا نہ پرانا“ تو ذرا بہتر منصوبہ بنا کر آتے۔

چینیوں کی ماٹھی منصوبہ بندی سے ہوا یہ ہے کہ چین کے پرائیویٹ سیکٹر کا چینی حکومت پر بھی اعتماد قائم نہیں رہا۔ چینی سیٹھ سوچنے لگا ہے کہ استاد ان کے منصوبوں میں ہماری واٹ پکی لگ کے رہے گی۔ کمائی تو چھوڑو عزت بھی داؤ پر لگنی۔ بی آر آئی کے پراجیکٹ دنیا میں جہاں جہاں چل رہے۔ چینی سیٹھ اب بچ بچا کر پیسہ لگا رہا۔

جیک ما ہانگ کانگ سے تو اب بھاگا ہے پاکستان سے تو وہ کب کا بھاگ گیا۔

ہماری سرکار اس وقت سرمایہ کاری لانے کو سوٹ شوٹ پہن کر دنیا بھر میں خجل ہونے کو تیار بیٹھی۔ دنیا کی نمبر ون چینی کمپنیوں کو ہم خود باقاعدہ کوشش کر کے بھگا چکے ہیں۔ اب عالمی سیٹھوں سے پیسے مانگنے نکلیں گے۔ ان کی جیسے آنکھیں نہیں ہیں کہ یہ اپنے دوستوں کا یہ حشر کر چکے ہمارے ساتھ کیا کریں گے۔

ایسے میں ٹرمپ کا بیان بہت ہی ہاضمے دار ہے۔ ہمیں جو معاشی گیس ہوئی ہے اس کا علاج کرتا ہے۔ ٹرمپ کہتا ہے کہ جب سے پاکستان کی امداد روکی ہے یہ زیادہ تعاون کر رہا۔ بندہ پوچھے سرکار اب آرام ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi