گرامچی: پرزن نوٹ بکس سے منتخبات


بیسویں صدی کا ایک اہم پولٹیکل فلاسفر انٹونیو گرامچی ہے جس کی طرف ہمارے ہاں زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ گرامچی کو ”پوسٹ لیننسٹ مارکس ازم“ کا سب سے اہم لکھاری اور نظریہ ساز مانا جاتا ہے۔ گرامچی 1891 ء میں اٹلی میں پیدا ہوا۔ بچپن میں بیماری کے باعث اس کا قد چھوٹا رہ گیا اور وہ کسی حد تک کبڑا ہوا گیا۔ 1911 ء میں اس کا ٹیورن یونیورسٹی میں سکالرشپ پر داخلہ ہو گیا۔ 1913 ء میں وہ ”اٹالین سوشلسٹ پارٹی“ کا رکن بنا اور جلد ہی اس کا اہم عہدہ دار بن گیا۔

1915 ء میں خراب صحت اور کسی حد تک معاشی مسائل کی وجہ سے اس نے اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیا۔ اس کی تعلیم چھوڑنے کی ایک وجہ اس کی بڑھتی ہوئی سیاسی ذمہ داریاں بھی تھیں۔ گرامچی نے اگرچہ 1914 ء میں یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران ہی سوشلسٹ اخباروں کے لئے لکھنا شروع کر دیا تھا تاہم 1919 ء میں اس نے اپنا اخبار بھی قائم کر لیا۔ 1921 ء میں گرامچی نے ”کیمونیسٹ پارٹی اف اٹلی“ کی بنیاد رکھی وہ سمجھتا تھا کہ سوشلسٹ پارٹی کی ”ورکرز کونسل“ ایک قومی تحریک بننے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

1926 ء میں اٹلی میں مسولینی کی فاشسٹ حکومت قائم ہوئی تو اس حکومت نے بہت سے لوگوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کر دیا ان میں گرامچی بھی تھا۔ اگرچہ گرامچی پارلیمنٹ کا ممبر اور کیمونسٹ پارٹی کا جنرل سیکرٹری تھا اسے بھی مخالف نظریات کی وجہ سے پکڑکر جیل میں ڈال دیا گیا جب کہ اس کے پراسیکیوٹر نے جج سے کہ کہا کہ ”ہر حال میں اس ذہن کو بیس سال کے لئے روک دیا جانا چاہیے۔ “ اسے فوری طور پر پانچ سال کی سزا سنا دی گئی جسے بعد ازاں بیس سال تک بڑھا دیا گیا۔ یہیں جیل میں گرامچی نے کوئی 3000 صفحات پر مشتمل 30 سے زائد نوٹ بکس لکھیں۔ جو بعد ازاں ”پرزن نوٹ بکس“ کے عنوان سے شائع ہوئیں۔ جیل میں رہتے ہوئے وہ بے شمار بیماریوں کا شکار ہوا اور بالاخر 1937 ء میں جب کہ ابھی وہ صرف چھالیس سال کا تھا اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔

گرامچی نے اپنا سب سے اہم تخلیقی اور ادبی کام جیل میں کیا۔ اس کا سب سے اہم کام تاریخ اور کلچر، سٹیٹ اور سول سوسائٹی کا طریقہ کار، مارکس ازم، تعلیم اور فلاسفی پر ہے۔ گرامچی نے جو اہم تصورات دیے ان میں ثقافتی غلبہ، وار اف پوزیشن، روایتی اور ارگینک انٹلیکچوئلز، سٹیٹ اور سول سوسائٹی کا طریقہ کار اہم ہیں۔

گرامچی کے نزدیک ریاست یا سٹیٹ محدود معنوں میں حکومت نہیں ہے۔ اس کی بجائے گرامچی سٹیٹ کودو حصوں میں تقسیم کرتا ہے ؛ اولا ً: ”پولٹیکل سوسائٹی“ یعنی پولیس، آرمی، لیگل سسٹم وغیرہ۔ انہیں گرامچی سیاسی ادارے اور آئینی کنٹرول کا اکھاڑہ کہتا ہے۔ دوئم: ”سول سوسائٹی“ یعنی خاندان، تعلیمی ادارے، ٹریڈ یونینز وغیرہ۔ انہیں عمومی طور پر ہم پرائیویٹ یا نان سٹیٹ کرّے کے طور پر دیکھتے ہیں یہ ریاست اور اکانومی کے درمیان مصالحت کار کا کردار ادا کرتی ہے۔

گرامچی کے بقول یہ تقسیم صرف تصوراتی ہے جب کہ عملی طور پر یہ دونوں کلی یا جزوی طور پر ایک دوسرے کو مکمل طور پر ڈھانپے ہوئے ہیں یا اوور لیپ کر رہے ہیں۔ گرامچی مزید کہتا ہے کہ کپیٹیلسٹ سٹیٹ دراصل طاقت اور رضامندی کے ذریعے حکمرانی کرتی ہے؛ ”پولیٹیکل سوسائٹی“ کی قلمرو طاقت ہے اور ”سول سوسائٹی“ کی قلمرو رَضامندی۔

گرامچی یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ماڈرن کیپٹیلزم میں بورژوازی طبقہ (سرمایہ دار استحصالی طبقہ) سول سوسائٹی کے بیچ، ٹریڈ یونینز اور بڑی سیاسی پارٹیوں کی پیش کی گئی چند ڈیمانڈز کو پورا کرکے اپنا معاشی کنٹرول قائم کرتا ہے جس پر سیاسی کرّے کے ذریعے عمل درامد کرایا جاتا ہے۔ اس طرح بورژوازی طبقہ اپنے فوری معاشی مفادات سے بالا ہوکر اپنے ”ثقافتی غلبہ“ کی مختلف شکلوں کو تبدیلی کی راہ پرڈال کر ”مجہول یا غیر متحرک انقلاب“ میں مشغول رہتا ہے۔

گرامچی واضح کرتا ہے کہ تحریکیں جیسا کہ ریفارم ازم اور فاش ازم اور اسی طرح فریڈرک ٹیلر کی سانٹیفک مینجمنٹ یا ہنری فورڈ کی اسمبلی لائن میتھڈز اس ثقافتی غلبے کی مثالیں ہیں۔

گرامچی ثقافتی غلبے یا کلچر ل ہیجمنی کی تھیوری کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سٹیٹ اور رولنگ کیپٹیلیسٹ سوسائٹیز میں کیپٹلسٹ یا بورژوازی کلاس ثقافتی اداروں کو اپنی طاقت کو قائم رکھنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ گرامچی کے مطابق کیپٹیل ازم نہ صرف تشدداورسیاسی اورمعاشی جبر بلکہ اپنی آئیڈیالوجی کے ذریعے اپنی اقدار اور اپنے مفادات کو اس طرح اشاعت پزیر کرتاہے کہ وہ ہر شخص کو ”کامن سینس“ کے طور پر اپنی اقدار لگتی ہیں اور اس طرح بورژوازی طبقہ ”سٹیٹس کو“ کو قائم رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔

اس طرح ”غلبے کی طاقت“ رضامندی کو ”کیپٹلسٹ آرڈر“ کے طور پر قائم کرتی ہے نہ کہ نظم و ضبط قائم کرنے کے لئے ”غلبے کی طاقت“ کو عمل میں لاتی ہے۔ مقتدرہ اس ثقافتی غلبے کو اداروں، سماجی تعلقات اور تصورات کے گٹھ جوڑکے ذریعے باربار پیدا کرتی ہے اور ختم کرتی ہے جو کہ ”سپر سٹرکچر“ بناتے ہیں۔ اس طرح گرامچی تجزیہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ برسراقتدار کیپٹلسٹ کلاس۔ بورژوازی طبقہ۔ کس طرح اپنا تسلط قائم اور برقرار رکھتا ہے۔

تقلید پسند مارکس ازم یا آرتھوڈوکس مارکس ازم، نے یہ پشین گوئی کی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظاموں میں سوشلسٹ انقلاب ناگزیر ہے جب کہ بیسویں صدی کے اغاز میں ترقی یافتہ اقوام میں ایسا کوئی انقلاب برپا نہیں ہوا بلکہ ایسا محسوس ہونے لگا کہ سرمایہ دارانہ نظام پہلے سے کہیں زیادہ مورچہ بند ہو گیا ہے۔ یہ صرف گرامچی کے دو نظریات ہیں جن کا یہاں ذکر ہوا ہے اس کے علاوہ اس کا ”روایتی اور آرگینک انٹلیکچوئلز“ کا نظریہ بھی بہت اہم ہے۔ تا ہم کہا جا سکتا ہے کہ گرامچی کی فلاسفی اج بھی اسی طرح عمل پذیر ہے جس طرح بیسویں صدی کے آغاز پر تھی اس کے نظریات آج بھی اتنے ہی قابل غور ہیں جتنے کے کل تھے اس طرح ”سیلیکشنز فرام دی پرزن نوٹ بکس“ ایک اہم کتاب بن جاتی ہے کہ جس کا مطالعہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ کل تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).