میں گل لالہ ہوں، آن لائن ہوں، لیکن دستیاب نہیں ہوں


سپر مارکیٹ میں ”سیل“ کیا شروع ہوئی، گویا عوامی اجتماع ہو گیا، حامد صاحب منیجر تھے، عملے کو چوکس اور مستعد رکھنے کے لئے خود سپر مارکیٹ میں ادھر سے ادھر چکر لگا رہے تھے اور گاہکوں کو، مطمئن کر رہے تھے، ایک خوبصورت و صبیح چہرہ خاتون پر حامد صاحب کی نظریں ٹک گیئں، ایسا لگا کہیں دیکھا ہوا ہے وہ سوچنے لگے کہاں دیکھا ہوا ہے، خاتون کے ساتھ دو چھوٹے بچے تھے، ایک بچہ گود میں تھا، ایک ادھر ادھر بھاگ رہا تھا، جس کو خاتون آؤازیں دے کر بلاتی، حامد صاحب غیر ارادی طور پر خاتون کے پیچھے پیچھے چلنے لگے، اچانک بچے کو دیکھ کر یاد آیا کہ بچے کی ویڈیوز اور تصاویر ”فیس بک“ پر دیکھی ہیں، فورا سیل فون نکال کر فیس بک لاگ ان کی تو سامنے ہی ”گل لالہ“ کا اسٹیٹس جگمگایا، ”شاپنگ ود کڈز ان سپر مارکیٹ“

اوہ تو یہ گل لالہ ہے، فیس بک فرینڈ، جس کی تصاویر اور بے معنی اشعار کے وہ دیوانے تھے، وہ والہانہ انداز میں توند سے کھکستی پتلون سنبھالتے ہوئے اس کے پیچھے گئے، گل لالہ کاوئنٹر سے بل بنوا کر سپر مارکیٹ کے بیرونی دروازے کی جانب بہ مشکل ٹرالی دھکیل رہی تھی وہ آگے بڑھے اور گل لالہ کی ٹرالی اور بچے کا ہاتھ تھام کر باہر نکلنے میں مدد دی، باہر نکل کر گل لالہ نے ان کا، شکریہ ادا کیا، حامد صاحب نے فدا ہوتے ہوئے اپنا تعارف کروایا، مجھے پہچانا میں آپ کا فیس بک فرینڈ ہوں، گل لالہ چونکی اوہ اچھا، حامد صاحب نے اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیے، گل لالہ ہنسنا، شروع ہو گئی، حامد صاحب مزید لٹو ہو گئے۔

گل لالہ نے آن لائن ٹرانسپورٹ سروس سے ٹیکسی منگوائی تھی، لیکن جب ٹیکسی کی آمد میں تاخیر ہوئی تو حامد صاحب نے ملازم سے اپنی گاڑی منگوائی اور گل لالہ کو ڈراپ کرنے کی آفر کی، جو گل لالہ نے تھوڑے نخرے دکھا کر قبول کر لی اور نخوت سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی، بچے کو آگے بٹھایا، اس کو بڑا، شوق ہے گاڑی میں بیٹھنے کا، وہ کھلکھلائی، حامد صاحب اس کی ہنسی اور دلکش دانتوں کی قطار میں کھو گئے قطعی برا نہ منایا، راستے بھر وہ باتیں بناتے رہے، گل لالہ ہنستی رہی، حامد صاحب خوش تھے کہ آخر کار ان کی دوستی اور بے تکلفی کسی خاتون سے ہو ہی گئی۔

گل لالہ کو اس کے گھر کے سامنے پہنچا کر حامد صاحب نے گاڑی کی ڈکی سے سامان نکالا اور خود گل لالہ کے ساتھ چائے پینے کے لئے منتظر ہو گئے، گل لالہ نے دروازے کا لاک کھولا اور سامان اندر رکھ کر دروازہ بند کر لیا، پھر آن لائن بات ہو گی حامد صاحب میرے شوہر آنے والے ہوں گے بہت شکریہ۔

حامد صاحب اچھا اچھا کرتے ہوئے جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر نکل لئے۔ لیکن راستے بھر گل لالہ کے بارے میں ہی سوچتے رہے کیا خوبصورت خاتون ہیں۔ کیسی گلابی رنگت ہے جیسے دودھ میں روح افزا گھول دیا گیا ہو یا پھر گلابی کریم والا کپ کیک، اوہ ہو میں بھی کیا سوچنے لگ گیا، کھانے پینے کے شوقین حامد صاحب نے خود کو جھڑکا اور سپر مارکیٹ پہنچ گئے لیکن دوران ڈیوٹی وہ گل لالہ کے متلعق ہی سوچتے رہے اور گھر پہنچتے ہی اہل خانہ پر توجہ دینے کے بجائے فیس بک پر لاگ ان ہو گئے، لیکن گل لالہ آن لائن نہیں تھی۔

حامد صاحب نے بے چین ہو کر کئی پیغامات میسجنر میں بھیج دیے، اور گل لالہ کی تصاویر دیکھ کر آہیں بھرنے لگے، بہ مشکل کھانا کھانے اٹھے اور کھانا کھا کر پھر آن لائن ہو گئے، کاش فون نمبر مانگ لیتا، وہ یہی سوچتے سوچتے سو گئے، صبح میسنجر چیک کیا تو گل لالہ نے ان کے پیغامات کے جواب میں بس ایک پیغام دیا ہوا تھا کہ میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں، لیکن حامد صاحب نے پھر تعریف و تحسین کے ڈھیروں پیغامات بھیج دیے۔

آفس پہنچ کر انہوں نے میسنجر پر گل لالہ کو کال۔ کرنی شروع کر دی، لیکن گل لالہ نے ریسیو نہیں کی، حامد صاحب نے وقفے وقفے سے سارا دن کالز کیں لیکن گل لالہ نے ریسیو نہیں کی۔ حامد بولائے بولائے سپر مارکیٹ میں میں گھومتے رہے اور ورکرز کو جھاڑتے رہے، شام کو ایک بار پھر گل لالہ کو کال کی تو اس نے ریسیو کر لی، کیا ہوا حامد صاحب وہ رکھائی سے بولی، میں آپ سے بات کرنا چاہ رہا تھا، کہئے کیا کہنا ہے، حامد صاحب نے اس کے حسن کے قصیدے پڑھنا شروع کر دیے۔

گل لالہ چپ چاپ سنتی رہی، پھر شکریہ کہہ کر کال کاٹ دی، حامد صاحب ارے کر کے رہ گئے، گھر پہنچ کر وہ دوبارہ آن لائن ہوئے اور گل لالہ کو کئی پیغامات بھیج دیے، بات تو کرو گل، میری اچھی والی سگی والی پکی والی دوست بن جاو، مجھے تم بہت پسند آئی ہو، گل نے کوئی جواب نہ دیا، لیکن میسجز دیکھ لئے، حامد صاحب کو رات بھر نیند نہ آئی وہ بری طرح عشق میں مبتلا ہو چکے تھے، صبح لشتم پشتم آفس پہنچے اور گل کو ویڈیو کال کرنے لگے، گل لالہ نے کال ریسیو کی لیکن ان کو کچھ نظر نہ آیا۔

گل لالہ بھئی تم سامنے تو آؤ۔ میں تمھاری ایک جھلک دیکھنا چاہتا ہوں، کیوں دیکھنا چاہتے ہیں گل لالہ رکھائی سے بولی، مم میرا مطلب ہے، ہم اچھے دوست ہیں، وہ ہکلائے، دیکھیں حامد صاحب، میں شادی شدہ عورت ہوں، میرے شوہر موجود ہیں۔ میں دو بچوں کی ماں ہوں، میں آپ سے کیسے دوستی کر سکتی ہوں، لیکن سوشل میڈیا پر تو آپ شوخ باتیں لکھتی رہتی ہیں، حامد صاحب تڑ سے بولے، ہاں تو وہ سوشل میڈیا ہے، خیالات کے اظہار کا ذریعہ ہے، اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ میں ہر ایک سے دوستی کے لئے دستیاب ہوں، لیکن اس دن آپ نے مجھ سے لفٹ مانگی، حامد صاحب جوش سے بولے، لفٹ۔ میں نے کب مانگی تھی، آپ تو خود پیچھے پیچھے آ گئے تھے، میں نے تو اخلاق کا مظاہرہ کیا تھا آپ کے ساتھ، مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ اس، قدر بدتمیز عورت ہیں، وہ بھنائے۔

گل لالہ نے کہا۔ حامد صاحب اس میں بد تمیزی کیا ہو گئی، کیا آپ کو اچھا لگے گا، کہ آپ کی بیگم یا آپ کی بیٹی یا بہن کسی سے دوستی کریں، میرے خاندان کی عورتیں سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتیں ہیں۔ وہ ناگواری سے بولے۔

گل لالہ کھلکھلائی۔ بہت اچھا کرتی ہیں، ورنہ کوئی آپ کی طرح ان کو بھی بار بار میسنجر پر کال کر کے تنگ کرتا، حامد صاحب غصے سے بولے، میں تو آپ کو خوش اخلاق سمجھتا تھا، لیکن آپ۔

”حامد صاحب“ گل لالہ نے ان کی بات قطع کی، دیکھئے بہت سے لوگوں سے سوشل میڈیا پر گفتگو ہوتی ہے، اور وہ وہیں تک محدود رہتی ہے۔ اور یہ تہذیب و اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ ہم ہر فرد کی ذاتی زندگی کا احترام کریں۔

آپ نے اپنی پروفائل میں اپنی سپر مارکیٹ کا نام لکھا ہوا ہے، آج تک کتنے افراد آپ سے ملنے آئے؟ بتایئے، حامد صاحب سوچنے لگے، واقعی آج تک کوئی مجھ سے ملنے نہیں آیا، میں ہر مہینے گروسری کرنے وہاں آتی ہوں، کبھی آپ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، کبھی آپ کو بتایا، نہیں نہ، اس دن اتفاق سے آپ نے مجھے دیکھا، اور فورا آ گئے، میں نے اخلاق سے سلام دعا کر لی۔ کافی تھا، لیکن آپ خود پیچھے پیچھے آ گئے تھے، میں نے آپ پر زور نہیں دیا تھا، نہ ہی یہ کہا تھا، کہ مجھے لفٹ دیں۔

حامد صاحب نے کہا، قصور آپ کا ہے، نہ آپ اپنی اور بچوں کی تصاویر لگاتیں، نہ میں آپ کو پہچانتا۔

اوہ تو تصویر لگانے کا مطلب یہ تھوڑی ہوتا ہے، کہ دوسرا فرد پہچان کر ہر جگہ باتیں بنانے اور لفٹ دینے کھڑا ہو جائے، تصویر تو آپ بھی لگاتے ہیں، کبھی کوئی آپ کے پیچھے آیا، آپ کی زندگی میں مخل ہوا، خریداری کرتے ہوئے ڈسٹرب کیا۔

حامد صاحب، گل لالہ بہت تیز ہیں آپ، دیکھنے میں تو نہیں لگتیں۔

تو نہ دیکھیں مجھے، گل لالہ نے یہ کہہ کر کال ڈس کنیکٹ کر دی، حامد صاحب نے دوبارہ کال ملانی شروع کر دی، لیکن گل لالہ نے ان کو بلاک کر دیا وہ تیزی سے گل لالہ کی وال پر پہنچے۔ تا کہ کمنٹس میں اس کو برا بھلا کہہ سکیں۔ لیکن گل لالہ نے فرینڈ لسٹ سے ان کو نکال دیا تھا وہ کمنٹس نہیں کر سکتے تھے، البتہ گل لالہ کا نیا اسٹیٹس جگمگا رہا تھا،
”میں گل لالہ ہوں، آن لائن ہوں، لیکن دستیاب نہیں ہوں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).