خان صاحب سے کچھ بھی بعید نہیں- ناقابل اشاعت کالم


سچ پوچھیے تو عمران خان کی سب سے بڑی خوبی اب تک یہی رہی ہے کہ وہ بات اس جذبے، استدالال اور تیقن سے کرتے ہیں کہ یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ یہ وہ بات ہے جو ان کے دل کی بات تھی۔ اس پر عمل پیرا نہ ہوئے تو اس قوم کا کیا بنے گا؟ یہ الگ بات کہ کچھ عرصے کے بعد خان صاحب اسی بات کے برعکس بیان دے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن مجال ہے جو استدلال، جذبے اور تیقن میں کوئی فرق پڑتا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خان صاحب کے چاہنے والے ایک نئے حوصلے سے تازہ بیان پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی نصحیت کرتے ہیں۔

اس کشیدہ صورت حال کا نام کسی دل جلے نے یو ٹرن رکھ دیا ہے۔ لیکن جو لوگ خان صاحب کی محبت میں گرفتار ہیں ان کو ایسے ناموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ان کی چھیڑ نہیں بنتی۔ چونکہ سوشل میڈیا پر خان صاحب کے ماننے والوں کے پاس کسی کی چھیڑ بنانے، کسی کو گالی دینے کے سلسلے میں ابلاغ کی کوئی کمی نہیں ہے اس لئے ایسی معمولی باتیں ان کے سر پر سے گزر جاتی ہیں۔

اکثر جگہ یہ سوال ہوا کہ خان صاحب کی حکومت کو ماشاء اللہ ایک سال بیت گیا ہے اس ایک سال میں حکومت کے کارہائے نمایاں کیا رہے؟ کیا کامیابیاں حاصل کیں؟ کیا گل کھلائے؟ تو سچ بات تو یہ ہے کہ کوئی زریں کارنامے نہ معیشت کے میدان میں نظر آئے نہ ہی سفارتی سطح پر کوئی بڑی کامیابی ان کے نام ہوئی، نہ خارجہ پالیسی کامیاب ہوئی اور نہ ہی غریب کی حالت زار پر کوئی فرق پڑا۔ نہ تھانوں کی صورت حال میں افاقہ ہوا نہ صحت کے مسائل حل ہوئے۔

نہ تعلیم کے میدان میں ہر طرف علم سے پرنور شمعیں روشن ہوئیں نہ ٹیکس کولیکشن میں کوئی امید افزاء خبر آئی۔ نہ سڑکوں کا جال بچھا نہ کوئی ڈیم تعمیر ہوا۔ نہ معاملات عدل میں کوئی بہتری ہوئی نہ کوئی قانون سازی کی طرف کوئی پیش رفت ہوئی۔ نہ اقرباء پروری ختم ہوئی نہ ہی کرپشن کا سدباب ہوا۔ نہ ادویات کی قیمت کم ہوئی نہ کسانوں کی بھلائی کے لئے کوئی کام ہوئے۔ نہ کوئی صنعتیں لگیں نہ روزگار کے مواقع عوام کو میسر آئے۔ نہ پٹرول کی قیمت کم ہوئی نہ سبز پاسپورٹ کو لازوال عزت ملی۔

لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ سال کے تین سو پینسٹھ دن گزر جائیں اور کامیابی کا کوئی سہر ا حکومت وقت کے سر نہ ہو سکے؟ بہت سوچ بچار کے بعد ایک نقطہ ذہن میں آیا اور وہ نقطہ کیا ہے ایک مکمل کارنامہ ہے۔ ایک انقلاب ہے ایک سونامی ہے۔ گذشہ ایک سال میں خان صاحب کی سب سے بڑی کامیابی خان صاحب کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ یو ٹرن لینا کوئی بری بات نہیں۔ بلکہ یہ تو سعادت کی بات ہے۔ تمام بڑے لیڈروں کی زندگی یو ٹرن لیتے گزری ہے۔

جن لیڈران کا نام انہوں نے یو ٹرن کے حوالے سے لیا میرا قلم ان کے نام لکھتے بھی کانپتا ہے۔ خان صاحب نے جب یہ یو ٹرن والا بیان دیا تو ان کے لہجے میں وہی جذبہ، تیقن اور استدلال موجود تھا جو ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ جس پر لوگ عاشق ہیں۔ جس سے سوشل میڈیا کے ٹرینڈز بنتے ہیں اور جس سے اخبارات اپنی شہ سرخیاں گھڑتے ہیں۔

یقین مانیے یہ ایک بیان اس حکومت کی ایک سال کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ بیان ایک ایسا خاص بیان ہے کہ ان چند الفاظ سے خان صاحب نے اپنے مخالفوں کو پچھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس ایک بیان کے بعد کسی بحث کی گنائش نہیں رہتی۔ اب ہم ایسے تجزیہ کار خان صاحب کی کسی بات پر تبصرہ کرتے گھبراتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ اپنا تبصرہ مکمل ہو خان صاحب اس صورت حال پر یو ٹرن لے چکے ہوں اور ہم ایسے بہت سے تجزیہ کار اپنے تبصرے کے ساتھ منہ چھپاتے پھریں۔ خان صاحب کے عزیز دوست، کابنیہ کے ممبران بھی ہر لمحے شک میں رہتے ہیں کہ جس بیان کا ابھی وہ دفاع کر رہے ہیں کہ اصلی والا ہے یا پھر چند گھنٹوں کے بعد ان کو اس کے برعکس بات کا دفاع کرنا ہے۔

اب آپ خود ہی سوچیئے کہ اس ایک بیان نے کتنے مسائل کو یک دم حل پیش کر دیا۔ اب لاکھ چینلوں اور سوشل میڈیا والے خان صاحب کے پروگراموں کے کلپ دکھائیں یا ان کی پرانی تقاریر کا حوالہ دیں سب کا پتہ ایک بیان سے پانی ہو گیا ہے۔ اب آئی ایم ایف سے قرضے پر خود کشی کی بات ہو، پشاور میں دنیا کی سب سے سستی میڑو بننے کا دعوی ہو، تین سو پچاس ڈیم بنانے کو وعدہ ہو، ایک کروڑ نوکریاں دینے کا سوال ہو، پچاس لاکھ گھر بنانے کی بات ہو، بجلی کے بل جلانے کا اعلان ہو، سول نافرمانی کی کال ہو، عوام کے ٹیکس نہ جمع کروانے کی وجوہات ہوں، سٹاک مارکیٹ کے ڈوبنے کا ماتم ہو، پٹرول کی بڑھتی قیمت کی وجہ ہو، ڈالر کی اڑان کا ذکر ہو، روپے کی ناقدری کا طرف دھیان ہو، ہر ہفتے اسمبلی آنے کا وعدہ ہو، احباب کو اہم عہدے نہ دینے کا عزم ہو، بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ذکر ہو، ڈوبتی ہوئی صنعتوں کا نوحہ ہو، پنجاب میں بزدار کی وجہ تسمیہ ہو یا پھر ایم کیو ایم سے اتحاد ہو، شیخ رشید کو وفادار ساتھی کہنے کا معاملہ ہو۔

ان سب پر خان صاحب کے پہلے بیان مختلف تھے اب بیانیہ کچھ اور ہے اور اس تضاد کا بہترین حل اس ایک جملے میں پوشیدہ ہے کہ بڑے لیڈر ہی یو ٹرن لیتے ہیں۔ یہ ان کی میراث ہے۔ یہ عظمت کی نشانی ہے۔ یہی سعادت ہے۔ یہ بزرگوں کی نشانی ہے۔ دلچست بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا ہر ہر موضوع کے حق اور مخالفت میں خان صاحب نے ایک اچھے مقرر کی طرح خوب یوٹرن لئے۔ یہ بھی ہوا کہ دیکھنے  والوں کی آنکھیں چندھیا گئیں، سننے والوں کے کان تمتما اٹھے مگر خان صاحب کے جذبے استدلال اور تیقن میں ذرا بھر فرق نہیں آیا۔

اپوزیشن کی کرپشن ایک ایسا موضوع ہے جس پر خان صاحب نے ابھی تک کوئی یو ٹرن نہیں لیا۔ اس عتاب یا سیاسی انتقام کا نشانہ زیادہ تر مسلم لیگ ن بنی ہے۔ آدھی سے زیادہ جماعت جیل میں ہے مگر خان صاحب کے جذبہ انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو رہی۔ اس مسئلے پر ابھی تک وہ اپنی طرف سے اپنے اصولی موقف پر کھڑے ہیں۔ مقدمات میں سزا ہوتی ہے یانہیں، کرپشن کا کوئی ثبوت ملتا ہے کہ نہیں، عدلیہ کے فیصلے خان صاحب کے انتقام کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں، اپوزیشن میثاق معیشت کے لئے ہاتھ بڑھاتی ہے کہ نہیں۔ اس سے خان صاحب کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

وہ اپنے کرپشن کے بیانیے پر قائم ہیں۔ لیکن فرض کریں صرف ایک لمحے کو فرض کریں کہ اگر نومبر تک خان صاحب اس بیانیئے پر یو ٹرن لے لیں تو کیا آپ اس پر یقین کریں گے؟ ایسا ہونا اس وقت ناممکنات سے میں سے لگتا ہے۔ لیکن خان صاحب کی تمام عمر ناممکنات کو ممکنات بناتے گزری ہے ان سے کچھ بھی بعید نہیں۔ کوئی بھی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایسا ہو گا کہ نہیں لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یقین مانیے کہ ایسا کرتے ہوئے خان صاحب کے لہجے میں وہی جذبہ، استدلال اور تیقن ہو گا جو ان کی کرشمہ ساز شخصیت کا خاصہ ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar