سچی اور مختصر کہانی


بادل تھمنے کو تیار نہ تھے۔  ندی نالوں میں پانی کی روانی میں بلا کی تیزی تھی۔ پانی کی سطح بلند ہوتی جا رہی تھی۔ سیلاب کے آنے کی اطلاع لاؤڈ اسپیکرز پر دی جا رہی تھی۔ ہنگامی حالات میں فوج کو الرٹ رہنے کا حکم تھا۔ سیلابی ریلے کے خوف سے اکثر مکین اپنے مسکن کو چھوڑ چکے تھے۔  کچھ رہائشی مگر اب بھی اچھے کی آس لگائے تھے۔  نجیب بھی ایسی ہی ایک بستی کا رہائشی تھا۔

وہ نربھاگی ایک گائے اور دو بکریوں کا مالک تھا۔ ایک بیوی (سکینہ) اور دو عدد بچوں کا مختار کل بھی۔ وہ جس بستی میں مقیم تھا وہاں پانی گھروں میں داخل ہو چکا تھا۔ قسمت کا مارا اپنے سامان کو نہ چھت پر رکھ سکتا تھا نہ ہی زمین پر۔ ہر چیز پانی میں ڈوب رہی تھی۔ گھٹنوں گھٹنوں تک پانی آن پہنچا تھا۔ اور کچھ دیر تھی کہ یہ سر سے گزرنے کو تھا۔ نجیب ایک آس کے سہارے اب بھی بندھا ہوا تھا کہ شاید پانی کا بہاؤ قیامت میں نہ بدلے پر اچانک بج اٹھنے والے کریہہ اور مسلسل سائرن کی آوازوں نے اس کی خوش گمانی کو توڑ ڈالا۔

دعائیں بے اثر ہو گئیں۔  اب نجیب اور اس کے گھر والوں کی بد حواسی دیدنی تھی۔ سوچنے کا وقت ختم ہو گیا تھا اور گھر کو چھوڑنے میں عافیت تھی۔  یعنی جان بچانا مقدم ٹہرا تھا۔ تیزتیز قدم اٹھاتے کسی محفوظ کنارے پر جانے کی تمنا تو تھی پر بکھرتے پانی میں چلنا آسان کہاں تھا۔ پیر من من کے ہو رہے تھے۔  بڑے سیلاب کا پہلا ریلا آن پہنچا تھا۔

تیز پانی کے تھپیڑے کچے پکے گھروں کے لیے سہنا آسان نہ تھا۔ کچھ خود کو بچا رہے تھے اور کچھ دوسروں کو سہارا دیتے ڈوب رہے تھے۔  درختوں کی شاخیں بہت سے ڈوبتوں کا سہارا بنی ہوئیں تھیں۔  مختصر سے وقت میں بہتے پانی میں بہت سی لاشیں تھیں۔  جن کو پانی کی طغیانی لوگوں کی نظروں سے اوجھل کر رہی تھی۔ نجیب بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ اس ہی منجدھار کا حصہ بنا ہوا تھا۔

بڑی مشکل سے نجیب نے خود کو کنارے لگایا۔  سکینہ نے بچوں کو اپنی چادر کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔  وہ بچوں کو پانی سے نکالنے کے لیے بے تاب تھی۔ سکینہ نے تیزی سے نجیب کو بچے تھمانے کی کوشش کی۔ لیکن اس نے پہلے جانوروں کی رسیوں کو کھینچا۔ اتنے میں پانی کا ایک اور ریلا ان پہنچا۔ جس نے نہ عمر دیکھی نہ صنف اور اس کے بچوں کو بہا لے گیا۔ سکینہ ڈوبتے ڈوبتے بچ گئی۔ شاید بچ کے بھی مر گئی۔  لاشوں کی تلاش میں اندھیرا چھا چکا تھا۔ وہ بہت سی لاوارث لاشوں کی طرف لپکے مگر مایوسی واحد متاع تھی جو ان کے ہاتھ آئی۔ کہیں بھی بچوں کا سراغ نہ مل پایا۔ شاید ان کی قسمت میں بچوں کو گلے لگا کر دفنانا نہ تھا۔ گرتے پڑتے وہ نجیب کے چچا کے گھر پہنچ پائے۔  سکینہ کی آنکھوں میں بھی اونچے درجے کا سیلاب تھا۔ کہ آنسو رکے نہ رک رہے تھے۔

سکینہ کو ماتم کرتے تین راتیں ہو چلی تھیں۔  آج بھی تاریک رات میں وہ چارپائی پر بیٹھی سسکیاں بھر رہی تھی۔ نجیب نے پھر چند بول تسلی کے بولے پر وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔ شکوہ کرتے کرتے سکینہ پوچھ ہی بیٹھی کہ وہ اپنی اولاد کو بھی پہلے پکڑ سکتا تھا۔  اس نے چوپائیوں کو پہلے پار کیوں لگایا؟ یہ سنتے ہی نجیب کے تیور بدل گئے۔

اس نے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کرتے ہوئے کہا ”کمبخت اگر ڈھور ڈنگر مر جاتے تو ہمیں کون پالتا۔ روزی روٹی تیرا باپ دیتا بس کر اب یہ رونا دھونا۔ آج سے تو یہ لکھ رکھ کہ سال کے اندر اندر تیری کوکھ خالی نہ رہے گی“ ساتھ ہی نجیب نے چارپائی پر روتی بلکتی سکینہ کی ٹانگ زور سے گھسیٹی اور اپنے پہلو میں لٹا لیا۔

( 2011 کے سیلاب کا سچا واقعہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).