کیا آپ نے کبھی ماں کے دل میں جھانکا ہے؟


محترمہ ہما دلاور کا مامتا نامہ موصول ہوا۔ لکھا تھا

محترمی ڈاکٹر خالد سہیل صاحب! آداب !

آج سے تقریبا دس برس قبل جب میری بیٹی پیدا ہوئی تو مجھے خوش فہمی کی حد تک یہ گمان تھا کہ اس سماجی جانور (social animal) کو انسان بنانا میرے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا. کیونکہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد بہن کی صورت میں ایک چھ سالہ بچی اور پھر شوہر کی شکل میں اپنی ساس کے ارسال کردہ 26 سالہ سماجی جانور کو انسان بنانے کی اچھی خاصی نیٹ پریکٹس کر چکی تھی گو کہ اس وقت بھی یہ کام انتہائی مشکل ثابت ہوا تھا پھر بھی بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق۔ اس وقت شاید وجہ یہ بھی رہی ہو کہ جلنے کا تجربہ ہی نہ تھا تو ڈر کیسا؟ سو میں نے چھینی ہتھوڑی اٹھائی اور ٹھوک ٹھاک کر ان سماجی جانوروں کی کچھ نہ کچھ انسان نما صورت نکال ہی لی۔ اگلوں نے بہت شور مچایا بڑی ہاہاکار مچائی بہت دہائی دی مگر میں نے پوری ایمانداری سے اپنی سماجی ذمہ داری کو نبھایا.

اپنے دیس میں چھینی ہتھوڑی چمٹا بیلن سے کام ممکن بھی تھا لیکن کینیڈا جیسے ملک میں یہ ممکن نہیں۔ یہاں جانوروں کے بہت حقوق ہیں بھلے جانور سماجی ہوں یا غیر سماجی۔ خیر جب ہم اپنی بیٹی کو ہسپتال سے لے کر گھر آئے تو ہم نے اس کے crib کے ساتھ ایک خوبصورت سی شیشی میں hand sanitizer رکھ دیا۔ تاکہ جو کوئی بھی ہمارے گھر ہماری بچی کو دیکھنے آئے وہ پہلے اپنے ہاتھ صاف کر لے۔ جراثیم سے پاک ہوجائے اور پھر ہماری بیٹی کو ہاتھ لگائے۔ تاکہ وہ باہر کی دنیا کے جراثیم سے دور اور بیماریوں سے محفوظ رہ سکے۔

ہم اپنی عقلمندی اور بہترین حفاظتی و احتیاطی اقدامات سے بہت خوش اور مطمئن تھے کہ ہمارے بھائی صاحب تشریف لائے۔ علیک سلیک اور مبارکباد کے بعد وہ نوزائیدہ کو دیکھنے پالنے (Crib) کے قریب پہنچے گود میں اٹھانے لگے تو ہم نے ٹوکا کہ پہلے ہاتھ جراثیم سے پاک کر لیجئے۔ وہ ہنسے اور فرمانے لگے بچی کو اتنا چھوئی موئی کی طرح نہ پالو اس کو اپنے اردگرد کے ماحول سے خود لڑنے دو ورنہ اس کا امیون سسٹم کمزور رہ جائے گا۔ پاکستان میں دیکھا ہے بچے کیسے پلتے ہیں! مجھے ان کی بات بہت ناگوار گزری اور شدید غصہ آیا دل چاہا کہ ان کو پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کے اعدادو شمار بتائے جائیں اور پھر اس بات پر کھری کھری سنائی جائے کہ یہ مشورہ دینے کی انہوں نے جرات بھی کیسے کی؟ لیکن بڑے ہیں اس لئے خون کے گھونٹ پی کر چپ رہی۔

ساڑھے تین سال بعد بیٹی نے سکول جانا شروع کیا۔ وہ بالکل صحت مند تھی ہم بہت خوش اور مطمئن تھے کہ اچانک اس نے بیمار رہنا شروع کردیا ہر وقت نزلہ، کھانسی، گلا خراب اور بخار۔ ڈاکٹر کو دکھاتے دس روز اینٹی بائیوٹک کا کورس چلتا، بمشکل دس پندرہ دن سکون سے گزرتے پھر وہی گلا خراب بخاراور وہی اینٹی بائیوٹک۔ فیملی ڈاکٹر کو دکھایا۔ بچوں کے ڈاکٹر سے سے ملے۔ الرجی ٹیسٹ ہوئے۔ کان، ناک اور گلے کے اسپیشلسٹ کو دکھایا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ سات سال کی عمر کو پہنچنے تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور پھر وہ بہتر ہوجائے گی۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بچی انتہائی محفوظ اور جراثیم سے پاک ماحول میں رہی ہے۔ اس لیے وہ باہر کی دنیا کے جراثیم سے لڑنے کے لیے تیار نہیں اور سات سال کی عمر تک اس کا امیون سسٹم اتنا مضبوط ہو جائے گا کہ وہ اپنے حصے کی لڑائی خود لڑ سکے۔

آج بیٹی ساڑھے دس سال کی ہے ذہنی، جسمانی، جذباتی ہر لحاظ سے بالکل صحت مند ہے۔ لیکن آج میرے سامنے پھر یہ سوال کھڑا ہے کہ اب مجھے اس کے جھولے کے پاس Hand sanitizer رکھناہے یا نہیں؟ اس کا جسم آج باہر کی دنیا کے جراثیم سے لڑ سکتا ہے لیکن اس کے ذہن اور جذبات کو اردگرد پھیلے خوفناک جراثیم سے لڑنے کے لیے کیسے تیار کیا جائے؟ کاش پولیو کے قطروں اور فلو شاٹ کی طرح کوئی immunization ہو جو اس کے ذہن اور جذبات کو محفوظ بھی رکھے اور وہ آزادانہ اپنی زندگی سے محظوظ بھی ہو سکے۔

میں اپنی بیٹی کی سب سے قریبی دوست ہوں اور ہمیشہ رہنا چاہتی ہوں۔ مگر دوست ناصح نہیں ہوا کرتا۔ اگر بن جائے تو دوست نہیں رہتا۔ آج اس کے پاس ہر طرف سے مستنفد اور غیر مستند معلومات کی بھرمار ہے۔ مجھے اعتراف ہے اور خوشی بھی کہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ معلومات رکھتی ہے. لیکن صرف انفارمیشن یا معلومات کا ہونا کافی ہے؟ کیا دانائی کا ہونا ضروری نہیں؟ دانائی جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ان تمام معلومات یا انفارمیشن کا کب، کہاں اور کیسے استعمال کرنا ہے؟ مگر دانائی کا تعلق تجربے سے ہے۔ اب ایک سوال تو یہ ہے کہ یہ کیوں کر ممکن ہو کہ وہ ہاتھ جلائے بغیر یہ تجربہ حاصل کر لے کہ آگ جلا دیا کرتی ہے؟ دوسرا اور اہم سوال یہ ہے کہ اس کو کیسے یہ سکھایا جائے کہ اس کے پاس معلومات کا جو ذخیرہ ہے اس کو کافی، درست اور واحد سچ نہ سمجھا جائے اور اگر اس کے پاس موجود کسی انفارمیشن پر سوال اٹھایا جائے تو وہ اس کو اپنی ذات یا سمجھ داری پر حملہ تصور نہ کرے؟

اس سب کے علاوہ ایک اور دلچسپ صورتحال جو درپیش ہے وہ یہ کہ ہمارے درمیان صرف جنریشن گیپ ہی نہیں کلچرل گیپ بھی حائل ہونے کے تمام لوازمات موجود ہیں۔ یہ گیپ درمیاں حائل نہ ہو اس کے لیے مجھے یہ سیکھنے کی شدید ضرورت ہے کہ میں جس کلچر سے آتی ہو اس کا اپنا ویلیو سسٹم ہے اور جس میں آج میری بیٹی رہ رہی ہے اس کا اپنا۔ میرے پاس کون سی ایسی اقدار ہیں جو اپنی بیٹی تک منتقل کرنا ضروری ہے کونسی اقدار ایسی نہیں یا کوئی بھی نہیں؟

مثلاً ہمیں یہ سکھایا گیا کہ جب کوئی آپ سے عمر میں بڑا کمرے میں داخل ہوں تو تعظیما کھڑے ہوکر اپنی جگہ ان کو پیش کی جائے۔ یا اگر بڑے بیٹھے ہو ان کے سامنے پیر پسار کر لیٹا نہ جائے وغیرہ وغیرہ۔ تو یہاں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیاعزت اور تعظیم ہر انسان کی نہیں ہونا چاہیے عمر، رتبہ، پیسہ، رنگ، نسل تعلیم اور تجربے سے غیر مشروط؟ اس وقت مجھے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے تو بہت کچھ سیکھا ہوا بھلانے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ مگر کیا؟ اب تک میری بیٹی میری دنیا کا حصہ تھی اب وہ اپنی دنیا خود بنا رہی ہے ہر ماں کی طرح میری بھی یہ خواہش ہے کہ وہ ایک محفوظ اور خوبصورت دنیا تخلیق کرے جہاں آزادی ہو، محبت ہو، عزت نفس کا احترام ہو، اظہار کی آزادی ہو، امن ہو، آشتی ہو، سکون ہو، خوشیاں ہوں اور میرے پاس اس دنیا کی خبر ہی سہی!

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail