پھر تمہارا خط آیا


عید آئی، اور گزر گئی!

ویسے ہی جیسےسورج چڑھتا ہے اور ڈھل جاتا ہے! ویسے ہی جیسے برس گزر جاتے ہیں اور ویسے ہی جسے عمر بیت جاتی ہے، بچپن سے جوانی اور پھر اگلی منزلیں!

عید پہ ڈھیروں تہنیتی کارڈ آئے، پیغام ملے، فون پہ رنگوں جیسی، خوشبو بھری باتیں ہوئیں، تقریبات میں گئے، دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور محبت بھرے تحفے وصول کیے!

ایک بات ہم نے پھر شدت سے محسوس کی!

دوستی، محبت، الفت، کوئی بھی رشتہ ہو، تبھی زندہ رہتا ہے جب اسے اپنی یاد اور اپنے وقت سے سینچا جائے۔ وقت سے چرائے لمحے اور یادوں کے جگنوؤں کی روشنی دلوں کو جگمگا دے، چاہے بیچ میں سات سمندر کی دوری ہو۔

رشتے خون کے ہوں یا محبت کے، دوستی ہو یا تعلق داری، چاہ اور پرواہ کی بوندیں اترنی چاہیئں، تواتر کے ساتھ، قطرہ قطرہ۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو دوری، لاتعلقی، بیگانگی، بے رخی اور فاصلوں کا زہر ان کو وقت کے اتھاہ سرد خانے میں دھکیل کے انجام سے پہلے مار ڈالتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ دنیا کے کسی بھی تعلق کو سرد مہری سے نہیں برتا جا سکتا۔ یہ خوش فہمی نہیں پالی جا سکتی کہ رشتہ کچھ بھی ہو، قائم رہے گا۔

احساس اور خیال کی تتلیوں کو الفاظ کے خوشرنگ پھولوں میں ڈھال کے اپنے پیاروں اور دوستوں تک یہ پیغام پہنچانا لازم ہے کہ ہمیں ضرورت ہے تمہاری، ہم سوچتے ہیں تمہیں ، ہماری زندگی وابستہ ہے تم سے، ہم تشنہ لب ہیں تمہارے بنا اور گزرتے ہوئے ہر لمحے میں ہم تمہیں ساتھ محسوس کرتے ہیں۔

محبت نامے جو پردیس میں یاد اور احساس کی آبیاری کرتے رہے!

ہم نے محبت و الفت کا یہ ہنر اپنے ابا سے سیکھا!

ہم پانچ سال میڈیکل کالج کے ہوسٹل میں رہے۔ دو سو لڑکیاں اور ہوسٹل کا اکلوتا فون، سو جس لڑکی کی گھر سے آنے والی کال ایٹنڈ ہو جاتی، وہ خوش قسمت سمجھی جاتی۔ ان چند ساعتوں کی گفتگو کے لئے ہر کسی کے گھر والے پہروں کوشش کرتے۔

ہمارے ابا نے اس مشکل کا حل سوچا اور ہمیں خط لکھنا شروع کیے، ہر ہفتے ایک خط۔ محبت، احساس اور خیال کی خوشبو سے اٹا ہوا، ہمارے جواب کا انتظار کئے بنا، ان کا ہفتہ واری خط پہنچ آتا، جوابی لفافے کے ہمراہ۔

ہماری بلڈنگ کے برامدے میں ایک بنچ پڑی ہوتی اور اس پہ ڈاک سجی ہوتی۔ ہم سب کالج سے واپسی پہ بینچ کے پاس آتے۔ ہر کسی کی نظر میں اشتیاق بھرا انتظار ہوتا۔ ابا کی مخصوص لکھائی والا لفافہ دور سے نظر آجاتا۔ ہم بڑے فخر سے وہ لفافہ اٹھاتے۔ ہماری سب دوستیں ابا کی باقاعدگی سے خط لکھنے والی عادت پہ رشک کرتیں۔ ابا کے جوابی لفافے پہ ایڈریس تک لکھا ہوتا۔ اور ہمیں وہ لفافہ ابا کی ڈاکیے کے انتظار میں دروازے پہ مرکوز آس بھری آنکھیں لگتا۔

خط میں گزشتہ ہفتے کی پوری تفصیل لکھی ہوتی، گھر میں کون آیا، کون گیا، کیا باتیں ہوئیں، کیا مہمان داری ہوئی۔ کیا تحفے تحائف لیے اور دیے گئے۔ اماں کی کیا مصروفیات رہیں، کتنی دفعہ شاپنگ پہ گئیں، کیا کچھ خریدا، موڈ کب کب خراب ہوا۔ ابا کو کتنے دوستوں کے خط ملے، کتنے دوستوں سے ملاقات ہوئیں، کن کن باتوں پہ بحث ہوئی۔ انہوں نے کیا پوچھا اور ابا نے کیا جواب دیا؟

چھوٹے بہن بھائی کیا کرتے رہے؟ کس کے سکول میں کیا فنکشن رہا، انعام جیتا گیا کہ نہیں، کون پڑھائی میں ڈھیلا رہا، آپس میں کتنی لڑائیاں ہوئیں۔

موسم کیسا چل رہا ہے، اگر سردی کی آمد آمد ہے تو اس کی کیا تیاری ہے، لحافوں کو دھوپ لگوائی جا رہی ہے۔ اماں نے ہمارے لئےکیسا سویٹر بنا ہے۔

میری کس کس دوست کا فون آیا۔ کس تقریب کا دعوت نامہ ملا ہے؟ کون کون شرکت کرے گا؟ کیا تحفہ دیا جائے گا؟

اس ہفتے ابا نے کون سی کتاب پڑھی؟ اور انہیں کیسی لگی، کون سی میرے لئے رکھ چھوڑی ہے۔ کس کتاب کا انتظار ہے؟

اماں نے کونسی موسم کی سبزی پکا کے ہمیں یاد کیا اور اب ہمارے آنے پہ کیا پکایا جائے گا؟ بھیا کی کاکول سے کیا خبریں ہیں اور آپا کی سسرال میں سب خیریت ہے۔ آپا کی بیٹی دانت نکال رہی ہے۔

ابا نے ان پانچ برسوں کا ایک ایک لمحہ ان خطوط میں پرو کے ہمیں ارسال کیا۔ ہمیں ہمیشہ محسوس ہوا کہ ہم گھر کی فضا میں سانس لیتے ہیں، پل پل ان کے ساتھ بتاتے ہیں۔ ہم نے ہر منظر میں خود کو موجود پایا، کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہوئے۔

ہماری زندگی میں کہیں محبت کی تشنگی نہیں تھی کہ ہم رہتے تو لاہور میں تھے لیکن ہمارا دل پنڈی میں دھڑکتا تھا۔ ہماری عمر کے وہ پانچ سال دونوں شہروں میں بیک وقت گزرے اور اس کا سہرا ابا کے سر رہا۔

ہم پورا ہفتہ وہ خط بار بار پڑھتے اور ہر دفعہ محبت کی آنچ محسوس کرتے۔ ابھی جواب بھی نہ لکھا ہوتا کہ اگلا خط بینچ پہ دھرا ملتا۔

تعلق، احساس اور چاہ کی یہ تکون ہمارے ابا نے اپنے بہن بھائیوں سے بھی نبھائی۔ ابا کی اکلوتی چھوٹی بہن بیاہ کے لاہور جا چکی تھیں۔ ہم نے عمر بھر ابا کو انہیں اسی اہتمام سے تفصیلا ہفتہ واری خط لکھتے دیکھا۔ ابا کم گو تھے لیکن خط میں اپنا دل کھول کے رکھ دیتے۔

ابا کے بڑے بھائی کچھ فاصلے پہ اسی شہر میں رہتے تھے، کچھ وجوہات کی بنا پہ ملنا جلنا نہیں تھا۔ ابا ہر جمعے کی نماز کے بعد تایا کے گھر جاتے، کھڑے کھڑے دروازے پہ ملتے اور کہتے، میں سلام کرنے حاضر ہوا تھا اور پھر پلٹ آتے۔ یہ روٹین عمر بھر رہی، کوئی گلہ و شکوہ کیے بنا۔

آج جب زندگی کا سفر اتنا آگے بڑھ چکا، زندگی کی بے مقصد ہما ہمی سب کو اپنا شکار کر چکی، تعلقات میں نامحسوس فاصلے اور دراڑیں پڑ چکیں، وقت کی کمی سب کو لپیٹ میں لے چکی، ہمیں آج بھی اپنے ابا کی فلاسفی اور سوچ پہ رشک آتا ہے۔

زندگی وہ ہشت پا شکنجه ہے جو کسی کو بھی آسانی سے یہ سہولت فراہم نہیں کرتا کہ اپنے پیاروں کو وقت کی دولت سے اور یادوں کے جگنوؤں سے نوازے۔ باوجود اس کے کہ رابطے کہیں زیادہ آسان ہو چکے، دنیا ایک ہتھیلی کے برابر آلے میں سمٹ آئی، ریڈیائی لہریں نے ہر گھر میں ڈیرا ڈال لیا اور آواز دینا اور آوازسننا کسی خط اور ڈاکیے کا محتاج ہی نہیں رہا۔

سو ہم سمجھتے ہیں کہ زندگی کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ جن سے دل کا تعلق ہو، انہیں رابطے، چاہ اور پرواہ سے بتایا جائے، چاہے کچھ ساعتوں کے لئے کہ ہم تمہیں یاد کرتے ہیں۔ ہمارے ذہن کی پرپیچ اور اندھی گلیوں میں تمہاری یادیں بھٹکتی ہیں۔ دل کے ایک نیم تاریک گوشے میں تمہارے ساتھ بتائے پل اور تمہارے ساتھ کی باتیں سانس لیتی ہیں اور اسے روشن کرتی ہیں۔ روح انبساط کے ہلکورے لیتی ہے جب ان یادوں سے خوشبو اٹھتی ہے اور مشام جاں معطر کرتی ہے۔

تو چلیے، دیر کس بات کی، فون ملائیے اور کہہ ڈالیے سب ان کہی، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور بے اعتنائی کا زہر رگوں میں پھیل کے وقت سے پہلے کسی کی جان لے لے! اس سے پہلے کہ ابن انشا کی یہ خوبصورت سطریں ہمارے بچوں کے لئے اپنے معنی کھو بیٹھیں۔

شام حسرتوں کی شام

رات تھی جُدائی کی

صبح صبح ہرکارہ

ڈاک سے ہوائی کی

نامۂ وفا لایا

پھر تمہارا خط آیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).