پاکستانی پاسپورٹ نہ کشمیر کارڈ: انڈیا کے زیر انتظام کشمیر جانے والی پاکستانی خواتین واپس آنے کی خواہش مند


نوے کی دہائی میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے نوجوان بڑی تعداد میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں آ کر آباد ہو گئے۔ ان نوجوانوں نے نہ صرف یہاں رہائش اختیار کی بلکہ شادیاں بھی کیں۔

یہ شادیاں اس وقت تک کامیابی سے چلتی رہیں جب تک انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کشمیری جنگجوؤں، جنھیں پاکستان میں پناہ گزینوں کا درجہ حاصل تھا، کے لیے عام معافی کا اعلان نہیں کیا تھا۔

سنہ 2010 میں انڈین حکومت نے ‘ملیٹینٹ ری ہبیلی ٹیشن’ نامی ایک سکیم کا اعلان کیا تاکہ پاکستان گئے کشمیری انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر لوٹ سکیں بشرطیہ کہ انھوں نے مسلح تشدد کا راستہ ترک کر دیا ہو۔ اس سکیم سے کئی کشمیری نوجوان غیرقانونی طور پر، مگر انڈین حکومت کی خاموش حمایت کے ساتھ، اپنی پاکستانی بیویوں اور بچوں سمیت انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر لوٹ آئے۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر میں پاکستانی خاتون کی فریاد

’نہ سسرال اپناتا ہے نہ پاکستان جانے کی اجازت‘

پاکستانی قیدی کی میت واپس کر دی گئی

اس عام معافی پر کشمیری نوجوانوں کے اہلخانہ میں کئی خواتین خوشی خوشی آ گئیں مگر کچھ نے اپنی ازدواجی زندگی اور اپنے بچوں کی خاطر انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کا رُخ اس امید پر کیا کہ ان کو اپنے والدین سے ملنے ملانے میں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

ایسی ہی کچھ خواتین کے خاندانوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جاتے ہوئے تو کسی قسم کی روک ٹوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر وہاں سے جب پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آنے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ ان خواتین کے پاس تو کسی قسم کے سفری دستاویزات ہی نہیں ہیں۔

ان خواتین نے کئی مرتبہ قانونی طور پر واہگہ بارڈر اور کشمیر کی لائن آف کنٹرول پار کر کے پاکستان آنے کی کوشش کی ہے مگر انھیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔

ناظمہ کی کہانی

مظفر آباد کی رہائشی ناظمہ کی شادی بارہ مولا کے رہائشی فرید سے سنہ 2003 میں ہوئی۔ ناظمہ کی چھوٹی بہن عظمیٰ عباسی کے مطابق ناظمہ اپنے شوہر اور ایک کم عمر بچی کے ساتھ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر چلی گئیں۔

بہن عظمیٰ کے مطابق ناظمہ کو امید تھی کہ انھیں والدین سے ملنے اور کشمیر کے آر پار جانے میں رکاوٹ نہیں ہوگی مگر کئی سال گزر جانے کے باوجود ناطمہ سے ملاقات نہیں ہو سکی۔

ناظمہ کے اب پانچ بچے ہیں اور ان کے والد کا انتقال ہو چکا ہے۔ مگر چاہنے کے باوجود بھی وہ پاکستان نہیں آ سکتیں۔

عظمیٰ عباسی کا کہنا تھا کہ جب پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بس سروس شروع ہوئی تو اس وقت بھی ناظمہ بہت خوش تھیں کہ چلو کوئی سبب بن جائے گا مگر ان کو اس کی بھی اجازت نہ ملی۔

میں نے اور میری والدہ نے درخواست دی تھی تو اس پر دو، تین ماہ پہلے کہا جارہا تھا کہ شاید ہمیں اجازت مل جائے مگر ابھی تک ہماری درخواست کا بھی کچھ پتہ نہیں چلا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ناظمہ گذشتہ تین، چار ماہ سے خوش تھیں کہ کہیں کوئی راستہ نکل آئے گا۔ مگر اب تو انڈیا نے آئین کا آرٹیکل 370 ہی ختم کر دیا ہے۔ پہلے جب کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی اس وقت اس کو آنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ اب کیا ہوگا۔ سمجھ میں نہیں آتا۔

کاش بیٹی کی شادی نہ کرتے

قرۃ العین صوبہ خیبر پختوںخواہ کے شہر ایبٹ آباد کی رہائشی تھیں۔ ان کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

ان کی والدہ خالدہ خان نے بتایا کہ ان کی بیٹی کا رشتہ جاننے والوں کی وساطت سے طے ہوا۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ لڑکا اب پاکستان ہی میں رہے گا اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر واپس نہیں جائے گا۔

لیکن انڈیا کے عام معافی کے اعلان پر قرۃ العین کے شوہر نے بھی واپسی کی ٹھانی اور انھیں اپنے کم عمر بیٹے کی وجہ سے مجبوری میں جانا پڑا۔ آج وہ تین بچوں کی ماں ہیں۔

قرۃ العین کے والد بیٹی کی یاد میں بیمار رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنی بیٹی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہزاروں روپے بھی لٹائے ہیں اور اب ہر وقت یہ ہی کہتے ہیں کہ کاش گزرا وقت واپس آجائے۔ کاش میں اپنی بیٹی کی شادی کرنے کی غلطی نہ کرتا۔

خالدہ خان کا کہنا تھا کہ قرۃ العین نے سفری دستاویزات حاصل کرنے کی بہت کوشش کی ہے۔ اس نے انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں کو بہت درخواستیں دی تھیں مگر اس کو نہ تو پاکستان کا پاسپورٹ مل سکا اور نہ ہی انڈین حکومت نے کارڈ دیا۔ مگر اس کے باوجود ہمیں کچھ امید تھی کہ جس طرح دونوں اطراف کے کشمیری آتے جاتے ہیں ہماری بیٹی بھی کسی دن آجائے گئی۔

مگر اب پتہ چلا کہ انڈیا نے کشمیریوں سے وہ حق بھی چھین لیا ہے۔ پتہ نہیں اب قرۃ العین کے ساتھ کیا ہوگا۔

‘حکومتِ پاکستان پاسپورٹ نہیں دیتی’

ایسی ہی ایک خاتون نے، جن کی بیٹی کی شادی انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے ایک نوجوان سے ہوئی، سکیورٹی کے نقطہ نظر سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہم نے تو رشتہ نمازی، نیک اور پرہیز گار دیکھ کر دیا تھا۔

وہ بھی کشمیری تھا، ہم بھی کشمیری تھے۔ بلکہ رشتہ داری بھی تھی۔ میں اس کے بزرگوں کو جانتی تھی۔ اس بنا پر جب وہ آتا تو ہم اس کی مہمان داری کرتے۔ مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ میری بیٹی کی زندگی ہی تباہ کر دے گا۔

خاتون کا کہنا تھا کہ شادی کے ابتدائی دن تو بہت اچھے گزرے۔ ہم نے داماد کو مظفر آباد ہی میں کاروبار کروا دیا اور بیٹی کو گھر بھی دلا دیا تھا۔ بیٹی خوش تھی، ہم بھی خوش تھے۔ وہ دو بچوں کی ماں بن گئی تھی۔‘

مگر اس دوران اس پر بھوت سوار ہوا کہ وہ اب واپس (انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر) اپنے خاندان میں جائے گا جہاں پر اس کا گھر اور زمین ہے۔ ہم نے بہت سمجھایا کہ اس طرح مت کرو۔ میری بیٹی بھی نہیں مان رہی تھی۔

پھر انھوں نے اس دن کا احوال بتایا جو ان کے لیے قیامت کا دن تھا۔

لائن آف کنٹرول

ان پاکستانی خواتین نے کئی مرتبہ کشمیر کی ایل او سی پار کر کے پاکستان آنے کی کوشش کی ہے مگر انھیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔

داماد اور بیٹی ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ اس دوران داماد اٹھا اور کہا کہ وہ میرے نواسے کو باہر سے چکر لگوا کر واپس آتا ہے اور یہ کہہ کر نکل گیا۔ ایک، دو، تین گھنٹے گزر گئے۔ دن بھی ختم ہوگیا اور رات بھی مگر وہ واپس نہ آیا۔ تلاش کی تو پتہ چلا کہ وہ اپنے دوستوں کو بتا کر گیا تھا کہ وہ واپس جارہا ہے۔

دو، تین دن بعد بذریعہ ڈاک اس کا خط ملا جو مظفر آباد ہی سے پوسٹ کیا گیا تھا جس میں اس نے ہماری بیٹی سے کہا تھا کہ وہ پریشان نہ ہو بیٹے کو وہ لے کر جا رہا ہے اور بیٹی کو چھوڑ رہا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو ایک اور خاندان چند دن بعد کشمیر جائے گا وہ اس کے ساتھ کشمیر آ سکتی ہے اور اپنے بیٹے کو دیکھ سکتی ہے۔

خاتون کے مطابق کچھ دن بعد اس کا فون بھی آیا جس میں اس نے یہ بات کی کہ وہ اپنے خاندان اور علاقے کے بغیر نہیں رہ سکتا، اگر چاہے تو وہ آ سکتی ہے ورنہ وہ اس کو طلاق دے دیگا۔ اور وہ بیٹی کو اپنی پاس رکھ سکتی ہے جبکہ بیٹے کی پرورش وہ خود کرے گا۔

میری بیٹی کا اپنے بیٹے کی جدائی میں برا حال ہو چکا تھا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے روتی تھی۔ پھر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ (انڈیا کے زیر انتظام) کشمیر جائے گی۔ بہت روکا مگر وہ بیٹے کی محبت میں پاگل ہو چکی تھی اور وہ پھر ہمارے روکنے کے باوجود اپنی بیٹی کو چھوڑ کر ایک اور جوڑے کے ساتھ کشمیر چلی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ وہ ہر صورت واپس پاکستان آنا چاہتی ہے مگر اس کے پاس انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کا کارڈ ہی نہیں ہے کہ واپس آئے۔ حکومتِ پاکستان اس کو پاسپورٹ ہی نہیں دیتی۔

اب تو وہاں کا قانون ہی بدل چکا ہے۔ کوئی بھی ہماری مدد نہیں کررہا۔ کوئی (کچھ) بھی نہیں بتا رہا۔‘

قانونی حیثیت کا سوال

انسانی حقوق کے کارکن اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں موجود خواتین کا معاملہ اٹھانے والے انصار برنی ایڈووکیٹ کے مطابق ایسی 350 خواتین کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ میرا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں۔ میں ان کا مقدمہ انسانیت کے ناطے لڑ رہا ہوں۔

انصار برنی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ان خواتین میں کچھ کو طلاق ہوچکی ہیں، کچھ بیوہ ہیں، کچھ کے خاوندوں نے دوسری شادیاں کرلی ہیں۔ کئی ایک کو شدید قسم کے گھریلو مسائل کا سامنا ہے۔

میرا ایسی خواتین سے بھی رابطہ ہے جو انتہائی (مہلک) امراض میں مبتلا ہیں۔ ان کو مناسب علاج معالجہ دستیاب نہیں۔ ان کو وہاں ملازمت، کاروبار اور بنیادی سہولتیں تک دستیاب نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان پاکستانی خواتین کی بڑی تعداد پاکستان یا اس کے زیرِ اتنظام کشمیر میں اپنے والدین کے پاس ہر صورت واپس آکر دردناک زندگی سے نجات چاہتی ہیں۔

مگر ان کی واپسی اور آنا جانا پانچ اگست سے پہلے کے ماحول میں ممکن نہ ہو سکا جب کشمیر کے آر پار جانے والے کشمیری دونوں اطراف کے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں سے سادہ کاغذ پر لکھی درخواستوں پر راہداری پرمٹ حاصل کرلیا کرتے تھے۔

ایل او سی

انصار برنی کہتے ہیں کہ پاکستان پر لازم ہے کہ وہ دنیا بھر میں موجود اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے

اب تو انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ہی تبدیل کردی ہے۔ اس کے بعد کیا صورتحال ہوگی اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ مگر کشمیریوں کو جو دونوں اطراف سے کچھ سہولتیں دی گئیں تھیں وہ شاید اب انڈیا کے قوانین کی رو سے بھی ممکن نہ ہوسکیں۔

انصار برنی ایڈووکیٹ کے مطابق اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں موجود پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی خواتین یا پاکستانی خواتین اب بھی قانونی طور پر پاکستانی ہیں اور ان سے پیدا ہونے والے بچے بھی پاکستانی ہیں۔

ان خواتین نے کئی مرتبہ دلی میں موجود پاکستانی سفارت خانے سے رابطے قائم کر کے پاسپورٹ کی درخواستیں دی تھیں۔ جس میں، میں نے سفارت خانے کو یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ اگر ان خواتین اور ان کے بچوں کو پاسپورٹ دینے کے لیے کاغذات وغیرہ کی ضرورت ہے تو ہم ان کو یہ سب کچھ فراہم کرنے کو تیار ہیں۔

مگر پاکستانی سفارت خانے نے اس پر کبھی بھی مثبت جواب نہیں دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین خاتون نے ہائی کمیشن سے خود رابطہ کیا: دفترِ خارجہ

پاکستان میں قید انڈین شہریوں کے لواحقین کی تلاش

انڈیا میں 505 پاکستانی شہری قید ہیں: وزارتِ خارجہ

انصار برنی کہتے ہیں کہ پاکستان پر لازم ہے کہ وہ دنیا بھر میں موجود اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اب اگر پاکستان اپنے پاکستانی شہریوں کو پاسپورٹ، جو کہ ان کا حق ہے، جاری کرتا ہے تو یہ آسانی سے سفر کرسکتی ہیں اور اس میں اگر کوئی رکاوٹ حائل ہوتی تو اس کو قوانین کے مطابق دور بھی کیا جاسکتا ہے۔

انصار برنی کے مطابق اب ان خواتین کے پاس کوئی سفری دستاویزات نہیں ہیں۔ (ان خواتین کو) انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کا کارڈ بنا کر نہیں دیا جا رہا جس بنا پر انھیں انڈیا سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ عملاً ان کی حیثیت تو نو مینز لینڈ (یعنی جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں) والی بنا دی گئی تھی۔

نو مینز لینڈ والی صورتحال میں اکثر مہاجر کا درجہ مل جاتا ہے مگر انڈیا میں ان خواتین کو وہ درجہ بھی نہیں دیا گیا۔

ایل او سی

آرٹیکل 370 کے خاتمے پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کرفیو اور ذرائع مواصلات کی بندش

واپسی کیسے ممکن ہوگی؟

انصار برنی کا کہنا تھا کہ اگر انڈیا چاہے تو بہت آسانی سے ان کا مسئلہ حل کرسکتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انڈیا ان کو باہر جانے دے۔ اگر انڈیا ایسا کرتا ہے تو ہم پاکستان کی حدود میں ان کے داخلے کی راہ ہموار کردیں گے۔

لیکن اگر انڈیا کو اصرار ہے کہ وہ غیر قانونی طورپر انڈیا میں داخل ہوئی ہیں تو ان کو اپنے ملک سے بے دخل کر دے۔ بھارتی قوانین کے مطابق سزا دی جائے تو یہ سزا چھ ماہ قید یا جرمانہ ہے اور ہم جرمانہ ادا کرنے کو تیار ہیں۔ مگر انڈیا یہ بھی نہیں کررہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستانی اور انڈین احکام، سفارت کاروں، وزائے اعظم اور سب کو خطوط لکھے ہیں۔ ان سے یہ معاملہ انسانی ہمدری کی بنیاد پر حل کرنے کی اپیل کی ہے جب اس پر جواب نہیں ملے تو ان سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ قانونی بنیادوں پر حل کر دیں مگر ایسا بھی نہیں ہوا۔

انھوں نے حالیہ بحران میں بھی اسلام آباد میں موجود انڈین سفارت خانے کو خط لکھا ہے جس میں لکھا ہے کہ مجھے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر جانے کی اجازت دیں جہاں میں ان 350 خواتین کی مدد کر سکوں۔

انصار برنی کہتے ہیں سمجھ نہیں آتا کہ دونوں حکومتیں کیوں اس معاملے کو آگے نہیں بڑھا رہیں حلانکہ یہ 350 خاندانوں اور ان کے ساتھ جڑے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے دونوں حکومتوں سے مایوس ہونے کے بعد اب عالمی اداروں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عالمی ادارے دونوں حکومتوں پر دباؤ ڈال کر ان 350 خواتین اور ان کے بچوں کا مستقبل محفوظ بنائیں اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp