جدید شوشۂ عام اور شہرتِ دوام کا دربار


مولانا محمد حسین آزاد نے مشاہیر، بادشاہوں اور شعراء وغیرہ کا خوبصورت دربار ایک خواب کے تناظر میں، انشائیہ ”شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار“ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ مولانا موصوف کو کروٹ کروٹ جنت نصیب ہو کہ ہر شاہ و شاہ کے مصاحبوں کو اُن کی حیثیت کے مطابق نشست عطا کی لیکن بد قسمتی سے وہ دربار فقط ”خواب“ تک ہی محدود تھا۔ اب اگر مولانا صاحب موجود ہوتے تو شاید اُن کا مجموعہ ”نیرنگِ خیال“ کی بجائے ”بے رنگ خیال“ کا سر ورق پاتا۔

چونکہ مولانا مرحوم اِس دنیا میں نہیں ہیں؛ اور دورانِ خواب اُن کو بھی طلب کیا گیا لیکن مولانا موصوف یہ شکر بجا لاتے ہوئے نیند سے بیدار ہوئے کہ ”بلا سے بچے، مردوں میں سے زندوں میں آگئے۔“ تاہم آج اگر مولانا صاحب ہوتے تو ممکن تھا کہ اُن کی انشائیہ کا اختتام اِس فقرے پر ہوتا: ”بلا سے، خواب ہی بہتر تھا، اصل زندوں میں نہ سہی، زندوں میں تو ہوتے“ چونکہ وہ نہیں ہیں تو میں انہی کی انشا کا رنگ آج کے پیرائے میں بھرتا ہوں۔

دنیا میں، میرے مطابق، دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ہر بات کا شوشہ کرنا پسند کرتے ہیں اور کرتے کچھ بھی نہیں، جبکہ دوسرے وہ ناموران ہوتے ہیں جو شوشہ بھی نہیں کرتے اور کرتے بھی کچھ نہیں۔

پشاور میں ٹہلنے نکلا تو فارغ بخاری والا بوڑھا برگد یاد آگیا۔ اُس کی کھوج میں لگ گیا۔ بمشکل اُس کے کچھ آثار جدید ترقی کی لپیٹ میں ملے۔ اُس کے سائے میں نا سہی عقب میں بیٹھ گیا۔ آرام کی غرض سے کچھ دیر وہاں بیٹھنا مقصود تھا اور پھر سفر جاری رکھنے کا ارادہ تھا لیکن ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ ایک اخبار فروش نے آنکھ لگنے ہی نہ دی۔

”اخبار لیں گے؟ “

” اب نیم نیند سے بیدار کر کے پوچھ رہے ہیں تو لے ہی لیں گے۔ کیا دام ہے؟“ اخبار کا دام پوچھنا کچھ مضائقہ نہیں۔ کیونکہ حالات ہی ایسے ہیں کہ کب کیسے اور کیوں دام بدل جائیں اور ہم جیسے مفلسوں کو علم ہی نہ ہو۔ زیادہ دام بتانے پر شاید غلام عباس کے افسانے کے کردار، شریف حسین کی طرح گلو خلاصی کے طور پر چلتے بنتے لیکن دام وہی جو پہلے تھے۔ سو، اخبار لے کر سائیڈ پر رکھ دیا۔ پھر سستانے لگا۔ اخبار کے اوراق تیز ہوا سے چر چر کی آواز پیدا کر رہے تھے گویا مجھے کہہ رہے ہوں، ”اب خرید ہی لیا ہے تو پڑھ بھی لیں ورنہ شریف حسین کی طرح بے کواڑ کی الماری میں رکھنے کا ارادہ تو نہیں؟“

سو لیٹے لیٹے اخبار اُٹھایا تو خواب زدہ آنکھیں حقیقت کی جنبش سے کھلی کی کھلی ہی رہ گئیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ بس سر ورق پر“ مستٰعفی مستٰعفی ”کے الفاظ بار بار دہرائے گئے تھے۔ ساتھ ہی اُن ناموران کا نام بھی کندہ
(خاصا زور دے کر) کیا گیا تھا، جو شہرت عام کی غرض سے شوشئہ عام میں مگن تھے۔ لیکن کچھ ناکام ٹھہرے اور کچھ ناکام ترین ٹھہرتے ٹھہرتے روانہ ہوئے اور بالکل ہی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔

سامنے گاڑیوں کی آہستگی وزیر آغا کے روڈ رولر کا منظر پیش کر رہے تھے۔ آغا صاحب ”پگڈنڈی سے روڈ رولر،“ نامی مجموعہ ہائے انشائیہ میں ایک روڈ رولر کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ کہتے ہیں ”روڈ رولر جب روانہ ہوا تو ٹھہراؤ اور رفتار کا احساس ہونے لگا۔ کچھ دیر تک یعنی کچھ زیادہ ہی دیر تک انہیں یہ علم نہیں ہو رہا تھا کہ روڈ رولر چل پڑا ہے یا کھڑا ہے۔“ غرض میرے سامنے گاڑیاں ناقص ٹریفک صورتحال کے پیش نظر خراماں خراماں، سلو سلو رواں دواں تھیں۔ ٹھہراؤ کا تو نہیں البتہ رفتار کا علم تھا کہ کچھ ہی زیرو سے اوپر تھا۔ شاید بی آر ٹی، کے خالق انجینئرز اور منصوبہ سازوں کو سلامی پیش کر رہے تھے۔

اندھیرا کافی پھیل گیا تھا۔ گاڑیوں کی ننھی منھی ہیڈ لائٹس چمکنا شروع ہوگئیں۔ انہی ہیڈ لائٹس میں میری نظر گم ہو گئی اور بس پھر سامنے جلی حروف میں دو ہی نام نظر آرہے تھے۔ نواز شریف اور عمران خان۔ نُکتہ ( نوٹ کیا جائے کہ میں خواب نہیں دیکھ رہا بلکہ حقیقت کی دنیا میں حقیقی منظر نامے پر نظر دوڑا رہا تھا) ناموں سے دونوں کے چہرے نمودار ہوئے۔ پہلے نواز شریف آیا۔ کوٹ واسکٹ پہنے ارد گرد کے مسلح و غیر مسلح افراد نے دائرے بنائے تھے۔

مسلح سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ ہتھیاروں سے لیس تھے بلکہ عقل و فہم و دانش کے پیکر تھے۔ نواز شریف ادھر ادھر ہاتھ ہوا میں لہرا رہے تھے۔ معلوم نہیں کن کی داد کا جواب دے رہے تھے لیکن خوش دکھائی دے رہے تھے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ کہاں جانے کی تیاری ہو رہی ہے؟ سامنے دیکھا تو ایک محل نما ایوان ہے جہاں بتیاں جل رہی ہیں اور ایک فرد ان کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔ محل کے اوپری چھجے پر لکھا ہے: ”مخلص لوگ۔“

ایک قابل ہستی ہاتھ میں فائل لیے چہروں کو پہچاننے کے بعد ناموں کے آگے ٹِک مارک لگا رہے تھی۔ نوازشریف قریب پہنچے۔ اُس شخص نے سلیوٹ کیا اور محل میں داخل ہونے کی غرض سے ہاتھ بڑھا کر راہ دکھلائی۔ نواز شریف داخل ہوئے اور ایک بڑی تخت نما کرسی پر بیٹھ گئے۔ مسلح افراد کو دھیرے دھیرے پہچاننے کے بعد اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ اُن میں سے ایک اسحاق ڈار تھے، جو سوٹ پہنے نہایت ہی گرم جوشی سے داخل ہوئے۔ جب نواز شریف اور اسحاق ڈار براجمان ہوئے تو کچھ شور برپا ہوا۔

شہنائیاں گونج اُٹھیں۔ دور دو جواں سال لڑکے ایک ڈولی اُٹھائے لا رہے تھے۔ جب قریب پہنچے تو دربان دروازے سے ہٹ گئے۔ نواز شریف کی نظر پڑی تو خوش ہوئے گویا اُن کی خوشی ڈولی میں لائی گئی ہے۔ وہ دو لڑکے ڈولی رکھ کر سستانے لگے۔ ان دونوں کی ناک پر پسینہ تھا۔ تھکے ہارے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ دونوں نے ولایتی سوٹ زیبِ تن کیا ہوا تھا۔ یہ دونوں حسن نواز اور حسین نواز، نواز شریف کے صاحب زادے تھے۔ حسن نواز نے ڈولی پر سے پردہ اُٹھایا۔ ایک خوبرو حسینہ نمودار ہونے والی تھی۔

ڈولی سے سبز رنگ کا گھگرا پہنے، ہاتھوں میں ابو کی تصویر اور کچھ لوہے کے سِل لیے، مریم نواز شریف نکلی۔ حسن اور حسین کو دائیں اور بائیں کر کے دروازے کی جانب روانہ ہوئی۔ پیچھے سے کسی نے آواز دے کر کچھ فائلز مریم کے ہاتھ میں تھما دیے۔ مریم ان فائلز کو غور سے دیکھتی رہی پھر جیسے خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو، ابو کی جانب نظر کی اور خوشی سے پھولی نہ سمائی۔ ابو یعنی نواز شریف نے شکستہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنی پریشانی چھپائی۔

مریم اسی دربار میں داخل ہوئی۔ لیکن اُن کے لئے کوئی نشست مختص نہیں تھی۔ وہ ابو کی گود میں بیٹھ گئی کیونکہ وہ ابو کے ساتھ مخلص تھی ورنہ قوم کے مخلصین کے لئے کرسیاں پہلے سے بچھائی جا چکی تھیں۔ حسن اور حسین بچگانہ حرکتیں کرتے کرتے ابو کے پاس پہنچے۔ کرسی کے دائیں اور بائیں جانب کھڑے رہے۔ اِدھر اُدھر سب کو تکنے لگے کہ اتنے میں ایک حاجب آیا اور حسن حسین کو نکلنے کا اشارہ کیا۔ حسن حسین ابو ابو کرتے رہ گئے۔

نواز شریف نے حاجب کو پاس بلایا اور اُن کے بیٹوں کو باہر لے جانے کی وجہ پوچھی تو حاجب ہاتھ ناف پر رکھ کر بولے”بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں اور ان کا تو سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں۔ اس لئے ان کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔“ نواز شریف گرجے، ان کو زبردستی بٹھانا چاہا لیکن ایک طاقتور حاجب کی آمد سے نواز شریف ماند پڑ گئے۔ طاقتور حاجب نے دونوں کو اُٹھا، باہر پھینکا۔ نواز شریف اُف بھی نہ کر پائے۔ طاقتور حاجب پھر نواز شریف کی طرف متوجہ ہوئے۔

”دیکھ لوں گا“ کہہ کر واپس ہوئے اور فوراً ہی ایک اُدھیڑ عمر شخص کے ساتھ واپس آئے۔ اُس شخص کے کپڑے داغ دار تھے۔ پیوند زدہ کوٹ پہنے آنکھوں سے آنسو جاری تھے گویا بچوں کی طرح شکایت کر رہے تھے۔ طاقتور حاجب نواز شریف کے بالکل پاس پہنچے اور مریم کو ایک ہاتھ سے کھینچ کر نواز شریف کی گود سے اُتارا اور اُسی مفلس شخص کے حوالہ کیا۔ یہ مفلس شخص کیپٹن صفدر، مریم کے شوہر تھے۔ وہ مریم کو پا کر ایسے خوش ہوئے جیسے اُس کو کوئی ہیرا ہاتھ لگ گیا۔

کیپٹن صفدر، مریم کو ساتھ لیے روانہ ہی ہوئے تھے کہ پیچھے سے نواز شریف نے آواز دی ”بیٹا مریم۔“ مریم پیچھے مُڑی اور کیپٹن صاحب کا ہاتھ چھوڑ کر واپس اپنے ابو کے طرف بھاگ گئی۔ کیپٹن صفدر بے بس نظر آئے۔ طاقتور حاجب نے کہا کہ ”میں طاقت کے بل بوتے پر کچھ بھی کر سکتا ہوں لیکن کسی کی بے حسی میں جان نہیں ڈال سکتا۔“ اتنے میں طاقت ور حاجب نے کیپٹن صاحب کو باہر نکالا اور دوسرے درباریوں کا استقبال کرنے لگے۔

کچھ ہی دیر بعد تین ساتھیوں کا ایک ٹولہ آیا۔ ایک کے بغل میں کھلونے تھے، جس میں زیادہ تر ریل گاڑیاں تھیں، دوسرے کے پاس لاؤد سپیکر اور تیسرے کے پاس کچھ کاغذ کے ٹکڑے۔ تینوں بڑے جوش و جذبے سے آوارد ہوئے۔ حاجبوں نے روایتی سلام کیا۔ تینوں اندر داخل ہوئے۔ کھلونوں والا خواجہ سعد رفیق تھے۔ انہوں نے پہل کی لیکن ان کو کوئی کرسی میسر نہ آئی۔ وہ نواز شریف کے ساتھ ہی کھڑے ہوگئے۔ لاؤڈ سپیکر والے دانیال عزیز تھے۔

ان کو بھی کرسی میسر نہ آئی لیکن نواز شریف صاحب نے ان کا استقبال کیا اور اپنے ساتھ کھڑے رہنے کی اجازت دی۔ کاغذ والے صاحب تھے جناب طلال چوہدری۔ وہ بھی چوہدری سعد رفیق اور دانیال عزیز کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ طاقتور حاجب ایک بار پھر نمودار ہوئے۔ نواز شریف سے تلخ الفاظ کا تبادلہ ہوا اور آخر میں یہ طے پایا کہ ”مخلص لوگوں“ کے علاوہ یہاں کسی کی جگہ نہیں بنتی۔ غرض مریم، دانیال، طلال اور سعد رفیق کو اس بنا پر نکالا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ مخلص تھے نہ کہ قوم کے ساتھ۔ اسی طرح مریم اورنگزیب، احسن اقبال، عابد شیر علی، خرم دستگیر، مفتاح اسماعیل، وغیرہ کو بالکل جگہ ہی نہ ملی۔ ان سب کو دروازے سے ہی واپس لوٹنا پڑا۔

اس کے بعد ایک پیرِ مرد سا آئے، ہاتھ میں بانسری تھی۔ نواز شریف کے ارد گرد گھومے، بانسری بجائی اور واپس لوٹ گئے۔ یہ تھے شاہد خاقان عباسی۔ ان کے بعد خواجہ آصف آئے، نواز شریف کو دور سے اشارہ کیا اور اسحاق ڈار کو ساتھ لے کر باہر پہنچے۔ اب ”مخلص لوگوں“ کے دربار میں فقط نواز شریف صاحب بچے تھے۔ وہ اکیلا پن محسوس کر رہے تھے کہ اتنے میں طاقتور حاجب ایک پیرِ مرد کو ہاتھ سے پکڑے لائے۔ یہ تھے سرتاج عزیز۔ ان کو کچھ لمحے ہی میسر آئے۔ نواز شریف کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ ان کی بوریت دور کی اور چلتے بنے۔

اب اس دربار کے دروازے بند ہونے لگے تھے کہ اچانک اسحاق ڈار پہنچے۔ نواز شریف کے قریب گئے اور وہاں لگے ایک بورڈ کی جانب انگشتِ شہادت کے ذریعے اشارہ کیا جس پر لکھا تھا: ”شوشۂ عام کے رسیا“۔ نواز شریف زیرِ لب خندہ ہوئے۔ اسحاق ڈار نے نواز شریف کو کہا ”میرے ساتھی یہاں آئیں گے، اُن کو میرا سلام کہنا۔ اب چلتا ہوں“ اور چل دیے۔

اب دروازے تب تک بند ہوگئے جب تک کوئی مخلص شخص نہیں آ جاتا۔ سارے حاجب دروازے کے اس پار یعنی دربار کے اندر کھڑے تھے کہ معاً دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی۔ یہ دستک اتنے زور کی تھی کہ نواز شریف نے اپنی کرسی پر گرفت مضبوط کی اور خوف کی وجہ سے آنکھیں بند کر دیے۔ حاجب نے دروازے کھولا۔ ایک ہستی نمودار ہوئی۔ قد کاٹھ میں بھلے لگتے تھے۔ دور سے پیرِ مرد معلوم ہوتے تھے لیکن اندر سے چاق و چوبند اور اعلیٰ ذہانت والے۔ یہ تھے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب۔ وہ دوڑے دوڑے آئے۔ گویا کوئی مسلح دستہ ان کی تعاقب میں ہے۔ ہاتھ میں پکڑی فائلز سمیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور نواز شریف کے ہمراہ بیٹھنا چاہتے تھے لیکن نواز شریف پہلو چرانے لگے۔ القصہ مختصر، وہ دور کسی کرسی پر اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئے۔

اب نواز شریف کی نظریں جیسے کسی کی تلاش میں تھیں۔ کنکھیوں میں دیکھتے رہتے لیکن اور کوئی نہ آیا۔ دربار میں دو ہستیاں بیٹھی تھیں۔ نواز شریف اور جج شوکت عزیز صدیقی۔ جج صاحب کو بھی کافی کوفت ہونے لگی۔ اُن کی دلجوئی کے لئے انہی کے پیشے سے کسی کو لانا پڑا۔ جج ارشد ملک صاحب کو لایا گیا۔ جج صاحب شوکت عزیز صاحب کے ساتھ بیٹھ گئے۔ کچھ دیر دونوں نے ایک دوسرے کو خوب محظوط کیا لیکن جج شوکت عزیز کی خوشی اُس وقت ماند پڑ گئی جب مریم اپنے ساتھیوں سمیت آئی اور ارشد ملک کو گھسیٹتے گھسیٹتے باہر لے گئے۔ اس طرح ارشد ملک کے کپڑے خراب ہوئے۔ اُن کے چہرے پر بھی کچھ داغ آئے۔ ارشد ملک پانی کی تلاش میں نکلے لیکن پھر واپس نہ آئے۔

جج شوکت عزیز صدیقی صاحب، نواز شریف کو کچھ کہنے کے موڈ میں تھے لیکن نواز شریف سننا نہیں چاہتے تھے۔ شوکت صدیقی کو ایک شرارت سوجھی۔ انہوں نے پورے دربار کا چکر لگایا۔ بغور مشاہدہ کیا اور نواز شریف کے پاس پہنچے۔ سامنے ایک اور دربار تھا۔ جس پر ایک بورڈ آویزاں تھا۔ ”شہرتِ دوام“۔ جج صاحب نے وہ بورڈ نواز شریف کو دکھایا۔ نواز شریف رنجیدہ ہوئے اور سوچنے لگے اب یہاں کس کو لایا جائے گا؟ یہ سوچتے سوچتے وہ چکرا گئے۔ مزید اُن میں سوچنے کی طاقت نہ رہی۔ بس انتظار کرنے لگے۔

کچھ نوکر پیشہ لوگ آئے۔ ہر جگہ خوشبو بکھیر دی۔ مصنوعی پھول پھل لگا دیے گئے۔ ہاؤ ہو ہونے لگا۔ ایک ٹولہ آنے والا تھا جس میں روشن قیافہ افراد تھے جبکہ کچھ ہونق صورتوں والے تھے۔ گروپ خاصا بڑا تھا لیکن فقط شور و غوغا تک ہی محدود تھا۔ سب سے پہلے سفید شلوار قمیض میں ملبوس شخص آشکار ہوئے۔ کالے شوخ بال، سفید رنگت، دراز قد اور ہاتھ مارتا ہوا۔ یہ تھے جناب عمران خان صاحب، اُن کو عملے کی جانب سے نیم سلیوٹ کیا گیا۔

آپ اندر داخل ہوئے۔ نواز شریف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اپنی کرسی خود چھوڑنا چاہتے تھے کہ عمران خان نے روک لیا گویا اُن کا بزبان لہجہ یہ کہہ رہا تھا کہ میں خود لے سکتا ہوں۔ نواز شریف آزردہ ہوئے لیکن عمران خان ٹس سے مس نہ ہوئے۔ یعنی اُن کو یہ احساس تھا کہ اس کرسی پر انہی کا حق ہے اور کچھ لوگ ناحق اس پر براجمان تھے۔ کرسی خود اُٹھا کر ”مخلص لوگ“ کا دربار چھان مارا۔ کوئی جگہ پسند نہ آئی۔ باہر ہوئے، اور سامنے چبھوترے کی طرف روانہ ہوئے، جہاں لکھا تھا ”شہرتِ دوام“ نواز شریف یہ دیکھ کر آگ بگولہ ہوئے۔

عمران خان نے پیش قدمی جاری رکھی۔ جوں ہی دربار میں داخل ہوئے سارا دربار گونج اُٹھا۔ انواع و اقسام کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ لیکن عجب منظر تھا۔ آوازیں ہر جگہ سے آ رہی تھیں لیکن آواز والا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کوئی جادوئی مخلوق تھی شاید۔ عمران خان سب سے بلند کرسی پر بیٹھ گئے۔ اور سامنے درباروں کا مشاہدہ کرنے لگے۔

عمران خان کے ہمراہ بھی خاصا گروپ تھا لیکن دروازے پر دربان کے ہاں بہت شور و غوغا تھا۔ حاجب کسی کو اندر آنے ہی نہیں دے رہا تھا۔ یعنی اُن کی جگہ اندر نہیں تھی۔ وہ ناکام لوگوں میں سے تھے۔ عمران خان کی کسی سے ہوا کے ذریعے ایمائی انداز میں گفتگو ہوئی۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اجازت دی کہ فلاں کو اندر آنے دیا جائے۔ غرض جو شخصیت اندر آئی وہ قد آور تھے۔ خوبرو بھی تھے۔ لائقِ نشسست تھے لیکن قابلِ نشسست نہیں تھے۔

یہ تھے اسد عمر۔ اُن کے آنے سے اسحاق ڈار، جو کہ یہ سارا ماجرا باہر سے دیکھ رہے تھے ؛ اپنی ہی جگہ پر من من بڑھے۔ گلہ صاف کرنے کی غرض سے اسد عمر کو متوجہ کیا۔ اسد عمر کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔ لہٰذا وہ چلتے رہے اور عمران کے ہمراہ بیٹھنا چاہتے تھے مگر حاجب دوڑے آئے اور ان کو منع کیا۔ دوسرے چبوترے میں جانے کو کہا اور سمجھایا کہ انہوں نے فقط شوشہ خوری سے کام لیا ہے، عملی کام کچھ نہیں کیا۔ اُن کو دلی صدمہ ہوا لیکن بادلِ ناخواستہ ”شوشئہ عام کے رسیا“ والے دربار میں داخل ہوگئے۔

دور نواز شریف حیران پریشان بیٹھے تھے کہ اچانک متحرک ہوگئے۔ اسد عمر کو اشارہ کیا اور اسحاق ڈار کا سلام پہنچایا۔ اسد عمر مزید آزردہ ہوئے۔ یہ اس چبوترے میں پہلے شخص تھے، جہاں فقط اُن لوگوں کو بٹھایا جاتا جو شوشئہ عام کے رسیا تھے۔ اسد عمر صاحب کو گھٹن سی ہونے لگی تھی کہ اچانک ایک اور شخص سب کو نظر انداز کیے دفعتاً اندر داخل ہوگیا۔ آگے ناتھ نہ پیچھے پگا۔ آئے اور اسد عمر کے ساتھ والی کرسی پر خاموشی سے بیٹھ گئے۔

یہ تھے فواد چوہدری۔ جن کو بھر پور علم تھا کہ ان کا یہی مقام ہے لھٰذا قوم کا وقت ضائع کیے بغیر اپنی نشسست پہچان گئے۔ مخلص لوگوں کے چھبوترے سے ایک پیامبر دوڑے دوڑے آئے اور فواد صاحب کو کان میں کچھ پیغام پہنچایا۔ فواد صاحب مخلص لوگوں کے ہال جا پہنچے اور اندر جانے کی ضد کرنے لگے لیکن حاجب بضد تھا کہ ان کی جگہ یہاں نہیں۔ عمران خان دور سے معاملہ بھانپ گئے اور دروازے تک آئے۔ فواد اور عمران کی مابین کچھ دیر بات چیت ہوئی۔ فواد صاحب نے کوٹ کے کالر کو ایک ہاتھ سے جنبش دی اور شوشئہ عام کے دربار جا نکلے۔ وہاں اسد عمر کو سلام کیا اور آخری صف میں کرسی پر بیٹھ گئے۔

دیگر لوگ بھی آئے۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی آمد خوبصورت پیرائے میں ہوئی۔ جب آئیں تو سرخ، سیاہ، سبز، وغیرہ رنگوں میں بگوئی گئیں۔ پھر جب نکالی گئی تو فردوس پناہ مانگے اور ہر عاشق آنکھ بند کر دے۔ عوام پر بوجھ لگی۔ آگے پیچھے ہوتی رہی لیکن عمران خان کی جانب روانہ ہوئی۔ یکمشت فواد چوہدری نے دوپٹے سے کھینچ کر اپنے ساتھ بٹھا دیا۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کے بغل میں مختلف رنگوں کے کپڑے رکھے گئے۔ سرخ، سیاہ، سبز،انہوں نے تینوں رنگ پسند کیے اور سوچا بوقتِ ضرورت کام آئیں گے۔ تو رکھ لیے۔

اب ایک گول مٹول، منہ کو بھی گول گول کرتا ہوا، فرد آیا۔ ملنگانہ لباس میں ملبوس تھے۔ چیخ چیخ کر پیسوں کا حساب کتاب کر رہے تھے لیکن کوئی بھی ان کی چیخ و پکار پر کان نہیں دھر رہا تھا۔ لہجہ بدل بدل کر حساب میں مشغول، یہ تھے مراد سعید۔ جب کہ ابھی تک کوئی مراد پوری نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ ایسی قسمتِ سعید کے مالک تھے کہ ہو جاتی۔ سب کو نظر انداز کرتے شوشئہ عام کے دربار جا نکلے۔ وہاں فواد چوہدری کے ساتھ بیٹھنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے دھتکارا اور نیچے بیٹھنے کا کہا۔ مراد سعید نیچے بیٹھ گئے اور اپنا حساب کتاب جاری رکھا۔

اب سب کی نظریں نہایت ہی پیرِ مرد نے اپنی جانب موڑ لی۔ یہ کبڑے پن کا شکار تھے۔ اِن کے سر اور کمر پر بوجھ تھا۔ ایک بوجھ سے کلاشنکوف، پستول اور کچھ اسلحہ نکلا ہوا تھا۔ ایک رسی اپنے بدن سے باندھی تھی جس کے ذریعے وہ ایک ٹینک کھینچ رہے تھے۔ اپنی تمام تر طاقت لگا کر بھی وہ سست روی کا شکار تھی۔ یہ تھے پرویز خٹک صاحب، جن پر صاحب کا سابقہ بھی بوجھ لگتا ہے۔ اور خٹک کا سابقہ تو جیسے اِن کے اوسان پر ہی سوار تھا۔ وہ شاید زندگی بھر کسی بھی دربار نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اسی لئے ایک دربان دوڑے دوڑے گئے۔ اُن کو سہہ رنگی اور دو رنگی جھنڈا تھما کر واپس کر دیا۔

دربان کو واپسی پر ایک اور شخص سے سابقہ پڑا۔ جس کے پاس جھنڈوں اور جھنڈیوں کی بوریاں تھیں۔ دربان اُن کا بوجھ بانٹنے لگے۔ کچھ وزن خود اُٹھایا اور یہ دونوں سیدھا گئے ”مخلص لوگوں“ کے دربار میں۔ یہ تھے شاہ محمود قریشی۔ اِن کو وہاں معمولی سی ٹوٹی پھوٹی کرسی ملی۔ وہ بیٹھ گئے۔

چھوٹے قد کی مالکہ ایک عورت بھی آئی۔ شیرین مزاری۔ یہ ٹھاٹ بھاٹ چاہتی تھی لیکن ان کو کچھ نہیں ملا۔ فواد چوہدری کے ایک اشارے پر پہنچی ”شوشئہ عام“ کے دربار۔

اتنے میں ”شہرتِ دوام“ کے دربار سے خبر آئی کہ عمران خان کی کرسی کے پہیے ٹوٹ گئے ہیں۔ عملہ متحرک ہوا۔ خالد مقبول صدیقی اور عمر ایوب خان صاحب کو لایا گیا۔ انہوں نے عمران خان کی کرسی سنبھال لی اور اُن کی کافی لاج بھی رکھ لی۔

چوہدری نثار علی خان صاحب سب کو سلام کر کے چلے گئے۔ شاید ان کو اپنی کوئی موزوں جگہ نہیں ملی ہوگی۔

ایک لمبے بالوں والے جواں عمر جوان خراماں خراماں آرہے تھے۔ سر پر ایک ٹوکری تھی۔ جس میں کچھ شہد کی بوتلیں اور کچھ نامعلوم بوتلیں تھیں۔ شکل سے عیش و عشرت کے دلدادہ معلوم ہوتے تھے۔ ساتھ ہی ان کے ایک اور جوان بھی تھا۔ فیصل واوڈا۔ وہ بھی دولت میں سرمست تھے۔ دونوں آئے اور شوشئہ عام کے دربار میں بیٹھ گئے۔ اب وہاں خوش گپیاں ہونے لگیں۔ سب ایک دوسرے کا حال پوچھ رہے تھے۔

اتنے میں گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہوئی۔ سب کچھ اتھل پتھل ہونے لگا۔ تیز تیز ہوا چلنے لگی۔ آسمان گرجنے لگا۔ آسمانی بجلی چمکنے لگی۔ آسمانی بجلی میں دو چہرے نظر آنے لگے۔ شہر یار خان آفریدی اور علی محمد خان۔ یہ دونوں گیلے ہوگئے تھے۔ کوئی بھی ان کو جگہ دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ لیکن وہ دونوں ”شوشئہ عام“ کے دربار میں پناہ گزیں ہوئے۔

پھر اچانک سب کھڑے ہوگئے اور ڈرتے ڈرتے نظریں جھکائیں۔ آمد ہو رہی تھی، نیم فوجی لباس میں ملبوس شخص کی۔ ۔ یہ تھے اعجاز شاہ صاحب۔ عمران خان اُن کے لئے کرسی کھینچ لائے۔ نواز شریف بھرّا گئے۔ عمران خان نے کرسی صاف کی۔ اعجاز شاہ نے کرسی کو ایک سرے سے پکڑا اور نواز شریف کے سامنے لا، بیٹھ گئے۔ تند نظروں سے ان کو گھورنا شروع کیا۔ مٹھی بنا کر ٹھوڑی پر سر رکھا اور انداز سب کچھ بیاں کر رہا تھا۔

یہ ٹولہ تقریباً پورا ہونے والا تھا کہ چھ لوگوں کا ایک گروہ نظر آیا۔ جس میں عبدلحفیظ شیخ، فہمیدہ مرزا، اعظم سواتی وغیرہ شامل تھے۔ یہ آئے لیکن واپس کر دیے گئے۔ پیچھے سے مریم اور حسن حسین نے خوب واہ واہ کی۔

عمران خان اور نواز شریف دونوں اکیلے تھے۔ اُن کی دلجوئی کو کسی کی تو ضرورت تھی۔ ایسے میں کوئی عام فرد یہ کمی ہر گز پوری نہیں کرسکتا۔ تین لوگوں کو بلایا گیا۔ جن میں ایک چھوٹا سا بچہ بھی شامل تھا۔ قیمتی لباس پہنے ایک قابل ہستی نمودار ہوئی۔ یہ اپنے ساتھ ایک ہی شعر گنگنا رہے تھے :

کیوں اُداس پھرتے ہو سردیوں کے شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

یہ تھے آصف علی زرداری صاحب۔ ان کے پیچھے کلین شیو کیے، سرخ ہونٹوں پر پیار و محبت کی داستان گوئی کر رہے تھے شیخ رشید صاحب۔ اُن کی گود میں تھے بلاول بھٹو زرداری۔ وہ ان کو سہلا رہے تھے۔ یہ تینوں دربار کے سامنے کھڑتے ہوگئے۔ زرداری صاحب، عمران خان کے پاس ”شہرتِ دوام“ کے دربار جا نکلے۔ شیخ رشید، بلاول کو یکا وِ تنہا چھوڑ کر نواز شریف کے ساتھ ”مخلص لوگوں“ کے دربار پہنچے۔ بلاول بچارہ سب کچھ حیران پریشان دیکھتا رہا۔ کبھی ایک دربار سے تو کبھی دوسرے سے آواز آتی لیکن وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔ پھر اچانک ایک تیز گھنٹی بجی اور میری آنکھ کھل گئی۔ سامنے دیکھا تو ٹریفک اسی طرح سست روی کا شکار تھا۔ گاڑیوں کی ہید لائٹس جل رہی تھی اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ قلم ہاتھ میں پکڑے یہی خواب شاید دیکھ رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).