80 سال کی دوری پر بننے والی دو آسکر انعام یافتہ خاموش فلمیں


اکیڈمی یا آسکر انعاموں کی نوے سالہ تاریخ میں آج تک صرف دو خاموش فلموں کو بہترین فلم کا حقدار سمجھا گیا۔ چوراسی سال کے فرق سے سامنے آنے والی یہ دونوں فلمیں اپنے اندر کچھ مماثلت بھی رکھتی ہیں۔ ایک دلچسپ مماثلت دونوں خاموش فلموں کا فرانس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ہے۔

1927 میں بہترین فلم کا پہلا آسکر انعام پانے والی خاموش فلم ”ونگز“ جنگ عظیم اول میں، فرانس کے محاز پر لڑنے والے دو امریکی ہوا بازوں کی کافی حد تک فرضی کہانی ہے۔

2011 کی بہترین آسکر اورجزوی طور پر خاموش فلم ”دی آرٹسٹ“ ہر لحاظ سے ایک فرانسیسی فلم ہے اور ان گنی چنی فلموں میں شامل ہے جو امریکا کے علاوہ کسی اور ملک میں بنیں اور بہترین فلم کا آسکر بھی جیت سکی

فلم ”ونگز“ کی چلبلی ہیروئن ”کارلا برو“، ہالی ووڈ کی مشہور ہیروئن مارلن منرو سے بھی تقریبا تیس سال پہلے ہالی ووڈ کا ایک معروف نام تھا۔ فلم ”دی آرٹسٹ“ میں ارجنٹائنن نژاد فرانسیسی ہیروئن نے واضح طور پر ”کارلا برو“ کے انداز کو اپنانے کی سعی کی ہے۔

WINGS۔ 1927 ”ونگز“ 

فلمی تاریخ کا پہلا آسکر انعام پانے والی یہ فلم بلیک اینڈ وائٹ، خاموش اور تقریباً ایک صدی پرانی ہونے کے با عث بہت سے فلم بینوں کے لئے ایک قصہ پارینہ ہے۔ خاص طور پر نئی نسل کے لئے تو اتنی پرانی فلم کا خیال ہی شاید خوفناک ہو۔ تاہم اس فلم کو دیکھنے کے بعد فلم بینوں کی رائے کا تبدیل ہو جانا ایک یقینی امر ہے۔ گرافکس، ساؤنڈ، ڈیجیٹل افیکٹس وغیرہ کی بھرمار کے اس دور میں یہ خاموش فلم نہایت خاموشی سے آپ کو ایک عجیب دنیا سے متعارف کرواتی ہے۔ سلائڈ شو کی طرح چلنے والی اس فلم جس میں فریم پر بائیس سیکنڈ کی فریکوئنسی کی وجہہ سے ہر شے جلدی میں نظر آتی ہے لاتعداد خوبیاں ہیں۔

فلم امریکی فوج کی کثیر مالی اور دیگر وسائل میں معاونت سے تیار کی گئی۔ فلم کا مقصد یقیناً جنگ عظیم اول کے بعد ابھرتی ہوئی طاقت جرمنی کے خلاف پروپگنڈا کرنا بھی تھا۔ فلم کے ہدایت کار خود ایک جنگی ہوا باز ہونے کی بدولت اپنے تجربے کا خوب استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔

فلم کی کہانی دو مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ایسے امریکی ہوابازوں کے گرد گھومتی ہے جو فرانس کے محاذ پر جنگ میں حصہ لیتے ہیں اور ایک ہی لڑکی کو پسند کرتے ہیں۔ رقابت کا جذبہ ان کے گھروں اور محلے سے شروع ہو کر، ہوابازی کی تربیت کے دوران اور پھر جنگ میں ہونے والی فضائی جھڑپوں تک میں جھلکتا ہے۔

فلم کے اکثر مناظر کی عکس بندی جاندار ہے لیکن فضائی جھڑپوں کے دوران ہونے والی جہازوں کی ”ڈوگ فائٹ“ کو جس قدرمہارت سے دکھایا گیا ہے وہ یقینا اس فلم کی سب سے نمایاں خوبی ہے۔

 THE ARTIST 2011 ”دی آرٹسٹ“

آسکر ایوارڈز کی تاریخ میں یہ دوسری خاموش فلم ہے جس کو بہترین فلم کا ایوارڈ ملا اگرچہ یہ فلم مکمل طور پر خاموش نہیں ہے اور گنے چنے مناظر میں آواز کا استعمال بھی کیا گیا ہے جو نہایت موزوں اور ڈرامائی تاثر دیتا ہے۔ مثلا دوران فلم جب مرکزی کردار خواب دیکھتا ہے تو فلم میں اس کے بولنے کی آوازیں سنائی دیتی ہے۔ یہ استعمال عام زندگی کے بالکل برعکس ہے جہاں خوابوں میں آواز کا تصور نہیں ہوتا اور صرف تصویر چلتی ہے۔ فلم کی کہانی حقیقی زندگی کے کرداروں سے لی گئی ہے اور یہ کہانی خود فلم اور سنیما کی تاریخ کے اھم موڑ سے متعلق ہے جب خاموش فلموں کو چھوڑکر بولتی ہوئی فلموں یا ٹاکیز بننے کا رحجان شروع ہوا۔

فلم کا مرکزی کردار جو خاموش فلموں کا ایک معروف اور کامیاب فلمی ستارہ ہے اس کا کریئر اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے جب فلموں میں آواز اور ساؤنڈ ریکارڈنگ ایک لازمی جز قرار پاتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کی تبدیلی خاموش فلموں کے اس ہیرو کونہیں بھاتی اور وہ پرانی طرز پر ہی فلموں کو بنانا اور دکھانا چاہتا ہے۔ دوسری جانب اس کی زندگی میں آنے والی ایک نو آموز رقاصہ وقت کی اس اہم تبدیلی کو بھانپ لیتی ہے اور اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوے ٹاکیز یا بولتی فلموں کی مشہور اداکارہ بن جاتی ہے۔

فلم میں خاموش فلموں کے ڈوبتے ہوے فلمی ستارے اور بولتی فلموں کی ابھرتی ہوئی سٹار اور ان کے تعلقات کی نوعیت اور ان کی ترجیحات کی عکس بندی بہت ہی خوبصورت انداز میں کی گئی ہے۔

فلم نے بہترین ہدایت کار سمیت پانچ آسکر ایوارڈجیتے تاہم اس کا شمار تقریباً بارہ ان فلموں میں ہوتا ہے جنھیں بہترین فلم کا آسکر تو ملا لیکن بہترین اداکار کا انعام نہ مل سکا۔ یہ فلم آسکر کی تاریخ کی وہ واحد فلم ہے جو انگریزی زبان نہ بولنے والے والے کسی ملک نے بنائی۔

میری ذاتی رائے میں یہ دونوں فلمیں یکے بعد دیگرے دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ تقریباً اسی سال کی دوری پر بننے بنے والی یہ خاموش فلمیں وقت، ٹیکنالوجی، اور تکنیک کے لحاظ سے مختلف لیکن فلمی بینی کے تجربے کے لحاظ سے بہت شاندار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).