راہل گاندھی اور غلام نبی سرینگر ایئرپورٹ پہنچ گئے


راہل گاندھی

انڈین اپوزیشن جماعتوں کا بارہ رکنی وفد کانگرس رہنما راہل گاندھی کی سربراہی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں زیر حراست سیاسی رہنماؤں سے ملنے اور جموں اور کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے سرینگر ایئرپورٹ پہنچ گیا ہے۔

دہلی سے بی بی سی کے نامہ نگار شکیل اختر نے بی بی سی کے خصوصی ریڈیو پروگرام نیم روز میں بات کرتے ہوئے بتایا کے ملنے والی اطلاعات کے مطابق حزب اختلاف کی جماعتوں کے بارہ رہنماؤں پر مبنی وفد سرینگر جا رہے ہیں اور اب سے کچھ دیر پہلے تک ان کی پرواز دلی ایئرپورٹ سے سری نگر کے لیے اڑان بھری تھی ہے۔

ان کے مطابق حزب اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ سرینگر جا کر زیر حراست سیاسی رہنماؤں سے ملنے اور جموں اور کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کرنے کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کانگرس کے رہنما اور اس وفد کے سربراہ راہل گاندھی اور غلام نبی آزاد نے سرینگر جا کر زیر حراست سیاسی رہنماؤں سے ملنے اور جموں اور کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’کرفیو ختم ہوا ہے مگر ہماری ناراضی ختم نہیں ہوئی‘

کشمیر: لاک ڈاؤن میں زندگی کیسی تھی؟

کشمیر تصاویر میں: سکول تو کھلے لیکن بچے غیر حاضر

غلام نبی آزاد

دوسری جانب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور نے بتایا کہ 23 اگست کی شب حکومت کے پبلک رلیشنز ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایک ایڈوائزری جاری کی گئی ہے جس میں کہاں گیا کہ اپوزیشن رہنماؤں کو ایسے وقت میں دورہ نہیں کرنا چاہیے جب یہاں دفعہ 144 نافذ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انڈین حکومت کے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کے آنے سے دفعہ 144 کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا تھا کہ امکان ہے کہ دلی سے آنے والے حزب اختلاف کے وفد کو سرینگر ائیرپورٹ پر ہی روک لیا جائے گا۔ اس سے پہلے بھی سینیئر رہنما غلام نبی آزاد دو بار سرینگر اور جموں ائیر پورٹ سے واپس دہلی بھجوائے جا چکے ہیں

زیر حراست سیاسی رہنماؤں کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بی بی سی کے نامہ نگار نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے جاری ایک حکم نامے کے مطابق تین مقامات کو سب جیل میں تبدیل کیا گیا تھا جن میں سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور کچھ کانگریس کے رہنماؤں کو رکھا گیا ہے۔

23 اگست کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق عمر عبداللہ نے سہولیات کے حوالے سے شکایت کی تھی جس کے بعد ڈویژنل کمشنر بشیر خان نے آفسروں کے وفد کے ساتھ ان سے ملاقات کی اور یقین دہانی کرائی۔

انھوں نے بتایا انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں گذشتہ روز نماز جمعہ کے اجتماع کے پیش نظر سخت کی گئی پابندیوں میں سنیچر کے روز کچھ نرمی کر دی گئی ہے۔ تاہم کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں مسلسل بند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انڈین حکومت کی جانب سے یہ ایک طرح کا معمول بن گیا ہے کہ جب جمعہ یا کوئی بڑا دن ہو تو پابندیاں سخت کر دیں جاتی ہیں لیکن اگلے دن پابندیوں میں نرمی آجاتی ہے۔ شہر کے مخصوص علاقوں کے علاوہ سڑکوں پر نجی ٹریفک چل رہی ہے۔

تاہم دو چیزوں پر سختی سے عمل ہو رہا ہے۔ مواصلاتی نظام بشمول انٹرنیٹ اور فون بند ہیں اور دوسرا معاملہ گرفتاریوں کا ہے۔ گرفتاریوں کے بارے میں اعداد و شمار نہیں دیے جا رہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا تھا کہ جن علاقوں کا انھوں نے دورہ کیا ہے وہاں ایسا کوئی پولیس تھانہ نہیں جہاں والدین کی بھیڑ اپنے بچوں کی رہائی کے لیے جمع نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ محتاط اور غیر سرکاری اندازوں کے مطابق ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے صرف ایسے نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے جو سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرتے تھے، امن میں خلل ڈالتے تھے اور نجی یا سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں پر پتھراؤ کرتے تھے۔

کشمیر

صورہ کے مقام پر ہی انڈیا مخالف احتجاج میں مظاہرین پر پولیس کی شیلنگ اور چھرے لگنے سے متعدد افراد زخمی ہوئے تھے

خیال رہے کہ جمعے کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے علاقے صورہ میں نماز جمعہ کے بعد ہونے والے مظاہرے میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئی تھیں۔

کانگرس کے رہنما منیس تیواڑی نے 23 اگست کو پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ اگر کشمیر میں حالات ٹھیک ہیں تو پھر حکومت مواصلات کو بحال کیوں نہیں کرتی اور لاک ڈاؤن ختم کیوں نہیں کر دیتی۔

اپوزیشن جماعتوں نے جمعرات کو پارلیمان کے باہر سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ سیاسی رہنماؤں اور ہزاروں کی تعداد میں گرفتار ہونے والے نوجوانوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32487 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp