پاکستانی ٹیلنٹ کیوں بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے؟


بھٹو صاحب ایک وژنری لیڈر تھے۔ 1976 میں ان کی ہدایت پر لیبر منسٹری کے زیر اہتمام ایک ڈیپارٹمنٹ ”نیشنل ٹیلنٹ پول“ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ڈیپارٹمنٹ کا بنیادی مقصد پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر اعلی تعلیم یافتہ پاکستانی مرد و خواتین کا ڈیٹا اکٹھا کرنا تھا۔ اس لسٹ میں ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، سائنسدان اور اقتصادی ماہر شامل تھے۔ راقم کو ایک سال اس ڈیپارٹمنٹ کے ابتدائی دنوں میں کام کرنے کا موقع ملا۔

اس وقت کے اس ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کی بریفنگ کے مطابق بھٹو صاحب کا وژن یہ تھا کہ بیرون ملک اچھی یونیورسٹیوں، ہسپتالوں اور دیگر ریسرچ کا کام کرنے والے ڈاکٹروں، پروفیسروں اور سائنسدانوں اور اقتصادی ماہرین کو پاکستان بلایا جائے تا کہ وہ یہاں کی یونیورسٹیوں، ہسپتالوں اور ریسرچ لیبارٹریوں کو یورپ امریکہ اور برطانیہ کے اداروں کے معیار کے مطابق اپ گریڈ کرنے میں مدد کریں۔ پاکستان سے اچھی شہرت کے حامل اور ٹیلنٹڈ افراد کو اعلی تعلیم اور تربیت کے لئے یورپ امریکہ اور برطانیہ کے اداروں میں بھیجا جائے تا کہ وہ واپس آ کر ملکی اداروں کا معیار بلند کر سکیں۔

مجھے اس دوران بہت سے بیرون ملک مقیم پاکستانی یونیورسٹی پروفیسرز، ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کے بھیجے گئے ڈوزیر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ سارے لوگ بہت محب وطن تھے اور اپنے ملک کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھے۔ ملک کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ وہ بغیر تنخواہ کے بھی ایک ایک سال تک کام کرنے کے لئے تیار تھے۔ بھٹو حکومت ختم ہونے کے دوتین سال تک یہ محکمہ کام کرتا رہا لیکن پھر اس ڈیپارٹمنٹ کو کسی اور محکمہ کے اندر ضم کر دیا گیا جس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔

ضیا ء کے مارشل لاء کے ابتدائی سالوں میں بہت سے تعلیم یافتہ افراد ملک چھوڑ گئے۔ کچھ تو خود ساختہ جلاوطن ہوئے اور بہت سارے دوسرے حالات کی سختی برداشت نہ کر سکے اور بیرون ملک کی راہ لی۔ اس کے بعد کے ادوار میں میرٹ کی پامالی، سفارشی کلچر، چودھراہٹ، اعلی تعلیم یافتہ افراد کی بے قدری او سیاست دانوں کی دھونس دھاندلی کی وجہ سے تعلیم یافتہ اور ہنر مند لوگ آہستہ آ ہستہ خاموشی سے ملک چھوڑتے رہے۔

چند سال قبل انگلینڈ کے ٹور کے دوران ایک چیرٹی ڈنر میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر کنسلٹنٹ کارڈیو ویسکولر سرجن صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ بھی دھونس دھاندلی اور سفارشی کلچر سے تنگ آ کر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ وہ سن اسی کی دہائی میں راولپنڈی کے ہسپتال میں میڈیکل آ فیسر تھے۔ ایک میڈیکولیگل کیس میں مرضی کا رزلٹ لینے کے لئے مارشل لاء کا بہت دباؤ تھا۔ مرضی کا نتیجہ نہ دینے پر اگلے دن رحیم یارخان تبادلہ ہو گیا۔

یہاں بھی یہی مسئلہ ہوا۔ یہاں سے تین ماہ بعد میانوالی اور پھر انھیں معطلی اور محکمانہ کارروائیاں کا سامنہ کرنا پڑا۔ معطلی کے دوران ایک کلاس فیلو جو انگلینڈ پڑھ رہا تھا سے اچانک ملاقات ہوئی۔ حالات جان کر اس نے ان کے انگلینڈ جانے کا بندوبست کیا۔ یہاں آ کر انھوں نے بہت جان مار کر کام کیا۔ ایف آر سی ایس کی ڈگری لی اور دوبارہ ماں کی اور وطن کی محبت میں پھرواپس لوٹے۔ لیکن دوتین سال دور دیہات کے ہسپتالو ں میں گزارہ کرنے اور پہلے والی خواری دیکھنے کے بعد ماں کی وفات کے بعد اپنا وطن مستقل طور پر چھوڑ کر پھر یہاں آ گئے۔

اب وہ یہاں بغیر کسی سفارش کے بہت بڑے ہسپتال میں بہت ہی اچھی تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر ان کی عزت نفس یہاں محفوظ ہے۔ کہتے تھے وطن جانے کو بہت من کرتا ہے لیکن وہاں کے حالات و واقعات سن سن کر اور ٹی وی پر دیکھ دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ اس طرح کے اوربہت سے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں سے ملنے کا یہاں اتفاق ہوا، جو اپنے ملک میں بیقدری، بلا وجہ تنگ کرنے اور سفارشی کلچر کا شکار ہو کر انگلینڈ میں آ گئے اور اب بڑی اچھی جگہوں پر کام کرنے کے علاوہ عزت سے یہاں آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔

پچھلے چالیس سال میں ہم نے اپنے ٹیلنٹ والوں کی قدر کرنے کی بجائے ان کو بیجا تنگ کیا ان کے کاموں میں روڑے اٹکائے جس کی وجہ سے وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ امریکہ، یورپ اور برطانیہ ساری دنیا سے ٹیلنٹ اپنے ہاں جمع کر رہے ہیں۔ وہ اپنی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم دوسرے ممالک کے اچھی شہرت اور ہونہار طالب علموں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور تعلیم مکمل ہونے پر ان کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ اس وقت صرف امریکہ میں چھ لاکھ سے زیادہ پاکستانی آباد ہیں جن میں سے 56 فیصد گریجویٹ ہیں۔

23 فیصد لوگ پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ چھ لاکھ میں سے ایک لاکھ اڑتیس ہزار افراد بہت ہی اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ امریکہ میں سلیکون ویلی میں پندرہ ہزار سے زیادہ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں افراد ایپل، سیسکو، فیس بک، گوگل اور اوریکل میں کام کر رہے ہیں۔ بہت سارے لوگ دیگر اعلی ٹیکنالوجی کی فرموں میں کام کرتے ہیں۔ امریکہ آنے والے ڈاکٹروں میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔

ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تعداد پندرہ ہزار سے زیادہ ہے۔ ان میں سے تقریباًدو ہزار سے زیادہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہیں۔ اتنے قابل ڈاکٹروں کا ملک چھوڑنا ملک کا بہت بڑا نقصان ہے۔ جیو ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان نوجوان ڈاکٹر ایکسپورٹ کرنے والا ایک بڑا ملک ہے جہاں سے بڑی تعداد میں ڈاکٹر بیرون ملک ملازمت کے لئے جا رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک ڈاکٹر بنانے میں حکومت کا تیس چالیس لاکھ روپیہ خرچ ہوتا ہے جو ڈاکٹر کے بیرون ملک چلے جانے پر ضائع ہو جاتا ہے۔

پچھلی ایک دہائی میں ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں میں منتقل ہوئی ہے۔ اسی طرح انگلینڈ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی بہت بڑی تعداد کام کر رہی ہے اور پچھلی ایک دہائی میں ہزاروں ڈاکٹر یہاں شفٹ ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ آج کل آئی ٹی کا دور ہے اس لئے پاکستان سے اس شعبہ میں جگہ نہ ملنے اور مناسب ملازمتیں نہ ملنے کی وجہ سے بیرون ملک قسمت آزماتے ہیں اور ایک دفعہ باہر جا کر کبھی واپس نہیں آتے۔ ملک میں نا انصافی، اقرباپروری، سفارش کا دور دورہ ہونے کی وجہ سے غریب خاندانوں اور گاؤں میں چھوٹی برادریوں کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان چودھراہٹ سے تنگ آ کر اور اچھی زندگی گزارنے کے خواہشمند نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بیرون ملک منتقل ہوئی ہے۔

حال ہی میں پشاور یونیورسٹی کی طالبہ نادیہ سجاد نے اپنے ساتھی طالب علموں کے ساتھ پاکستان سے ذہین، باکمال، اعلی تعلیم یافتہ اور ہنرمند لوگوں کی بیرون ملک منتقلی پر ایک ریسرچ کی ہے۔ جس میں انہوں نے پاکستان سے ٹیلنٹ بیرون ممالک منتقل ہونے کی وجوہات اور اس کو روکنے کے لئے اقدامات تجویز کیے ہیں۔ اس ریسرچ کا مقصد حکومت اور اس کے اداروں کی توجہ اعلی تعلیم یافتہ اور ہنر مند لوگوں کی پاکستان سے مستقل شفٹنگ اور برین ڈرین کی طرف دلانا اور اس کو روکنا ہے۔ اس ریسرچ کے مطابق مندرجہ ذیل وجوہات افراد کی پاکستان سے نقل مکانی کا سبب بنتے ہبں۔

1۔ زیادہ تر تارکین وطن نے یہاں ملازمت میں عدم اطمینان، پسند نا پسند۔ سفارش کلچر، تنخواہ اور اجرت میں کمی، میرٹ پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ملک چھوڑا۔

2۔ بہت سے امیگرنٹس کے نزدیک بہتر مستقبل، اعلی تعلیم، آسودہ حا لی اور ریسرچ اداروں کی کمی ملک چھوڑنے کا باعث بنا۔

3۔ بہت سے پڑھے لکھے افراد نے ملک میں مسلسل سیاسی عدم استحکام۔ اغوا اور جان کا خطرہ اور سیاسی دھونس دھاندلی کی وجہ سے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ کراچی میں 90 کی د ہائی میں بہت سے ڈاکٹرز کو لسانی بنیادوں پر اغوا اور قتل کیا گیا جس سے بہت سارے اچھے اور قابل ڈاکٹر ملک چھوڑ گئے۔

4۔ 2004 میں 15500 اعلی تعلیم یافتہ اور ہنر مند بے روزگاری اور ملازمتوں میں میرٹ پر ترقیاں نہ ہونے اور اچھے معیار کی زندگی کی کھوج میں بیرون ملک منتقل ہوئے۔

5۔ اس وقت بھی پچاس سے ساٹھ فیصد نوجوان ڈاکٹرز اور انجینئرز اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک چھوڑ رہے ہیں۔

یہ ایک بہت ہی خوفناک صورت حال ہے جس پر حکومت کو ایک تھنک ٹینک بنانا چاہیے جو اس صورت حال کا مکمل جائزہ لے کر ٹیلنٹ کی اس ہجرت کو روکنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرے۔ یہ وقت کی بہت ہی اہم ضرورت ہے جس پر حکومت کی فوری توجہ کی جانی چاہیے۔

تعلیمی اصلاحات، میرٹ کی بحالی اور اس پر عملدرآمد۔ ملازمتوں کا میرٹ پر حصول، بنیادی سہولتوں کی فراہمی، محفوظ اور کام کی جگہوں پر اچھا ماحول فراہم کرنا، اداروں میں ریسرچ کلچر کا حقیقی نفاذ، انصاف کا بول بالا او ہر سطح اور ہر طبقے خاص کر حکمران اور امیر طبقے میں قانون پر مکمل عملدرآمد۔ ہر طبقہ کے لئے مساوی مواقع، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی عزت اور عام فرد کی عزت نفس کی بحالی اور سیاسی کرپشن روکنے جیسے اقدامات ہیں جن پر سختی سے عمل درامد کروا کر ٹیلنٹ کے بیرونی دنیا کی طرف بڑھتے سیلاب کو کسی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ یہ اقدامات بہت مشکل لگتے ہیں اور ایسا معاشرہ بھی کچھ لوگوں کو ایک خواب لگے گا لیکن ہمیں خواب غفلت سے جاگ کر ایسے مشکل فیصلے کرنے ہوں گے جن کے دور رس نتائج نکلیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).