مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی موجودہ صورتحال


پاکستان کی خارجہ پالیسی اس وقت نہائت ہی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ ملک میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ معیشت ہچکولے لے رہی ہے اور ڈالر دن دگنی بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایسے میں بھارت کا مقبوضہ کشمیر کے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 A کو ختم کر کے ستر سالہ پرانے معاہدے کو پیروں تلے روند کر خطے کی صورتحال کو خطر ناک حد تک کر لے جانا، ہمارے لیے اور مشکلات کھڑی کر رہا ہے۔

آج بھارت کو مقبوضہ کشمیر کو اپنے کنٹرول میں لیے ہوئے اور آرٹیکل 370 اور 35 A کو ختم کر کے کرفیو کو لگائے ہوئے کافی دن ہو گئے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنے جوان نہتے کشمیریوں کو یرغمال بنانے اور خوف اور دہشت پھلانے اور خواتین کی عصمت دری کے لیے بھیجے ہیں۔ پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مکمل پابندی کے باوجود کچھ ذرائع سے جو خبریں مل رہی ہیں ان کے مطابق یہاں تک ہے کہ کھانے پینے کی اشیا تک نہیں پہنچائی جارہی اور ہزاروں نہتے کشمیروں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ مطلب جو اس سب کے خلاف نکلتا ہے یا آواز بلند کرتا ہے تو اسے پکڑ لیا جاتا ہے۔

حکومت یا باقی سو کالڈ نمبر ون اداروں سے سوال تو بنتے ہی ہیں کہ بھارت اس وقت پوری پلیننگ اور سمجھداری کے ساتھ اپنے ہدف یعنی مقصد کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مگر ہمارا پلین اے یا پھر بی کیا ہے، جو بھی ہے ابھی تک نظر کیوں نہیں آ رہا؟ ٹھیک ہے سمجھ میں بھی آرہا ہے کہ ہم اس وقت کسی بھی چھوٹی موٹی جنگ کے متمنی نہیں ہو سکتے۔ کیوں کہ اس وقت ملک کو بہت سے دوسرے چیلنجز درپیش ہیں۔ مگر یوں بھی تو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے، ہم تو ٹیپو سلطان، محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی جیسے بہادر سپہ سالاروں کے پیروکار ہیں۔

سوال تو ان سے بھی بنتے ہیں جو ہمیشہ سے مسلمانوں کو دہشت گردی کا سبب گردانتے آئے ہیں۔ مگر آج کہاں ہے امریکہ جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہتا ہے۔ یہ کیسا ثالثی کا کردار ادا ہو رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ستر سالوں سے لگے آرٹیکل کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔ جبکہ پاکستان اور عمران خان چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ خطے کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ دونوں ایٹمی قوتیں آمنے سامنے آ سکتی ہیں۔ جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔

سب کو انسانیت کا درس دینے والے، اب یہ نہیں دیکھ رہے کہ بے گناہ نہتے کشمیریوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ خواتین کی عزتوں سے کھیلا جارہا ہے۔ لیکن ٹرمپ اور امریکہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کیا برصغیر کے لوگ بس قربانی دینے اور مرنے کے لیے ہیں؟ پہلے 1947 میں انگریزوں کی گھٹیا ترین اور ناقص ترین تقسیم کی وجہ سے لاکھوں مسلمان، ہندو اور سکھ لقمہ اجل بنے اور انگریز کی ہی ناقص تقسیم کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پیدا ہوا جو آج تک چل رہا ہے۔

ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تقسیم ہند اور نوآبادیاتی سامراجی بندر بانٹ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل اور پاکستانی استحصالی معاشی اور مفاد پرستانہ نالائق سیاسی قیادت سے چھٹکارہ پانے کے لیے ایک ترتیب شدہ، منظم اور باشعور طریقے سے جدوجہد شروع کی جائے۔ اور ماضی میں ضیاء دور سے کی گئی غلطیوں سے توبہ کی جائے۔ جس کو ہم آج تک بھگتتے آرہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حکومت کی نالائقی اور نا اہلی ہے کہ سعودی عرب اس معاملے پر کچھ نہیں بول رہا اور اوپر سے سعودی عرب بھارت میں سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ چائنہ نے بھی چپ سادھ لی ہے ان کو شاید ہمارا امریکہ کے پاس جانا اچھا نہیں لگا۔ جبکہ یو اے ای تو نریندر مودی کو اعلیٰ سرکاری اعزاز سے نواز رہا ہے اور ہم ان ممالک کے سامنے کوئی احتجاج تک ریکارڈ نہیں کروا سکے۔

مگر خیر اس سب کے باوجود عمران خاں نے اپنے حالیہ بیانیہ میں بالکل درست کہا ہے۔ کہ بھارت سے مذاکرات اور امن و امان سے خطے کی صورتحال پر بات چیت کی بات بہت ہوگئی۔ اس پیشکش کو نہ تو بھارت سنجیدہ لے رہا ہے اور نہ ہی امریکہ، اب ہمارے لیے بہتر یہی ہے کہ ہم بھی اپنی تیاری پوری رکھیں۔ بجائے اس کے کہ اور منتیں کریں۔ کیوں کہ بھارت کا اگلہ ٹارگٹ آزاد کشمیر ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).