جنت کشمیر لہو لہان، ہزاروں نوجوان گرفتار، خواتین سے دست درازیاں


بھارتی ہند انتہا پسند حکومت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کشمیری عوام تین ہفتے گزر جانے کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی اوپن ائیر جیل میں اسیر ہیں۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی و مسلسل کرفیو کے سبب کشمیر کی صورتحال روز بہ روز سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ کشمیری عوام سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے اور عالمی دنیا صرف رسمی بیانات تک ہی محدود ہے۔ سلامتی کونسل کے غیر رسمی مشاورتی اجلاس کے بعد عالمی طاقتوں کی جانب سے ممکنہ عملی اقدامات کا تاحال انتظار کیا جارہا ہے۔

جارح افواج کا ہزاروں نہتے و بے گناہ کشمیریوں کو گھروں سے حراست میں لینے کا سلسلہ جاری ہے اور یہ ظالمانہ اقدام اس قدر بڑھا کہ کشمیر میں زیر حراست لئے جانے والے بے گناہوں کو رکھنے کی جگہیں کم پڑ گئیں۔ پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیری نوجوانوں کو بھارت میں غیر قانونی طور پر بدنام زمانہ حراستی ایکٹ کے گرفتار کیا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لاک ڈاؤن کے ساتھ ہی غیر قانونی چھاپوں میں سینکڑوں خواتین پر دست درازی کی رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں۔

جن میں بھارتی جارح سیکورٹی فورسز نے چھاپوں کے دوران متعدد خواتین اور کم عمر لڑکیوں کے ساتھ دست درازی کی، دست درازی کی شرمناک واقعات کا ارتکاب اور ہزاروں نوجوانوں کو 21 اگست کی رات تک گرفتار کرکے ٹارچر سیلوں میں منتقل کیا جاچکا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بھارت کے ایک گروپ نے مقبوضہ وادی میں متاثرین سے گفتگو کے بعد اپنی رپورٹ تیار کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تمام متاثرین کیمرہ کے سامنے بات چیت سے ڈری ہوئی تھیں۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ علاقائی پولیس، آرمی اور پیراملٹری فورسز نے چھاپوں میں سیکڑوں نوجوانوں کو گرفتار اور خواتین اور کم عمر لڑکیوں پر دست درازی کی۔ یاد رہے کہ غاصب بھارتی فوج نے مقبوضہ وادی میں احتجاج کو دبانے کے لئے بدترین کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور اب تک 10 ہزار سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت غلط فہمی کا شکارہے کہ اس طرح وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریک کو دبانے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن مودی سرکار کی توقعات کے برخلاف کشمیریوں حریت آزادی کا جذبہ مزید شدت سے ابھرا ہے اور موقع ملتے ہی بھارتی جارح افواج کے خلاف زبردست مظاہرے کیے جاتے ہیں اور بھارتی جارح افواج ان مظاہروں کو منتشر کرنے کے لئے پیلٹ گن سمیت تمام غیر ریاستی ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر امریکی صدر نے ایک بار پھر ثالثی کی پیش کش کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت وزرائے اعظم سے ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی اور ٹویٹر پیغام میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے حوالے سے مثبت بیان جاری کیا۔

مریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر مسئلے کو ’مشکل حالات‘ مانتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے اس معاملے پر بات کی ہے اور دونوں رہنماؤں کو کشیدگی کم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ٹرمپ نے ٹوئٹ کر کے کہا ”میں نے اپنے دو اچھے دوستوں مسٹر مودی اور مسٹر خان سے کاروبار، اسٹریٹجک شراکت داری اور سب سے اہم کشمیر مسئلے کو لے کر پیداہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کے سلسلہ میں بات چیت کی۔

دونوں رہنماؤں سے مشکل حالات میں لیکن اچھی بات چیت ہوئی ہے ”۔ صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ“ پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے حال ہی میں ملاقات ہوئی، جب وہ یہاں آئے ہوئے تھے، جب کہ بھارتی وزیراعظم مودی سے رواں ہفتے فرانس میں ملاقات ہوگی ”۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ“ مسئلہ کشمیر دیرینہ اور بہت پیچیدہ مسئلہ ہے، جو کہ دہائیوں سے چل رہا ہے، سچ پوچھیں تو وہاں صورت حال انتہائی کشیدہ ہے، کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑائیاں ہو چکی ہیں، یہ کوئی ہلکے ہتھیاروں کی لڑائی نہیں ہے بلکہ اس میں بھاری اسلحہ استعمال ہوتا ہے ”۔

دوسری جانب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بھی بھارتی وزیراعظم نریندرمودی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا، بورس جانسن نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا دوطرفہ معاملہ ہے اسے مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ ٹین ڈاوننگ اسٹریٹ کی ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہنا تھا کہ نریندر مودی اور بورس جانسن کے درمیان بات چیت میں کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ برطانوی وزیر اعظم نے واضح کیا کہ کشمیر کے معاملے کو بھارت اور پاکستان دو طرفہ مذاکرا ت کے ذریعے حل کریں۔

ہند و توا ایجنڈے پر چلتے ہوئے انتہا پسند مودی سرکار کسی بھی قسم کے احتجاج کو خاطر میں نہیں لا رہی اور بزور طاقت مزاحمت تحریک آزادی کو دبانے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بھارت کے اندر بھی سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر آئینی جارحیت کے بعد بھارت نواز کئی کشمیری رہنماؤں نے مودی سرکار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس حوالے سے گذشتہ دنوں بھارت کے نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات امرتیہ سین نے بھی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے وہاں کرفیو نافذ کرنے پر مودی سرکار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

امرتیہ سین نے این ڈی ٹی وی کو انٹرویو میں مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر کڑی تنقید کرتے ہوئے زور دیا کہ ”تمام انسانوں کے حقوق کو برقرار رکھا جائے، جمہوریت کے بغیر کشمیر کے حالات میں تبدیلی لانا ناممکن ہے، بھارت دنیا بھر میں جمہوریت کے لئے جانا جانے والا پہلا ملک تھا لیکن اب ہم وہ ساکھ کھوچکے ہیں، کشمیر سے متعلق بھارتی اقدام تمام انسانوں کے مساوی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور صرف اکثریت کے اقتدار کو تقویت دیتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3